برمش پر حملہ سیاسی غلطیوں کی سزا۔۔؟

رشید بلوچ
برمش جسے اردو میں آہٹ کہا جاتا ہے یہی وجہ تھی برمش کی والدہ ملک ناز کو رات کے ٹھپ اندھیرے میں خونی درندوں کی آہٹ (برمش) سنائی دی،ملک ناز نے اپنے سر کی قربانی دے کر برمش کو بچا ئی،آج پورے بلوچستان و سندھ میں برمش کی آوازیں آرہی ہیں،کاش مسلح جھتوں کی برمش کی آواز سیاسی جماعتوں کو تب آرہی ہوتی جب مسلح جھتوں کی آبیاری کی جارہی تھی تو شائد ملک ناز اپنے گھر میں پر سکون سورہی ہوتی کسی مسلح جھتے کی برمش سے اسے چونکنا نہ پڑتا اور اپنی جان گنوانا نہ پڑتی،نہ جانے دھرتی پر کتنی ملک ناز ہیں جو ہر شب کسی نہ کسی لشکر کے برمش کی آواز سے روز چونکتی ہوں گی،نہ جانے کتنی ملک ناز اپنی برمش کو لوری سنانے کے بہانے رات بھر جاگا کرتی ہیں تاکہ کسی مسلح جھتے کی برمش پر چوکنا ہوجائیں،انہیں پتہ ہے وہ کسی مسلح جھتے کو شکست نہیں دے پاتیں لیکن مزاحمت کرکے جان تو دے سکتی ہیں۔۔۔۔۔
بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کا المیہ رہا ہے کہ ہمیشہ انہوں نے آپسی بے مقصد اختلافات کو پروان چڑھا کر انہیں اہم قومی معاملات پر ترجیح دی ہے،وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ہم عصر پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلا کر تھوڑی بہت ووٹر کیہمدردی حاصل کی جاسکے اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ہم عصر جماعت کی مخالفت کرکے اپنی وجود برقرار رکھنے کی کمزور سی کوشش کی جاسکے، یہاں ہمارا ہم عصر جماعتیں کہنے کا اشارہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کی طرف ہے چونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنی تئیں خود کو بلوچ نمائندہ پارٹیاں کہتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ دونوں جماعتیں کس حد تک حق نمائندگی ادا کررہی ہیں،
جب ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلی تھے،ایک دن باتوں،باتوں میں بی این پی کے ایک دوست سے استفسار کیا کہ آپ کے اور نیشنل پارٹی کے درمیان اختلافات کس نظریاتی بنیاد پر ہیں جواب ملا کہ نیشنل پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی گائیڈ لائن پر چلنے والی جماعت ہے،بقول ان کے جب اختر مینگل پر مقدمات چل رہے تھے جیل میں انہیں جان سے مارنے کی سازش رچی جارہی تھی اس وقت نیشنل پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے کی ڈیل کر رہی تھی، اختر مینگل کے دور جلا وطنی میں جھالاوان اور مکران میں بی این پی کے ووٹرز اور کارکن کو نیشنل پارٹی میں شامل ہونے اور اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے اسٹیبلشمٹ کے زریعہ دباؤ بڑھا یا جا رہا تھا، پچھلے ادوار میں نیشنل پارٹی برسر اقتدار تھی تو بی این پی اسے اسٹیبلشمنٹ کی پیروکار کہا کرتی تھی،اب بی این پی پارلیمنٹ میں ہے تو نیشنل پارٹی کا وہی موقف ہے جو بی این پی کا نیشنل پارٹی سے متعلق تھا،اب یہ نہیں معلوم کہ دونوں جانب سے لگائے گئے الزامات میں کس حد تک سچائی ہے،کس حد تک جھوٹ ہے اور کس حد تک بد گمانی؟
بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے مابین اختلافات سے ان دونوں جماعتوں نے کسی قسم کی مالی آسراتی اور اقتدار حاصل کرنے کا فائدہ اٹھا ہو یا نہ ہو لیکن مجموعی طور پر بلوچ راج نے اسکی بھاری قیمت چکائی ہے، بیروزگاری،بد امنی اور معاشی بد حالی کا نقصان تو اٹھایا ہے اور اٹھا رہی ہے لیکن سب بڑا نقصان یہ ہوا کہ روایتی سردار،غیرسیاسی عناصر نے سیاسیت کا خلا بھر دیا ہے،غیر سیاسی جھتے پارلیمان میں رسائی حاصل کرکے وزیر،مشیر، پالیسی ساز عہدوں میں برا جمان ہوگئے، انہی غیر سیاسی جھتے نے مسلح جھتوں و لشکر کی آبیاری کرکے انہیں خوب پروان چڑھا یا،چونکہ ان لوگوں کو کا گراس روٹ لیول پر عوام سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا ہے عوام میں اپنا رعب و دبدبہ برقرار رکھنے کیلئے بڑی بڑی مہنگی گاڑیا ں،مسلح بد قماش لوگوں کو محافظ بنانا انہیں زیادہ سوٹ کرتا ہے،ظاہر ہے ان عناصر کو طاقتور بنانے کیلئے زور آوروں کا بھی بڑا عمل دخل ہے جو نہیں چاہتے کہ سیاسی ماحول کی آبیاری ہو اور یہ پھلے پھولے،
قومی جماعتوں کا موٹو ہمیشہ قوم کو بحرانوں سے نکالنے ہوتا ہے وہ نا مساعد حالت میں قومی بہتری کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ یا حل تلاشتے رہتے ہیں لیکن شومئی قسمت یہ کہ خود کو راجی جماعت کہلانے ولی پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہر وہ کام کرتی ہیں جو،غیر سیاسی عناصر کرنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہیں تو زور آور قوتوں اور مقتدرہ حلقوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ترجیح دیں،؟ بجا طور پر ہر سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد ہی پاور حاصل کرکے اپنی قوم،ملک و صوبے میں بسنے والی عوام کا فلاح و بہبود کرنا ہوتا ہے لیکن اسکے لئے بھی چند اخلاقیات،اصول وضع کیئے جاتے ہیں جب جملہ قوائد ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سیاست کا صرف اور صرف مقصد اقتدار حاصل کرنا ہو تو پھر ایک نظریاتی سیاسی جماعت اور راتوں رات بننے والی جماعت میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے،
اب نیشنل پارٹی کو سوچنا چاہئے کہ ماضی میں اس سے کہاں اور کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جب کہ بی این پی بھی غور فکر کرے کہ وہ کیا غلطی کرنے جارہی ہے،غلطیوں کے سدھار سے سانحہ ڈنک جیسے واقعات کو مستقبل میں روکا جاسکتا ہے تاکہ کسی ملک ناز،برمش پر حملہ آور جھتے پیدا نہ کیئے جاسکیں،اگر ماضی کی غلطیاں کا ازالہ نہ کرکے از سر نو بہتر رستے کا انتخاب نہ کیا گیا تو سمجھ لیجئے سانحہ ڈنک میں جتنا گناہ گار مسلح جھتے اور اسکے پروان چڑھانے والے ہیں اتنی ہی مہ داری خود کو قومی جماعت کہنے والوں پر بھی عائد ہوگی
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں