تو کجا من کجا

انور ساجدی
وہی حالات ہیں ہم فقیروں کے
دن فقط پھرے ہیں وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حبیب جالب نے اپنی یہ مشہور نظم 1989ء میں محترمہ بینظیر کے پہلے بجٹ پیش ہونے کے بعد کہی تھی چوہدری اعتزاز احسن کے مطابق ان پڑھ مشیروں نے بینظیر سے شکایت کی تھی کہ جالب نے آپ کیخلاف نظم لکھی ہے لیکن میں نے پوری وضاحت کی کہ جالب نے آپ کا اوربلاول کا نظام بطور استعارہ استعمال کیا ہے بلاول سے مراد دیس کے سارے بچے اوربینظیر سے مرادتمام خواتین اس وضاحت کے بعد ہی محترمہ مطمئن ہوگئی تھیں اصل میں محترمہ کو اردو پڑھنا نہیں آتا تھا جب وہ اپوزیشن میں تھیں تو جمیل سومرو کی ڈیوٹی تھی کہ وہ انہیں اردو اخبارات پڑھ کرسنائیں اس لئے وہ جالب کے شعر کی اصل روح کو سمجھ نہیں پائی تھیں۔بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ کے جتنے بھی بجٹ پیش کئے گئے یہ غلط اعدادوشمار کامجموعہ تھے ہر بجٹ میں کئے گئے دعوے جھوٹے نکلے قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں درست اعدادوشمار پیش کئے جاتے تھے لیکن ایوب خان نے جس طرح ہرچیز کی بنیاد غلط رکھی بجٹ میں غلط اعدادوشمار پیش کرنابھی انہی کا کارنامہ ہے اسی طرح یحییٰ خان کی عبوری حکومت نے معیشت کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا حالانکہ انہیں اسکی ضرورت نہیں تھی۔
یحییٰ خان کے کمالات کا یہ عالم تھا کہ مراکش کے تاریخی شہر رباط میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس میں جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ بحرہند میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے تو موصوف نے جواب دیا کہ اگر ہمارا سمندر بحر ہند ہے تو آپ انڈیا سے جاکر اس بارے میں سوال کریں
ذوالفقار علی بھٹو نے1972ء میں اپنا پہلابجٹ پیش کیا یہ مکمل خسارے کا بجٹ تھا اور اس خسارے کو دوست ممالک کی امداد سے پورا کرنا تھا جو کہ جلد پورا ہوگیا یعنی بجٹ میں پیش کردہ اعدادوشمار فرضی تھے تاہم بھٹو نے1974ء اور 1975ء میں جومیزانیئے پیش کئے وہ حقیقت پر مبنی تھے بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق خوش الحانی اورخوش گمانی کے ماسٹر تھے جھوٹ اس انداز سے بولتے تھے کہ سچ کا گماں ہوتا تھا بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد معیشت کابراحال ہوگیا تھا انہوں نے 1978ء اور1979ء میں جعلی اعدادوشمار سے کام لیکر بجٹ پیش کئے تاہم 1980ء میں خدا نے انکی سن لی سوویت افواج کے افغانستان میں آنے کے بعد انہوں نے امریکہ کے ایما پر جو جہاد شروع کیا اس کے بعد ڈالروں کی بارش شروع ہوگئی10برس تک انہوں نے موج اڑائے لیکن ایک سو ارب ڈالر ملنے کے باوجود انہوں نے کوئی میگاپروجیکٹ نہیں بنایا آدھی رقم مجاہدین پر خرچ کردی جبکہ باقی رقم جنرل اختر عبدالرحمان اورانکے ساتھی کھاگئے انکی موت کے بعد ہارون برادران نے جو بزنس ایمپائرکھڑا کردیا کسی نے نہیں پوچھا کہ اتنی دولت کہاں سے آگئی ہے اسی طرح جنرل صاحب نے اپنے بھتیجے جہانگیر ترین کو جو نوازا برسہابرس تک کسی حکومتی ادارے نے یہ دریافت نہیں کی آپ نے کھربوں روپے کہاں سے اکٹھی کرلی۔لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن 17اگست 1988ء کو جہاز کے حادثہ میں ہلاک ہوگئے تو خزانہ خالی تھا اسی سال ہونیوالے انتخابات کے اخراجات یورپی یونین اور دیگر دوست ممالک سے امداد لیکر پورے کئے گئے جنرل ضیاء الحق کاواحد ہدف پیپلزپارٹی تھی اس جماعت کے خاتمہ کیلئے انہوں نے ایک جعلی اشرافیہ اور جعلی مڈل کلاس تشکیل دیدی اس طبقہ کو ہر طرح سے نوازا گیا جب بھٹو نے اتفاق فاؤنڈری کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا تو اس کی مالیت کروڑوں میں تھی لیکن ضیاء الحق نے اسکی مالیاتی قدر اربوں تک پہنچادی اس زمانے میں اس نئی اشرافیہ کے نمایاں شخصیات میں میاں محمدشریف چوہدری ظہورالٰہی سیف اللہ برادران اور درجنوں دیگر لوگ شامل تھے ریاست میں بے انتہا کرپشن اور اقرباپروری اسی دور کادین ہے نہ صرف یہ بلکہ جنرل ضیاء الحق نے جو غیر جماعتی اسمبلی بنائی اسکے اراکین کیلئے پہلی مرتبہ فنڈز مختص کردیئے گئے۔چونکہ انکی اکثریت غیر سیاسی تھی اس لئے وہ عوامی امنگوں اور سیاسی قدروں سے ناآشنا تھے محمد خان جونیجو کے بعد بھی تاحال ہر حکومت نے اراکین اسمبلی کے فنڈز نہ صرف بحال رکھے بلکہ ان میں بے تحاشہ اضافہ کیا1985ء میں بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کیلئے80لاکھ روپے مختص کئے گئے جو اب بڑھ کر35کروڑ تک جاپہنچے ہیں اسکے سبب اراکین کی توجہ عوامی مسائل کو حل کرنے اور قانون سازی پر نہیں ہے بلکہ ایم پی اے فنڈز کے علاوہ پی ایس ڈی پی سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی شرم کا مقام ہے اراکین اسمبلی گلیوں کو پختہ کرنے، حفاظتی گیٹ لگانے اور نالیوں کی تعمیر ومرمت کی تصاویر فخریہ انداز میں سوشل میڈیا پر دکھاتے ہیں حالانکہ یہ کام بلدیاتی کونسلروں کا ہے۔
جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے تو زیادہ تر غلط اعداد وشمار مبالغہ آرائی کی حد تک پیش کرنے کا سہرااسحاق ڈار کے سرجاتا ہے ڈار کی ابتدائی تربیت اتفاق فاؤنڈری کی منشی کی حیثیت سے ہوئی تھی رفتہ رفتہ انہوں نے زیادہ آمدنی کو کم دکھا کر کم ٹیکس دینے میں مہارت حاصل کرلی جب وہ پاکستان کے وزیر خزانہ بن گئے تو انکے دکھانے کے اعدادوشمار اورہوتے تھے اور اصل میں کچھ اور عوام کو سبز باغ دکھانا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اسی کھیل کھیل میں ایک طرف میاں صاحبان کھرب پتی بن گئے تو دوسری طرف خود اسحاق ڈار بھی ارب پتی بننے میں کامیاب ہوگئے دوبئی میں متعدد بلندوبالا عمارتیں اسحاق ڈار کی محنت شاقہ کا پتہ دیتی ہیں حالانکہ بظاہر ان کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ دعوے اور سبز باغ جناب عمران خان نے دکھائے یہ سبز باغ انکے دوسرے ہی بجٹ کے بعد سیاہ نظر آنے لگے ہیں
تمام ماہرین متفق ہیں کہ معیشت کا بھٹہ پہلے سے بیٹھ گیا تھا لیکن اب کرونا سہارا بن کر آیا معیشت کی زبوں حال کا سارا الزام کرونا پر لگایا جارہا ہے چلیں اس سال کرونا آیا ہے گزشتہ سال کے بجٹ میں جو دعوے کئے گئے تھے وہ کہاں پورا ہوئے ایف بی آر کو جوٹارگٹ دیا گیا تھا وہ بری طرح ناکام ہوگیا حتیٰ کہ شبرزیدی بیچ میں فرار ہوگئے آئی ایم ایف میں جانے کے باوجود اخراجات میں کمی نہ آسکی اور آمدن بھی کم ہوگئی اس سال جومیزانیہ پیش کیا گیا ہے اس کے کسی حرف اور کسی ہندسہ پرکسی کو یقین نہیں ہے واحد ایسا کام جو سچ ہے وہ صوبوں کی دی جانے والی رقوم میں بھاری کٹوتی ہے پشتونخوا صوبہ جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہمارے لئے بجٹ بنانا مشکل ہے اس لئے ہم ترقیاتی عمل منجمد کرکے صرف جاری اخراجات پوری کریں گے۔سب سے سے زیادہ ظلم تو بلوچستان کے ساتھ ہوا ہے مقام افسوس ہے کہ بلوچستان کیلئے 10ارب روپے کی خیرات منظور کی گئی ہے جسے گرانٹ کا نام دیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ وفاق بلوچستان کو حافظ آباد یا میاں چنوں میونسپل کمیٹی سے بڑا درجہ دینا نہیں چاہتی یہ تباہ حال صوبہ جس کے10فیصد حصہ کو چھوڑ کر تمام آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے مرکز کے ظالمانہ طرز عمل کرونا کی وبا اور ٹڈی دل کے حملہ کے بعد مزید غربت افلاس اور فاقوں کا شکار ہوجائے گی جام صاحب نے جو44منصوبے مرکز کو بھیجے تھے ان میں سے صرف دو کی منظوری دی گئی ہے یہ بہت بڑا مذاق ہے لیکن کیا کریں بلوچستان حکومت زبانی احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ اس سے زیادہ کی نہ اس میں سکت ہے اور نہ ہی اجازت صنعتکاروں تاجروں اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین نے بجٹ کو مایوس کن قرار دیا ہے کہا ہے کہ یہ کرونا کے پھیلنے کے باوجود ریلیف بجٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے مزید ایک کروڑ80لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے فی کس آمدنی میں نمایاں کمی ہوگئی ہے جبکہ تاریخی خسارہ کے باوجود یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ خسارہ کیسے پورا کیاجائیگا ان ماہرین کی پیشنگوئی ہے کہ ہر تین ماہ کے بعد حکومت نئے ٹیکس لاگو کردے گی لہٰذا پورے کا پورا بجٹ فراڈ اورغلط بیانی پر مشتمل ہے۔
وزیراعظم کے مشیر اتنے نااہل ہیں کہ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ مودی کو کرونا کے تدراک کی پیشکش کردیں اس پیشکش کے بعد ایسی سبکی ہوئی کہ اسکی کوئی مثال ہی نہیں انڈیا کے ایک وزیر نے کہا کہ پاکستان اپنی پیشکش اپنے پاس رکھے جتنا پاکستان کا سالانہ بجٹ ہے مودی سرکار نے اس سے زیادہ رقم کرونا ریلیف کیلئے مختص کردی ہے مودی کی رعونت اورآئے دن سرحدوں پر چھیڑخانی کے باوجود عمران خان ہیں کہ انکے
آگے بچھے جارہے ہیں معلوم نہیں اس میں کیا رازپوشیدہ ہے
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں