بلوچستان کے بچوں کو پڑھنے دو

رشید بلوچ
کرونا کو لیکر صوبائی حکومتیں عجیب تذبذب سے دوچار ہیں،حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا حفظ ماتقدم کے طور پر کس ٹائپ کی حکمت عملی اپنا ئی جائے،وزیر اعظم عمران خان تو شروع دن سے لاک ڈاؤن مخالف رہے ہیں ان کے بقول مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے سسکتی معیشت کو وینٹیلیٹر بھی نہیں بچا پائے گی دوسری طرف کرونا کی شروعات کے دنوں سے پیپلز پارٹی سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔جسے ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن شاباش دے رہی ہے جب کہ مرکزی حکومت کے وزیر ومشیر سندھ حکوت پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں،آخر کار مقتدرہ کی مداخلت پر مجبوراً پی ٹی آئی حکوت کو پنجاب اور خیبر پشتونخواہ میں لاک ڈاؤن کرنا پڑی بلوچستان حکوت دیکھا دیکھی دیگر صوبوں کو فالو کرنے لگی، چونکہ شروع دن سے حکومتی سطح پر کرونا وائرس سے نمٹنے سے متعلق کوئی واضح حکمت عملی اپنا نے کی صلاحیت موجود نہیں تھی دباؤ میں آکر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا لیکن بینکنگ سیکٹر کو کھلا رہنے دیا گیا،کاروبار بند کرکے بینکوں کو کہا گیا کہ منافع کماؤ،ظاہر ہے بغیر حکمت عملی سے کیے گئے فیصلے غلط ہوتے ہیں وہ تا دیر نہیں چل سکتے،منصوبہ بندی کے بغیر لگائے گئے لاک ڈاؤن پر بہت جلد کاروباری طبقے نے احتجاج شروع کردیا آخر کار حکوت کو لاک ڈاؤن کو سلسلہ وار ختم کرنا پڑا،
مارکیٹیں،دکانیں،ہوٹلز اور ٹرانسپورٹ تو کھل گئی لیکن اب مسئلہ یہ پیدا ہورہا تھا کہ صحت اور تعلیمی اداروں کو کھولنے کیلئے کس طرح کی حکمت عملی بنائی جائے تاکہ بچوں کی تعلیم جو رُک گئی تھی اسے دوبارہ شروع کیا جا سکے لیکن اس مسئلے کا حل بھی حکومت پاس ایک ہی رہگیا تھا کہ حسب روایت ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کر کے آن لائن کلاسز کے اجرا کا فیصلہ کیا جائے،سب سے پہلے سکولوں کی آن لائن پڑھائی کا آغاز کیا گیا،سکول والوں نے پڑھائی کا طریقہ کار ایسا ایجاد کیا ہے کہ بچوں کووالدین خود پڑھائیں اور پوری فیس سکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے ادا کرتے جائیں جب کہ اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصولتے ہیں،سکولوں کی“پڑھائی“کا بے مثال کارنامہ جاری تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سکول پالیسی سے متاثر ہوکر حکم جاری کردیا کہ انکی پڑھائی بھی آن لائن ہوگی،ایچ ای سی کے حکم کے تحت یکم جون سے باقاعدگی سے آن لائن پڑھائی کا آغاز کیا جا چکا ہے اس فیصلے سے کراچی،لاہور،اسلام باد،کوئٹہ،پشاور سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں جہاں انٹر نیٹ سروسز بلا تعطیل موجود ہے ایسے شہروں کے رہنے والے طلبا و طالبات کو کوئی پریشانی اور دقّت کا سامنا نہیں اور یہ اچھی بات ہے کہ انکے تعلیمی سال کسی نقصان سے بچ جائے گا لیکن مسئلہ بلوچستان کے ان طلباء و طالبات کو درپیش ہے جہاں انٹر نیٹ سروس تو کجا بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں موبائل فون سروسز کی سہولت موجود نہیں اگر کہیں پر یہ نعمت موجود ہے بھی وہاں بھی سگنلز کی آنکھ مچولی سے بات کرنا محال ہوجا تا ہے،ایسے پسماندہ دیہی علاقوں کے باسیوں کو کہا جارہا ہے کہ بڑے شہروں کی طرح آن لائن کلاسیں لینا شروع کردو،
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اس فیصلے سے بلوچستان کے طالبہ و طالبات روزانہ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں لیکن تادم تحریر انکی اشک شوئی کیلئے کسی کو آگے بڑھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ہے بلکہ اشک شوئی تو کجا بلکہ بعض علاقوں میں طلبا طالبات کو احتجاج ریکارڈ کرنے سے بھی روکا جارہا ہے،مجھے کسی دوست کا خاران سے فون آیا کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچستان کے طلبا احتجاجی کیمپ لگانا چاہتے ہیں انہیں کہیں سے روکا جارہا ہے میں نے کراچی کے دوستوں سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ کراچی پولیس احتجاج سے روک رہی ہے تاہم کسی نہ کسی طریقہ سے احتجاجی کیمپ لگانے کی اجازت مل گئی،اسکے بعد احتجاج میں بیٹھے ایک بچے نے اپنی موبائل کی اسکرین شاٹ مجھے روانہ کیا جس پر لکھا تھا Temperature is too high.camera is temporary unusableہمارے بچوں کو بہتر تعلیم حاصل کرنے کے پاداش میں جھلسا دینے والی گرمی میں بیٹھنے کی سزا دی جارہی ہے،انہیں پیغام دیا جارہا ہے کہ ہائر ایجوکشن حاصل کرنے کا تمہارا حق چھین لیا گیا ہے، کیا ہائر ایجو کیشن کمیشن اتنا انجان ہے کہ فیصلہ کرنے پہلے وہ نہیں جانتا تھا کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں دیگر سہولیات کے علاوہ انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہیں ہیں چہ جائے کہ بلوچستان کے بھی علاقے کا موازنہ اسلام باد جیسے شہر سے کیا جارہا ہو۔یہ بلوچستان بھی عجیب بد قسمت خطہ ہے جن کے باسیوں کی قسمت میں شاید قدر ت نے سکون کا خانہ لکھنا بھول گیا ہے، ہماری بچے بچیاں کبھی برمش پر حملے کے خلاف کبھی اپنے پیاروں کی بازیابی اور کبھی تعلیم کے حصول کیلئے تپتی دھوپ اور یخ بستہ ہواؤں میں کھلے آسمان تلے رُل رہے ہوتے ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں