وفاقیت کا تصور اور پاکستان میں وفاقیت کی بنیادیں

مشکور انور بلوچ ایڈوکیٹ
وفاقی نظام حکومت (فیڈرل ازم) لاطینی زبان کا لفظ ہے جو لفظ فیوڈوس سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ی معاہدہ کرنا یا اتفاق رائے سے فیصلہ سازی کرنا ھے. مختلف قومیں رضاکارانہ طور پر اپنے مفادات کے لیے یکجا ھو کر اختیارات اور طاقت کو جدید ریاست میں منتقل کرتی ہیں اور انہیں مرکز اور وحدتوں میں تقسیم کرکے ایک متوازن آئینی ڈھانچہ تشکیل دیتی ہیں۔
آکسفورڈ ڈکشنری میں فیڈرل ازم کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
” A system of government in which the individual states of a country have control over their own affairs, but they share powers and controlled by central government for collective decisions”.
ترجمہ: ایک ایسا حکومتی نظام جس میں ریاستیں یا قومیں اپنے اندرونی معاملات میں مکمل خودمختار ھوتی ہیں۔ لیکن وہ ریاستیں اور قومیں ملکر مرکزی حکومت کے ذریعے اپنے اجتماعی فیصلے کرتی ہیں۔
درج بالا وضاحت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک سے زیادہ قومیں ملکر وفاق بناتی ہیں۔ وفاق حکومت اور وفاقی اکاہیاں اپنے آئینی اختیارات رضاکارانہ طور پر تقسیم کرکے ریاستی امور چلاتی ہیں.
وفاقی طرز حکومت میں اختیارات تین واضح میں سطحوں میں تقسیم ہوتے ہیں.
۔1۔ مرکز
2۔ وفاقی وحدتوں
3۔ لوکل گورنمنٹ(بلدیاتی ادارے)
وفاقی آئین میں تینوں سطحوں کے اختیارات کا تعین واضح ہوتے ہیں اور سب اپنی آئینی حدود میں رے کر کام کرتے ہیں۔اگر ان میں سے کوئی بھی اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کرے تو اس کے تدارک کیلئے آزاد اور بااختیار عدلیہ موجود ہوتی ھے۔
وفاقی ریاست میں بنیادی طور پر پانچ خصوصیات کا ہونا لازمی ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔آئین کی بالادستی
2۔ اختیارات کی تقسیم
3۔ آذاد عدلیہ
4۔ سخت گیر آئین)آسانی سے ترمیم نہ ہو(
۔5۔ تحریری آئیں (اختیارات اور ذمہ داریاں تحریری شکل میں ہوں)
اٹھارویں صدی کے روشن فکر خیالات پر مشتمل دنیا کی پہلی وفاقی آئین پر مشتمل ریاست امریکہ میں قائم ھوئی۔امریکی آئین میں وہ تمام خصوصیات شامل ہیں جو ایک وفاقی آئیں میں ہونی چاہیے۔امریکی آئین میں اقوام کے نمائندہ ادارہ یعنی سینیٹ کو طاقت ور ادارے کی حیثیت حاصل ھے۔ سیاسی اور آئینی ماہرین کے مطابق امریکی سینٹ اس وقت دنیا میں طاقت ور ترین ایوان بالا ہے۔
امریکی آئین میں اداروں کے مابین اختیارات میں توازن (چیک اینڈ بیلنس) کو خاص اہمیت حاصل ھے۔ صدر، کانگریس اور عدلیہ ایک دوسرے کے اختیارات کی نگرانی اور آپس میں عوام اور ریاست کے مفادات کی نگہبانی کے لئے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔مثلا صدر کو کانگریس سے پاس شدہ بل کو مسترد (ویٹو) کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح سینیٹ کو اہم تعیناتی اور بین الاقوامی معاہدات کی توثیق کا اختیار حاصل ہے اور اس کے لئیے سینیٹ میں مخصوص اکثریت سے پاس ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح داخلی معاملات میں وحدتوں کو قانون سازی میں مکمل خودمختاری حاصل ہے جو کہ ایک حقیقی وفاقی آئین کے تصور کی بہترین مثال ہے۔
پاکستان میں وفاقیت کی بنیادیں
قیام پاکستان سے چند سال پہلے جناح صاحب نے 8، نومبر 1945 میں امریکی پریس ایسو سی ایٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین وفاقی ہوگا جس میں امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلین کے مطابق دفاع، کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے پاس ھوں گے اور دیگر تمام اختیارات وفاقی اصولوں کے مطابق وحدتوں کے پاس ہوں گے۔
مسلم لیگ کا ھمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ ہندوستانی ریاستوں کو خودمختار کیا جائے۔ مسلم لیگ نے انڈین ایکٹ 1935ء کے مرکزیت کے خلاف باقاعدہ مطالبات پیش کئے۔ درحقیقت تحریک پاکستان بنیاد اکثریتی قبضہ گیری اور جمعداری کے خلاف ہندوستانی ریاستوں کے داخلی امور میں خودمختاری تھی۔
1940 کی قرارداد میں مسلم لیگ نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستان کی ریاستوں کو اندرونی خودمختاری دی جائے۔ تقسیم سے پہلے مسلم لیگی قیادت وفاقی وحدتوں کو خودمختاری کے حق میں تھی لیکن پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کی قیادت اپنے ہی مطالبات سے منحرف ہو گئی اسکی مثال 1940 کی قرارداد کے مطابق وحدتوں کی خودمختاری کو ایک طرف رکھ کر ون یونٹ کا نفاذ تھا۔ دوسری طرف پاکستان پہلا آئین 1956 اور دوسری آئین 1962 میں مرکز میں قوموں کے نمائندہ ادارہ سینیٹ (ایوان بالا) کا تصور نہیں تھا۔ پہلی بار 1973 میں سینیٹ کو آئین کا حصہ اس وقت بنایا گیا جب مشرقی حصہ ہم سے الگ ہوگیا تھا۔ قومیں سیاسی اور قومی حقوق و مفادات پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ انگریزوں کے خلاف ہندوستان میں اختیارات سے محرومی کی وجہ سے جن بنگالیوں نے پاکستان کی تحریک میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اہم کردار ادا کیا اور بعد میں یہی لوگ یہ سوچنے پر کیوں مجبور ہوگئے کہ وہ خود کو مسلم بنگالی کے بجائے بنگالی مسلم بننا پسند کریں؟
ابن خلدون(1406_ 1332) کے مطابق "ریاستی شناخت کے لیے قومیت کو مذھب پر سبقت حاصل ہوتی ہے”۔
ستم ظریفی یہ ھے کہ سقوط ڈھاکہ کے دو سال بعد حکمرانوں نے 1973 بلوچستان میں حکمران جماعت نیپ کی حکومت کو ختم کیا جو کہ مرکز کی طرف سے قومی وحدت کی خودمختاری پر حملہ تھا اور وفاقی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔
ایوب خان نے غیر جمہوری طور پر بنیادی جمہوری نظام، ضیاء الحق نے آمرانہ صدارتی نظام اور جنرل پرویز مشرف نے بھی غیر جمہوری اور نیم پارلیمانی نظام کے ذریعے پاررلمنٹ کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر ریاستی قومیت اور قوموں کے تحفظ و حقوق کے ارتقاہی عمل کو شدید متاثر کیا۔ اس میں کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے کہ ماضی کی ان تمام مارشلاء حکومتوں نے ریاست کی وفاقی روح کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور افسوس حکمران اب بھی آئینی جمہوریت اور وفاقیت سے خائف ہیں اور غلط راستوں پہ چل رہے ہیں۔
اگر ہم وفاقی اصولوں پر مشتمل وفاقی ریاست کے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے آئین کا تقابلی مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہوگی کہ پاکستان محض نام کا وفاق ہے۔ آئین میں وفاقی اصولوں کو ہمہ گیر اہمیت نہیں دی گئی جس کا تصور جناح صاحب نے پیش کیا تھا اور نہ ہی قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس سلسلیمیں کوہی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے۔
مرکزی حکومت کی صوبے میں مداخلت اور صوبے میں سیلیکٹڈ حکومت سازی لانے کا عمل آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان میں 2018 کے عام انتخابات میں باپ نامی پارٹی کی تشکیل اور سازش کے تحت الیکش میں کامیابی اسکی واضح مثالیں ہیں۔ درحقیقت مرکز کا یہ عمل قومی وحدتوں پر حملہ ہے اور عوام کو انکے حقیقی نمائندوں سے محروم کرناہے جس سے معاشرے میں انتشار اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔
حالانکہ پاکستان جیسی کثیرا لاقوامی ریاست میں وفاق کو مضبوط کرنے کیلئے آئینی جمہوریت ہی واحد اور زبردست آلہ ہے۔ اس کے بغیر مضبوط وفاقی ریاست کا تصور ممکن نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جمہوریت کو کبھی بھی وہ مقام نہیں ملا جو اس ملک کی ضرورت رہی ہے۔
وفاقی ریاستوں کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ نہ صرف قومیں داخلی خودمختاری سے اپنی شناخت اور وسائل پر کنٹرول رکھتی ہیں بلکہ ریاستی قومیت بھی مضبوط ہوتی ہے جو بالآخر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف یکجا ہو کر ریاستی دفاع کے لیے ملک کے عوام کو ہر وقت تیار رکھتی ہیں۔
پاکستان کو حقیقی وفاق بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی اکاہیوں کی رضا اور منشا سے پالیسیاں مرتب کی جاہیں اور وفاقی اصولوں پر مشتمل آئینی ترامیم کا سلسلہ بڑھایا جائے۔ اور آئین کی بالادستی کے بنیادی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے وفاق اور وفاقی اکاہیوں کے مابین اختیارات وفاقی اصولوں کے مطابق تقسیم کئے جاہیں اور ان آئینی حقوق کے تحفظ اور عوام و اقوام کو انصاف کی فراہمی کے لئے آزاد عدلیہ کی بنیاد کو یقینی بنایا جائے۔
بصورت دیگر غیر جمہوری طرز فکر اور وفاقی اصولوں سے انحراف کے تسلسل سے ریاست میں معاشی، سیاسی اور سماجی عدم استحکام خطرناک شکل اختیار کرے گا۔ جہاں سے واپسی کا راستہ ناممکن ہوتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی نظام کی خصوصیات، وفاقی مسلمہ عالمی مفہوم اور جمہوری اصولوں کو سامنے رکھ کر ریاستی آئینی ڈھانچہ مرتب کیا جائے اور آئین میں موجود ان خامیوں اور کمزوریوں کا خاتمہ کیا جائے جو جمہوری اور وفاقی ریاست کے تصور کے خلاف ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں