نئی جماعت،پرانے خدشات۔۔۔۔

رشید بلوچ
بلوچستان میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی باز گشت کچھ مہینوں سے مختلف اطراف سے سنائی دے رہی ہے،بلکہ اس سلسلے میں بلوچستان کے چند علاقوں اور کراچی میں کچھ ہم خیال پرانے ساتھی چائے کی ایک پیالی پر نئی سیاسی جماعت کی تخلیق کیلئے اٹھک بیٹھک بھی کر چکے ہیں،ممکنہ نئی سیاسی جماعت بنانے کا پختہ خیال دراصل حالیہ ریٹائرڈ ہونے والے سابق بیورو کریٹ سابقہ بی ایس او کے چیئرمین ڈاکٹر کہور خان بلوچ کاہے،ڈاکٹر کہور خان کی باتوں سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ چاگرد میں وجود رکھنے والے سیاسی جماعتیں اپنے مبہم موقف،ڈرے سہمے ہوئے نعروں،مفاہمتانہ و مصلحتانہ سیاسی رویوں کی وجہ سے بلوچ کا آئینی،انتظامی و معاشی حقوق لینے کی اہلیت نہیں رکھتیں،اسی وجہ سے بلوچ معاشرے کو ایک توانا سیا سی جماعت کی از حد ضرورت ہے اس جماعت کے پاس بلوچ چاگرد کے تمام مسائل کا نہ صرف ادراک ہو گا بلکہ وہ حل کرنے کی قوت و استطاعت بھی رکھتی ہو گی۔۔۔
کراچی میں ہم خیال دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سلسلے میں بلوچستان کی راجدہانی شال کوٹ میں ایک پبلک گیدرنگ رکھی جائے گی جس میں باقاعدہ طور پر نئی جماعت کا خیال عوام کے سامنے رکھا جائے گا اس سے متعلق عوام کی رائے جانچی جائے گی، گیدرنگ میں عوام کی اختلاف رائے و حمایت کو مد نظر رکھ کر مہم کی سمت متعین کی جائے گی اسکے علاوہ گوادر،تربت،خضدار اور دوسرے بڑے چھوٹے شہروں میں عوامی اجتماع بھی کئے جائیں گے، رفتہ رفتہ باقاعدہ طور پر 2023 کے الیکشن سے قبل نئی بلوچ سیا سی پارٹی کی داغ بیل ڈالنے کے بعد انتخابی میدان میں بھرپور طریقے سے حصہ لی جائے گی اس رائے کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں پھیل گئی جسکا اثر نئی جماعت کی تخلیق پر بھی پڑا یہ مہم وقتی طور روک دی گئی ہے جیسے ہی کرونا وائرس کے اثرات دنیا پر سے زائل ہونا شروع ہوجائیں گے تو نئی جماعت کی مہم میں بھی تیزی لائی جا ئے گی۔۔۔
ڈاکٹر کہور خان بلوچ کی سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنا ئزیشن سے ہواتھا لیکن انکو بطور بلوچ طلبا لیڈر شہرت اس وقت ملی جب بی ایس او (عوامی) اور بی ایس او کی مختصر ادغام کے بعد اسے دوبارہ شکست او ریخت کا سامنا کرنا پڑا،غالبا 1986 کا دور تھا بی ایس او (عوامی) اور بی ایس او کی مد غم شدہ متحدہ بی ایس او آپسی چپکلش اور اختلاف کی وجہ سے دوسال کے مختصر عرصے کے بعد ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنی جس سے بی ایس او کے دو حصے بن گئے ایک تھی بی ایس او (سہب) دوسری بی ایس او جس کے آگے پیچھے کو ئی بریکٹ نہیں تھی جیسے آج نیشنل پارٹی کی بی ایس او( پجار) کے بریکٹ میں (پجار) جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے بی ایس او بغیر بریکٹ کی ہے،ڈاکٹر کہور خان بی ایس او (سہب) کے چیئرمین بنے جب کہ دوسرے دھڑے کے بی ایس او کا چیئرمن ڈاکٹر یاسین بلوچ کو بنا یا گیا،یہ ایک روایت رہی ہے کہ ہر بی ایس او کے پس پردہ کسی نہ کسی اثر رکھنے والی شخصیت یا پارٹی کا ہاتھ ہوتا ہے تو یہاں بھی ڈاکٹر کہور خان بلوچ کو حبیب جالب بلوچ،رازق بگٹی،چاچا خدا بخش اور رستم بلوچ کی سر پرستی میسر تھی جب کہ دوسری جانب یاسین بلوچ کے پیٹھ پر ڈاکٹر مالک بلوچ،فدا بلوچ اور ڈاکٹر عبدا لحئی بلوچ موجود تھے،متذکزہ بالا تمام جو موجود ہیں یا وہ جو اس دنیا میں نہیں رہے تاحیات کسی نہ کسی طرح سیاسی افق پر موجود رہے لیکن چاچا خدا بخش اور رستم بلوچ منظر عام سے غائب ہوگئے۔۔۔
راوی کہتا ہے کہ فدا بلوچ شرو ع کے دنوں میں حبیب جالب اور رازق بگٹی رفیق کار رہے لیکن افغان جلاوطنی کے دوران افغانستان کی کمیونسٹ جماعتوں خلق پارٹی یا پرچم پارٹی کی طرف سے ایک غیر متوقع عمل دہرایا گیا جس کے بعد فدا بلوچ نے اپنی راہیں حبیب جالب اور رازق بگٹی سے جدا کر دیں، وہ عمل یہ تھا کہ کابل کے مشہور چوراہے پر ایک نقشہ لہرایا گیا جس میں گوادر کو افغانستان کا حصہ قرار دیا گیا تھا،اس واقعہ کے بعد فدا بلوچ کی افغان لیڈر نجیب اللہ سے زبانی کلامی تکرار بھی ہوئی تھی اور وہ افغانستان سے واپس اپنے وطن لوٹ گئے،اس وقت ایک نعرہ بڑا مشہور ہوا جس میں کہا گیا تھا“ سی آئی اے کے تین نشان رازق،جالب،کہور خان“اس نعرے کی وجہ کچھ بھی بنی ہو لیکن شاید کابل کا یہ غیر مصدقہ واقعہ بھی ایک وجہ بنی ہوگی، کابل میں رونما ہونے والے واقعہ میں کتنی سچائی یا فسانہ ہے اسکی تردید یا تصدیق ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ یا ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کر سکتے ہیں اسکے علاوہ اسکی مزید کھوج لگانے کی بھی ضرورت ہے،زاتی طور پر اس واقعہ سے متعلق کوئی حتمی رائے رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، بہرحال بعد ازاں رازق بگٹی اور حبیب جالب بھی واپس آگئے انہوں نے اپنے ہم خیال گروپ سے مل کر ایک نئی جماعت“ پرو گریسیو یوتھ موومنٹ“ بنائی اور بی ایس او (سہب) یا بہ الفاظ دیگر ڈاکٹر کہور خان کی سر پرستی کی،بی ایس او (سہب) حبیب جالب اور رزاق بگٹی کی زیر اثر تنظیم تھی،سہب نے اپنے کارکنوں کو اینٹی سردار کا سلوگن دیا تھا، بطور چیئرمن ڈاکٹر کہور خان پرمختلف الزامات لگے،الزامات لگانے والوں کی بعض دلیلیں قدرے منطقی بھی ہیں 1986 سے اب تک کافی سارا پانی پل کے نیچے سے گزر چکا ہے، اسکے پرانے رفیق کار یا سینئرز اب اس دنیا میں بھی نہیں رہے،ڈاکٹر کہور خان چیئرمین شپ کے بعد عملی سیاست سے یکسر تائب ہوگئے اور انہوں نے سیاست کی جگہ 16گریڈ کی نوکری کو ترجیح دیدی،سیکشن آفیسر سے ترقی کی سیڑیاں چڑھتے چڑھتے سیکرٹری کی پوسٹ سے چند عرصہ قبل ریٹائرمنٹ لے لی،یوں انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں سرکاری مشینری کو تنخواہ و دیگر لوازمات کے عوض فراہم کردیں جسکا انہیں تا حیات فائدہ پنشن کی طور پر ملتا رہے گا،اب ڈاکٹر کہور خان دوبارہ سیاست میں آنے کی سعی کر رہے ہیں معترضین سمجھتے ہیں کہ نئی سیاسی جماعت کے فلم کے اسکرین کے پیچھے ہدایت کار کوئی اور ہے اور جو کہ عموماً بلوچستان کی نئی سیاسی جماعتوں کے پس منظر میں گزشتہ دو دیہائیوں میں ہوتا رہا ہے اب یہ ڈاکٹر کہور خان پر منحصر ہے کہ اس تاثر کو کس طریقے سے زائل کریں گے یا گزشتہ ادوار میں ان پر لگائے گئے الزامات سے خود کو بری الزمہ کروائیں گے؟ موجودہ منظر میں ایک نئی سیاسی جماعت کیلئے ڈھیر سارا سرمایہ ہونا ایک اہم جز سمجھا جاتا ہے وہ دور گزر چکے جب سیاسی جماعتیں محض مخلصانہ نظریات کی بنیاد پر سیاست کیا کرتی تھیں،لیڈر اور کارکن پیٹ پر پتھر باندھ کر سیا سی کاز کیلئے کٹھن لڑائیاں لڑتی تھیں بقول انور ساجدی تین لیڈر ایک اسپرو گولی پر ٹاس کیا کرتے تھے اب تو لیڈر محل میں کارکن گیٹ پر بیٹھنے کے عادی بن چکے ہیں،گزشتہ دو تین سالوں میں بلوچستان کی افق پر تین سیاسی جماعتیں جن میں احسان شاہ کی پی این پی اور مکران میں بام نامی جماعتیں بنیں جن میں ایک کے پاس مکران کے چند علاقوں میں اکثریت اور احسان شاہ کے پاس سرمایہ موجود ہے اسکے باوجود انہیں کامیابیاں نہیں ملیں ہاں بہر حال بلوچستان عوامی پارٹی جتنی عجلت میں بنائی گئی اتنی ہی جلدی اسے اقتدار بھی مل گئی
ڈاکٹر کہور خان کا ایک ویڈیو پروگرام دیکھنے کا موقع ملا جس میں ایسے پر مغز سولات اٹھا ئے گئے تھے کہ مجھے اپنی نئی نوجوان نسل کی سیاست سے دل چسپی اور ذہانت پر بلا مبالغہ ناز ہونے لگا،پکا یقین ہوگیا کہ بلوچ اور بلوچستان کو جتنا بھی پسماندہ رکھا جائے پیچھے دھکیلا جائے اسکے انگ انگ میں سیاست خون کی طرح رچی بسی ہے جہاں سیاست پروان چڑھتی ہے وہاں سازشیں اور ظلمتیں نئی کرن لیکر طلوع ہوتی ہیں،بخدا ڈاکٹر کہور خان کے پاس ایک بچے کے سوال کا مدلل جواب ناپید تھا شاید وہ بھی سوچ رہا ہوگا کہ نئی نسل سے عقل و دلیل سے دو بدو ہونا چنداں آسان کام نہیں ہے،ویسے بھی ڈاکٹر کہور خان کے پاس ایک گھنٹے کی وڈیو نشست میں کوئی بھی متاثر کن دلیل موجود نہیں تھی سوائے اسکے کہ خرابیاں گنوانے کے، جن خرابیوں کی نشاندھی کہور خان کر رہے تھے اس سے قبل ہر سیاسی جماعت انہیں خرابیوں کا زکر کرتی آرہی ہے حتی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا اعلان کیا جارہا تھا تو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سرکردہ لوگ جو پارٹی بنانے میں پیش پیش تھے انہوں نے میڈیا کیمروں کی جھرمٹ میں کہا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی پسماندگی دور کرنے کیلئے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی پیروی کرے گی بلکہ انہوں باپ کو نیپ کا نعم البدل قرار دیا تھا اب ڈاکٹر کہور خان کے پلو میں بھی وہی نعرہ ہے جو باپ کے پاس تھا، اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی نے یہ نہیں بتا یا تھا کہ بلوچستان کو بحرانوں سے نکالنے کا حل کیا ہے؟ نہ ہی ڈاکٹر کہور خان کے نعرے میں کوئی حل موجود ہے۔۔
ڈاکٹر کہور خان ہر چیز کو مختلف زاویئے سے دیکھتے ہیں تو سرکاری نوکری کو بھی وہ دو زاویوں سے پر کھتے ہیں ایک زاویہ مجبوری کا ہے اور دوسرا زاویہ شوق کا ہے،ڈاکٹر کہور اپنی نوکری کو دوسرے زاویہ یعنی کہ مجبوری سے تعبیر کرتے ہیں،ظاہر سی بات ہے کہ کہور خان نے معاشی مجبوری کی وجہ سے ہی نوکری کی ہے اور نوکری ہر غریب و متوسط طبقہ فرد کی مجبوری بنتی ہے تاکہ اپنے کنبے کو معاشی بدحالی سے نکال کر تھوڑی بہت خوشحال کر دے اپنی فیملی کو اچھا مکان،اچھی خوراک،بہتر پہناوا دے سکے ،ادھر ہم بھی کہور خان کی نوکری کو دو زاویئے سے دیکھیں گے اس وقت ڈاکٹر کہور خان کے پاس دو آپشن موجود تھے پہلا یہ کہ وہ اپنی تعلیم،زانتکاری،خداداد صلاحیتیں قوم و راج اپنے رفیق کار،پیروکاروں کیلئے ندر (قربان) کر دیتا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی یہ تمام صلاحیتیں بعوض تنخواہ سرکار کے سپرد کر دیتا تاکہ اپنے خاندان کو ایک بہتر لائف اسٹائل اور آسودگی دیدیتا چنانچہ ڈاکٹر کہور خان نے یہاں دوسرا آپشن اپنا یا اپنے خاندان کو قوم و راج پر سے ترجیح دی،اگر انہوں ایسا کیا تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہے ایسا کرنا انکا استحقاق تھا،لیکن یہ دوبارہ قوم و راج کا درد دامن میں چھپا کر میدان میں آنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے،اب یہ بلوچ قوم پر منحصر ہے کہ ڈاکٹر کہور خان کے دامن میں چھپے آ ہوں سسکیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گی یا دھتکار دے گی
اب وقت کاانتظار رہے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں