مجھ کو منظور نہیں غلبہ ظلمت

راحت ملک
ایک متحرک اور مستقبل کے بارے میں پر جوش یقین رکھنے والا سماج لازمی طور پر چند بنیادی انسانی اوصاف یعنی۔تحفظ ذات. اور جمہوری اقدار پر بنی اختلاف واتفاق رائے کے حق پر یقین رکھنے سے ہی قائم ہوتا ہے۔بلا شبہ جمہوری. رجحانات راسخ العقیدہ نہیں ہوتے۔ یہ محض آزادی اظہار کے حصول کے مطالبے تک محدود سوال نہیں بلکہ وسیع تر معنوں اور معاشرتی تعامل میں انسان دوستی اور اپنی رائے قائم کرنے اسے ظاہر کرنے کے ساتھ دوسروں کے حق اختلاف کو قبول کرنے انہیں آزادانہ طور پراس کا اظہار کرنے یا ان پر عمل کرنے کی بلا خوف دستیابی یقینی بنانے کا نام ہے ان مجموعی اقدار نیز جمہوریت پر غیر متزلزل یقین کو پختہ تر بنانے کا فریضہ انجام دینے والی دستاویز عمرانی معاہدہ۔دستور.یا ملکی آئین کہلاتا ہے جسے لازمی طور پر ایک جمہوری سماج وریاست اختیار کرتی ہے۔دستور ہی جدید شہری سماج میں مملکت ” کو "ریاست ” اور رعایا-۔کو
” شہری ” کا ارفع درجہ عطاء کرتا ہے عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد افتخار سے یہ باہمی تعلق ایثار وقربانی اور تحفظ کی سہ نکاتی سیاسی ثقافت مرتب کرتا ہے جو مستحکم ہو تو عوام آسودہ اقوام مطمئن اور ریاست ناقابل شکست ہوجاتی ہے یہ رشتہ وقت وحالات میں کسی بھی قسم کے تغیر حادثات ومشکلات کے باوجود دائمی طور پر لازما قابل عمل اور ناقابل تنسیخ ہوتا ہے کسی بھی قسم کی تفریق،تساہل غفلت لاپرواہی اگر اس یقین کو متزلزل کرئے جس کا عہد وپیمان ریاست اورشہری کے درمیان دستور یا آئین کی صورت ایک معاھدے کے طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے تو دونوں فریقین (شہری اور ریاست)کے درمیان بیگانگی در آتی ہے تب مملکت کے اتحاد کا شیرازہ خطرات کی زد میں چلا جاتا ہے بلکہ تاریغ کے اوراق میں مذکورہ صدر صورتحال میں کئی ریاستوں کے جغرافیے بکھر جانے کی مثالیں موجود ہیں جیسے کہ سوویت یونین کا بکھر آ،ہندوستان کی تقسیم،مشرقی تیمور،سوڈان کی تقسیم اور 1991ء میں پاکستان کے دو نیم ہوجانے کا سانحہ۔
پاکستان جو سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک وفاقی جمہوری ریاست کے ایجنڈے پر قائم۔اسے آغاز ہی سے خطرات نے گھیر لیا۔بیرونی اور اندرونی خطرات کی اس کہانی کے نتیجے میں ملک سیکورٹی سیٹ بن گیا۔بلا شبہ ہمارے ملک کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اپنی علاقائی سالمیت و وحدت برقرار رکھنے میں چیلنجز درپیش تھے۔جنہیں پائیدار انداز میں کم از کم سطح پر لانے کی کوشش کرنے کی بجائے مقامی علاقائی اور عالمی سیاسی تنازعات کے ساتھ جوڑ کر حل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی نتیجہ مسلسل عدم استحکام کے علاوہ داخلی سیاسی بحران میں روز افزوں گہرائی اور اضافے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے بلوچستان تاریخی طور پر پاکستان کا جس طرح جغرافیائی حصہ بنا وہ اس وقت موضوع بحث نہیں لیکن یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ مذکورہ عمل تاحال غیر متنازعہ قرار نہیں پاسکاچنانچہ ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ سوال سر اٹھاتا رہا ہے اور حالیہ دو دہائیوں سے اسی پس نظر میں بلوچستان میں شدید عوامی بے چینی موجود ہے جسے سرکاری حلقوں میں بدامنی بھی کہا جاتا ہے اس دوران ہزاروں افراد اپنا گھر بار جان ومال اس آگ میں گنوا چکے ہیں۔متحارب فریقین کا جو بھی جانی ومالی نقصان ہوا ہے اور انسانی المیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ دراز ہورہا ہے جس سے مادر ٍ وطن بلوچستان کا چپہ چپہ لولہان ہے انسانی خون کی ارزانی کی اس کہانی کی کئی جہتیں ہیں۔نسل انسانی کا بہتا خون،جمہوریت انسان دوستی اور ریاستی آئین کی روح کے سراسر منافی عمل ہے۔خون کی اس بہتی ندی میں ملک کی ایک اہم وفاقی اکائی کے عوام ملک سے بیگانگی کا شکار ہورہے ہیں جس کا نتیجہ کسی بھی طور پر بہتر شکل میں سامنے آنا مشکل ہے۔
یہ درست ہے کہ ان حالات میں متحارب فریقین کا لڑائی میں ہونے والا انسانی جانوں کا اتلاف شدید طور پر قابل مذمت ہے تاہم لواحقین کے لئے اس صدمے کو وقت کا مرہم مندمل کردیتا ہے۔ مگر بد ترین واقعات جن کی شدت اور دکھ کی گہرائی و صدمیکو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے وہ لوگوں کی گمشدگیاں ہیں اس گھرانے کے غم کا اندوہ بر وہ انسان محسوس کرسکتا ہے جو خود کسی گھرانے کا چشم وچراغ ہو۔کیا گذرتی ہے اس ماں باپ،بہن،بیوی،اولاد یا بھائیوں پر جن کا بیٹا،باپ،بھائی یا خاوند اچانک لاپتہ کردیا جاتا ہے حالیہ مہینوں میں واقعات کی تعداد اور انداز میں کار فرما تسلسل کو ملحوظ رہیں تو یقینا ” لاپتہ ” ہوجانے کی "لفظی ترکیب ” بے معنی ہوچکی ہے کہ اب سب کو –کھو جانے والوں کا” پتہ ” معلوم ہوتا ہے۔
بلوچستان میں اس دہائی میں کوشش بسیار سے زندگی میں رفق لوٹی تھی۔ویرانوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ اور گمشدگیوں میں کمی آئی تھی۔جس پر وسیع عوامی حلقوں میں یک گونا اطمینان کا اظہار بھی ہوا تھا۔بازاروں کی رونق بحال ہوئی تھی۔شاہراہوں پر سفر کا رکا ہوا سلسلہ از سر نو چلنے لگا تھا۔خوف اور عدم تحفظ کی فضاء میں کمی آئی اور مسموم فضاء میں پھیلی بارود کی بد بو مانند پڑنے لگی تھی مگر شومئی ٍ قسمت دنیا میں کرونا کی بھیانک وباء نے زندگی ویران کی تو بلوچستان میں کرونا کی وباء دوھرے عذاب میں بدلتی چلی گئی۔
اس عرصہ میں آمدہ عوامی اطلاعات میں بلوچستان کے اندرونی علاقوں،بالخصوص بلوچ دیہات و بستیوں میں تلاشی لینے کا سرکاری سلسلہ شدت اختیار کرگیا بعض واقعات کے متعلق خلق خدا نے جو کہانیاں چادر وچار دیواری کے بے حرمتی کے متعلق بیان کی ہیں وہ اہل بلوچستان کے کالونی تک تو پہنچی ہیں مگر میڈیا اور اقتدار کی راہداریوں میں سنائی نہیں دیں کہ وہ بہت دلخراش ہیں حتیٰ کہ انہیں بیان کرنا بھی ناممکن ہے کسی خوف کی یا ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے سماجی رویے اخلاقی ضوابط اور اسلامی تعلیمات کے تقاضوں کی بنا پر۔
کیچ میں ڈنگ کے ایک گھر میں مسلح افراد کا گھر میں گھس کر گودی ملکناز بلوچ کو شہید کرنا اور کم عمر معصوم برمش بلوچ کو زد کوب کرنا۔ پھر گودی حسیبہ قمبرانی کی بلکتی ہوئی صدائے احتجاج۔ مکران میں ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا انجام اور رد عمل،خاران میں محنت کشوں پر بلاوجہ فائرنگ سے ہلاکتیں، منتاز سیاسی رہنما ساتھی ادریس خٹک کی گمشدگی کس سے کہوں کہ ارمان لانی کے قاتل کو قانون کے کٹہرے لائے
کس کس واقعے کی درد بھری کہانی رقم کروں۔!!!!
فیض صاحب بہت پہلے فرما گئے تھے
قریب آ اے مہہ شب غم۔نظریہ کھلتا نہیں کچھ اس دم
کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے،کون سے نام بجھ گئے
بلوچستان لہو لہو کیوں ہے؟کیا بلوچستان آئین پاکستان سے ماوراء امنگوں کا طلب ہے؟ قطعی نہیں۔بلکہ بلوچستان کی سیاست جمہوری ہو یا مسلح اپنی اصل میں آئین پاکستان سے ریاست کے انحراف کے خلاف جہد کے مترادف رہی ہے،بلوچستان آئین کے مطابق وفاق پاکستان کی ایک اکائی کی حیثیت سے وفاق میں اپنے فطری آئینی انسانی سیاسی استحقاق کا طالب ہے۔بلوچستان میں گمشدگیوں پر بھی کسی جانب سے بھی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا. ھم صرف آئین و قانون کی پاسداری چاھتے ہیں۔ لاپتہ افراد نے اگر قانون شکنی کی ہے انہیں قانونی طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے جرم ثابت ہو تو قرار واقعی سزا دی جائے بیگناہ ہوں تو قید و بند رکھنا ان کے ساتھ ناانصافی اور ملکی قانون کی توہین ہے۔ بلوچستان آئین پاکستان کی دفعات 9۔ 10۔10A۔14۔15۔17۔19۔25۔28 پر حرفناٰ معناً عملدرآمد کا مطالبہ کررہا ہے۔ریاست اپنی قبول شدہ آئینی ذمہ داریاں /فرائض پورے کرے پھر ہم سے وہ آئین کی دفعہ5کی بابت سوال کرنے میں حق بجانب ہوگی۔ورنہ نفرت اور بیگانگی کے بطن سے ہر روز المئے ہی جنم لیں گے۔ ہم یہ بھی نہیں چاہتے اور نہ ہی غلبہ ٍ ظلمت کو قبول کرتے ہیں۔ کوئی ہے جو بلوچستان کے کوہ و بیابانوں کی ان صداؤں کو سنے سمجھے اور تدارک کرنے!!!!!
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں