بجٹ عوام دوست یا عوام دشمن

اداریہ
پاکستان میں بجٹ پیش کرنے کے موقع پر اپنے جذبات ریکارڈ کرانے کے لئے نعرے بازی اور شور شرابے سے کام لیتی ہے۔یہی کچھ امسال بھی دیکھنے کو ملااپوزیشن نے چینی چوراور آٹا چور چور کے نعرے لگائے جبکہ نعروں کی گونج میں وزیر صنعت حماد اظہر نے آئندہ مالی سال کا7137ارب کا بجٹ پیش کیابجٹ خساہ3,437ارب روپے بتایا گیا ہے۔حکومتی اخراجات میں سابق حکومتوں کے ادوار میں لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی2946ارب روپے کی جانی ہے یہ دونوں ملا کر دیکھے جائیں توملکی معیشت سکڑ کر قلیل (754ارب روپے) ہوجاتی ہے۔ایسی لنگڑی لولی معیشت جس میں سود کی ادائیگی اوربجٹ خسارہ(6383ارب) ہو،اس پر خوشی کے شادیانے بجانا ممکن نہیں۔اپوزیشن کو بھی ایوان میں نعرے بازی اور بینر لہرانے کی بجائے سنجیدہ رویہ اپنا چاہیئے تھا۔ اپوزیشن مانے یا نہ مانے اسے یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ ملک پر لادے گئے ناقابل برداشت قرضوں کا بوجھ ہی پاکستان کا اصل مسئلہ ہے2946ارب روپے سود کی ادائیگی کو نعرے بازی کے ذریعے ہوا میں نہیں اڑایا جا سکتا۔کورونا نے دنیا بھر کی معیشت پر جو دباؤ ڈالا ہے وہ ان دیکھا اور ناگہانی ہے اس کا دوش کسی حکومت کو نہیں دیا جا سکتا۔اپوزیشن کا اس حوالے سے یہ کہنا کہ 26فروری کو پہلا کیس سامنے آنے کے بعد حکومت کو فلاں فلاں اقدامات کرنے چاہیئے تھے12جون کو امریکہ، برطانیہ، برازیل، اٹلی اور فرانس کے کورونا اعدادوشمار دیکھ کریہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان ان دولت مند ملکوں کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بہتر پوزیشن پر ہے۔جس ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد مزارات کی قبروں کی مٹی کو بیماری کا علاج سمجھتی ہو وہا عالمی ادارہئ صحت کی ایس او پیز (اسٹینڈرڈآپریٹنگ پروسیجر)ماسک پہننا، ہاتھ نہ ملانا، فاصلہ رکھنا،اور بار بار اپنے ہاتھوں کو سینی ٹائز کرنے کی سو فیصد پابندی کی توقع نہیں کی جا سکتی،اور یہ عملی طور پر ممکن بھی نہیں۔موٹر سائیکل اور کار میں فیملی کے ساتھ سفر کرنا مجبوری ہے۔چنچی (6سیٹر موٹر سائیکل) ملک میں بکثرت استعمال ہونے والی سواری ہے اس میں فاصلہ کی شرط پوری کرنے کی ضد قابل عمل نہیں۔
اپوزیشن نے ملک کے معروضی حالات کی روشنی میں معقول بجٹ تجاویز تیار کرنے کی بجائے محض شوروغوغا والی حکمت عملی کو دہرایاآج زندگی کو کورونا کی وجہ سے نئے مسائل کا سامنا ہے نئے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھا جاتااور ایک مناسب معاشی پالیسی شیڈو بجٹ کے طور بپر پیش کی جانی چاہیئے تھی۔ یہ ملک کسی ایک پارٹی یا متعدد مختلف الخیال پارٹیوں کے کسی اتحاد کی موروثی جاگیر تھا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن دکھائی دیتا ہے۔اس کے اصل مالک اور حقیقی وارث عوام ہیں اور ان خط افلاس کے اوپر /نیچے رہنے والے(ایک دو ڈالر یومیہ پر) زندگی بسر کرنے والے عوام نے سابقہ حکومتوں کی نااہلی اور موجودہ حکومت کی نالائقی کے ثمرات اپنی نحیف جان پر کھیل کربرداشت کرنے ہیں۔عالمی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ کورونا سے جیسے ہی نجات ملے گی عالمی معیشت اور سیاست دونوں میں ایسی تبدیلی متوقع ہے جو نئے معاشی تقاضوں کا حل پیش کرنے کے لئے ضروری ہوگی۔اس کے آثار ابھی سے ملنے شروع ہوگئے ہیں۔امریکی پولیس کے ایک گورے افسر کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری کی ہلاکت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رات وائٹ ہاؤس کے بنکر میں گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔نسلی امتیاز کے خلاف عوامی غم و غصہ نے امریکا سے باہر بھی خاطر خواہ اظہار کیا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی شکست ابھی سے نظر آنے لگی ہے ورنہ وہ شکست کے بعد سیاست چھوڑنے کی بات نہ کرتے۔یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ عمل صرف امریکی صدر کی تبدیلی تک محدودنہیں ہوگا بلکہ اس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔عالمی سطح پر نئے معاشی اور سیاسی تعلقات کی ضرورت پیش آئے گی۔ پاکستان کے گردو پیش میں بھی تبدیلی کے اثرات مرتب ہوں گے۔اقوام متحدہ کو گھر کی لونڈی سمجھنے والی امریکی مقتدرہ کو اس کی قیمت چکانی ہوگی۔ڈبلیو ایچ او کے فنڈز کی ادائیگی روکنا اسے مہنگا پڑے گا۔اقوام متحدہ کو اپنا وقار بحال کرنا ہوگا۔
تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی عالمی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کو بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیئے۔اپوزیشن اور حکومت دونوں کو یاد ہونا چاہیئے کہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری 9100ورکرز کوفارغ کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ کے حکم پر 76000ریلوے ملازمین کی چھانٹی کے اثرات کو یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔یہ دائرہ مزید پھیل سکتا ہے۔اسٹیل مل کے فارغ ہونے والے ملازمین کو 23لاکھ کی خطیر رقم فی کس ملے گی وہ کچھ عرصہ احتجاجی سرگرمیوں سے الگ رہیں گے مگر ملک میں بیروزگاری کا بڑھتا ہوا طوفان کسی کے سنبھالے نہیں سنبھلے گا۔مہنگائی، غربت،بیماری اور بھوک کے ستائے ہوئے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔حکومت نے اس مرتبہ کورونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے مگر چینی، آٹا اور پیٹرول بحران سے اس کی انتظامی کمزوری سے پردہ اٹھا دیا ہے۔حالات کا تقاضہ ہے کہ عوام کو ہرممکن سہولت فراہم کی جائے۔پیٹرول مافیا سے باز پرس کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔یہ معمولی جرمانے اور رسمی شوکازنوٹسز جاری کرنے سے آگے جانے کا معاملہ ہے۔ زراعت کو ٹڈی دل نے تہس نہس کر دیا ہے اس کی بحالی کے لئے خصوصی توجہ دی جائے۔ٹیکس ریکوری کے نظام میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے سارا بوجھ عوام پر لادنے کی نقصان دہ روش ترک کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں