نئی سیاسی جماعت کا جنون

انور ساجدی
اس وقت ریاست کا معاشی معاشرتی اور آئینی ڈھانچہ بہت ہی خطرات سے دوچار ہے کیونکہ چھت کا بوجھ ڈھانچہ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے تواتر کے ساتھ آنے والے بحرانوں نے مرکزی عمارت میں دراڑیں ڈال دی ہیں مکینوں کو اپنی سلامتی کی امید بہت کم ہے چنانچہ اس ناگفتہ بہ صورتحال میں ہر روز ایک نیا بحران جنم لیتا ہے آئینی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ عمرانی معاہدہ اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے آئین کے زیر انتظام ادارے نہیں چل رہے ہیں پارلیمنٹ کی بالادستی عنقا ہے مقننہ بہت دباؤ میں ہے انتظامیہ حیران اور پریشان ہے اگر برٹش روایات کے تناظر میں میڈیا کو چوتھا ستون شمار کیا جائے تو اس کا سب سے برا حال ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جان بلب ہیں لیکن ان کے سانس لینے کے لئے وینٹی لیٹر تو کیا سلنڈر والی آکسیجن بھی دور کردی گئی ہے سوشل میڈیا کی پرواز جاری تھی کہ نئے بجٹ میں ویب چینل کھولنے کی فیس ایک کروڑ روپے رکھ دی گئی ہے اس کے نتیجے میں جن شوقین حضرات نے اپنے چینل کھول رکھے ہیں وہ انہیں بند کرنا پڑیں گے ورنہ 50 لاکھ روپے کی بھاری رقم جرمانہ کے طور پر دینا پڑے گی میڈیا کا یہی سیکشن قابو میں نہیں آرہا تھا لیکن حکومت نے اس کا انتظام کرلیا ہے نہ جانے عمران خان کیا سوچ کر حکومت میں آئے تھے عمل میں آجانے کے بعد ان کا شمار اس ملک کے ناکام ترین وزیراعظم کے طور پر ہوگا بجائے کہ وہ حالات میں بہتری لائیں وہ غیر مرئی ہاتھوں میں استعمال ہورہے ہیں انہیں اندازہ نہیں کہ وہ آئین پر حملہ آور ہوکر 18 ویں ترمیم ہٹائیں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان کی جماعت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے اس کے باوجود اتنی رعونت شاید طاقتور بیساکھیوں کی وجہ سے ہے لیکن یہ بیساکھیاں کھینچی بھی جاسکتی ہیں اور ماضی میں مختلف کمزور حکومتوں کو سہارا دیتی رہی ہیں ان پر تکیہ کرنا اور اپنی جڑیں کاٹنا سمجھداری کا مظاہرہ نہیں ہے اگر انہیں یہ خواب دکھایا گیا ہے کہ 1973ء کے آئین کو بدل کر صدارتی نظام کی راہ ہموار کی جائے گی اور جناب عمران خان ایوب خان جیسے جبروت صدر بن جائیں گے تو یہ خواب نہیں خام خیالی ہے کئی مرتبہ ایسا لگا کہ عمران خان زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں وہ کورونا کی وجہ سے سیلف آئسولیشن میں ہیں اور انکے چند چرب زبان مشیر سب اچھا کی رپورٹ پیش کررہے ہیں حالانکہ کورونا زدہ ناکام بجٹ پیش ہونے کے بعد ایک لاواپک رہا ہے چھوٹے سرکاری ملازمین اور عام محنت کش سخت غم و غصے میں ہیں کیونکہ ان کے اخراجات بے تحاشا بڑھ چکے ہیں لیکن حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا کیونکہ آئی ایم ایف کی یہی شرط تھی معیشت بیٹھ جانے سے معاشرتی تبدیلیاں آنا ناگزیر ہیں کروڑوں مزدوروں کے لئے صرف دو راستے ہیں ڈاکے ماریں یا خودکشی کریں یہ گماں ہے کہ نئی صورتحال میں تحریک انصاف کے وزراء مشیروں اور اراکین کے لئے آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہ رہے جس طرح وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے سیکریٹریٹ کا ملازمین نے گھیراؤ کیا اس طرح کے مناظر جلد بڑھ جائیں گے چند ماہ قبل ریل کے ایک حادثہ کے بعد سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر فردوس شمیم نقوی جب مرنے والوں کے ورثاء سے ملے اور جب یہ کہا کہ ہمارے لوگ جاہل ہیں اور جلد بازی میں ریلوے کراسنگ سے گزر جاتے ہیں تو لوگوں نے نقوی پر ہلہ بولا اور وہ فرار ہوکر جان بچانے میں کامیاب ہوئے راولپنڈی میں ایسے کئی واقعات شیخ رشید کے ساتھ پیش آچکے ہیں لیکن ان دونوں حضرات کی ہمت یا ڈھیٹ پن پر رشک آتا ہے ان کے ہاں عزت اور بے عزتی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف کو مزید 3 سال کے لئے اقتدار میں رکھا گیا تو باقاعدہ دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا اس وقت جو خسارہ ہے اسے پورا کرنے کے لئے آئندہ سال 13 ارب ڈالر قرض لینے کی ضرورت ہے اگر چین‘ یو اے ای اور عرب امارات نے اپنے موخر قرضے طلب کرلئے تو پھر کیا ہوگا حکومت کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم نہیں کرسکتی خاص طور پر سیکیورٹی اخراجات میں کمی لانا موجودہ حالات میں ممکن نہیں معیشت تو پہلے سے بیٹھ گئی تھی اب تو کورونا نے آمدن کے بیشتر ذرائع کھالئے ہیں رواں سال جو تھوڑی بہت برآمدات ہیں ان میں مزید کمی آئیگی جبکہ اوورسیز پاکستانی بھی ناموافق حالات کی وجہ سے ترسیل زر نہیں کرسکیں گے۔ جب وفاق کی سمت درست نہ ہو تو صوبوں کی کیسے درست ہوسکتی ہے چاروں صوبوں کے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کے لئے اپنے اخراجات پورے کرنا مشکل ہے خاص طور پر بلوچستان اور پختونخواہ نے منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ کرلیا ہے امن و امان کے اخراجات بلاوجہ کا بوجھ ہیں بلوچستان پر ایک بڑا بوجھ ایم پی اے فنڈز ہے ماضی میں یہ فنڈ کسی حیل و حجت کے بغیر جاری ہوتا رہا ہے لیکن جام صاحب نے اپوزیشن کے فنڈز روک کر اپنے لئے مسئلہ کھڑا کرلیا ہے حالانکہ جو روایت چلی آرہی ہے اس پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ بلوچستان کے جوبھی اراکین اسمبلی ہیں چاہے وہ حکمران اتحاد کے ہوں یا اپوزیشن کے فنڈز کے بغیر کیا کریں گے ان کا ٹائم کیسے پاس ہوگا اور گزارہ کیسے چلے گا بلوچستان میں جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو فوری طور پر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی روایات کو پامال کیا گیا ہے کوئی بتاتا نہیں کہ کونسی روایات: یہ روایات گزشتہ صدی کی بات تھیں جب سے بلوچستان صوبہ بنایا ہے اور ریاستی قاعدہ قانون کے تحت آیا ہے پر انی روایات دم توڑ گئی ہیں پہلے کوئی باقاعدہ قانون نہیں تھا سیکڑوں سال سے ”بلوچ کوڈ“ رائج تھا جسے لوگ بھول چکے ہیں بلوچ کوڈ کی وضاحت میر صورت خان ڈاکٹر دین بزدار اورشاہ محمد کرسکتے ہیں میں اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ موجودہ حالات میں زندہ کیسے رہا جائے اور اپنی بقاء کو قائم کیسے رکھا جائے یہی بڑا قومی مسئلہ ہے ان زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر بعض دوست یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی جائے تو ایسا سوچنا ان کا حق ہے لیکن ایسی صورت میں جبکہ بلوچستان تو کیا ملک کی ساری سیاسی جماعتیں ناکامی سے دوچار ہیں تو بلوچستان میں ایک نئی جماعت کے قیام سے کیا ہوگا سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کن مقاصد کے لئے قائم کی جاتی ہیں اپنے عوام کے پرامن حقوق کے حصول کے لئے یا جنگ و جدل کے ذریعے ان حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ایسی صورت میں جبکہ ریاست کے حالات غیر معمولی ہیں اظہار رائے پر قدغن ہے فرد کی آزادی مخدوش ہے بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال مارش لاؤں سے بھی بدتر ہے تو آپ ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرکے کیا حاصل کریں گے شاید یہ لوگ بلوچستان کے زمینی حقائق کا ادراک نہیں رکھتے جنگ زدہ ماحول کے تقاضے اور ہوتے ہیں جب آبادی کا بڑا حصہ عالم سوگ میں ہو گھر گھر ماتم ہو تو یہ وقت کسی نئی پارلیمانی یا غیر پارلیمانی جماعت کے قیام کے لئے سازگار نہیں ہے‘ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ غیر پارلیمانی جماعتیں کام کررہی ہیں بنیادی حقوق کے لئے آواز اندر اور باہر اٹھائی جارہی ہے بقاء کے لئے مزاحمت کی جارہی ہے جو لوگ وزیر اور گزیر بننا چاہتے ہیں صرف انہیں یہ حقائق نظر نہیں آتے اگرچہ بلوچستان میں موجودہ سول سوسائٹی مضبوط نہیں ہے لیکن برمش کے حالیہ واقعہ نے ثابت کیا کہ سول سوسائٹی زندہ ہے اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ کہیں ظلم ہو تو لوگ موت کی سی خاموشی اختیار کریں اگر مراعات اور فنڈز کی سیاست مقصود ہے تو نئی سیاسی جماعت کی کیا ضرورت ہے اس کے لئے پرانی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم مناسب ہیں جہاں تک پارلیمانی سیاست کا تعلق ہے وہ تو اچھی طرح سے ہورہی ہے بلوچستان میں تین بڑی سیاسی جماعتیں جے یو آئی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کام کررہی ہیں ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ہے اور یہ پارلیمان کے اندر اور بلوچستان اسمبلی میں بھرپور آواز اٹھارہی ہیں بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے ہر اہم موقع پر نہایت بلند آواز میں مسائل اٹھائے ہیں ریکوڈک اور گوادر کے مسئلہ پر میر کبیر محمد شہی اور جناب اسلم بھوتانی کی تقاریر سننے کا موقع ملا انہوں نے بھرپور انداز میں نمائندگی کی پارلیمانی سیاست میں اس سے زیادہ کوئی کیا کرسکتا ہے‘لیکن 70 سال سے جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام نے پارلیمانی سیاست سے علیحدگی اختیار کررکھی ہے وہ مایوس ہیں وہ زخمی ہیں وہ لارچار ہیں وہ اس طرز سیاست پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ اس کے لئے ریاستی اداروں سے پارٹنر شپ بنانا پڑتی ہے جبکہ پارٹنر شپ ہمیشہ دو برابر کے فریقوں میں ہوتی ہے کمزور اور طاقتور کی پارٹنر شپ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ یکطرفہ ہوتی ہے عوام کبھی اپنے آقا کو حکم نہیں دے سکتے بلکہ اس کا کام احکامات کی بجا آوری ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ اختر مینگل نے جو کچھ اس دور میں کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا ہے اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو اس سے پارلیمانی سیاست کو بڑا دھچکہ لگے گا اور شاید خود اختر مینگل بھی آئندہ اس طرح کی سیاست سے دستبردار ہوجائیں اگر اختر اور مالک کی آنکھوں کے سامنے ساحل چلا جائے وسائل چلے جائیں ایک ایک انچ پر نقل و حرکت کی آزادی نہ ہو تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟
نئی نسل کو معلوم نہیں کہ بھٹو کے ظلم اور جبر کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل نے بہت کوششیں کیں ہم جیسے لوگ اس کے عینی شاہد ہیں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد اگست 1973ء میں انہوں نے چوہدری ظہور الٰہی کی دعوت پر گجرات میں ایک لاکھ پنجابیوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے سوہنی کے کچے گڑھے کی مثال بھی دی اور یہاں تک کہا کہ اگر خدانخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے لیکن اہل پنجاب نے ان کی بات نہیں سنی بھٹو نے اس کے بعد انہیں گرفتار کرکے حیدر آباد سازش کیس چلایا انہوں نے اپنے بڑے فرزند کی قربانی بھی دی لیکن کوئی اثر نہیں ہوا‘ 1996ء میں سردار صاحب نے ایک نئی جماعت قائم کی جس کے تحت 1997ء میں اختر مینگل وزیراعلیٰ بن گئے لیکن نواز شریف کی قیادت میں مرکز نے ایٹمی دھماکہ کے بعد یہ حکومت ختم کردی اس واقعہ کے بعد بڑے سردار نے سیاست میں حصہ لینا چھوڑ دیا نواب صاحب کی مثال سامنے ہے تمام عمر پارلیمانی سیاست کرتے رہے لیکن مقتدرہ نے مار کر ہی دم لیا میر غوث بخش بزنجو سے بڑا پارلیمانی لیڈر تو پیدا ہی نہیں ہوسکتا اس کے باوجود انہیں غدار قرار دیا گیا بہرحال موجودہ حالات میں جو سیاسی رہنما جس ڈگر پر چل رہے ہیں چلتے رہیں اگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتھ کسی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھنی ہے تو ضرور رکھیں لیکن واجہ یوسف مستی خان کی جماعت تو موجود ہے اس میں شامل ہوکر شوق پورا کیا جاسکتا ہے۔
1973ء میں اپنی گرفتاری سے قبل نواب خیر بخش نے ایوب اسٹیڈیم میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ارے بھٹو بلوچستان کا مسئلہ اب میرے اور تمہارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اس کا فیصلہ دنیا کی بڑی طاقتیں کریں گی بلوچستان کے حالات کو نواب صاحب کے خطاب کے تناظر میں دیکھنا چاہئے کیونکہ تمام راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں