معاشی وباء اور آئی ایم ایف کی بے اثر دوا

راحت ملک
وفاقی بجٹ پیش کئے جانے سے ایک روز قبل 11‘ جون کو عالمی مالیاتی اداروں کے کارندے اور پاکستان کی تبدیلی سرکار کے مشیر خزانہ محترم حفیظ شیخ نے با جماعت پریس کانفرنس کی۔ خیال تھا کہ وہ ملکی معیشت کی قبل از اور مابعد کرونا صورتحال اور معیشت کے متعلق مختلف گوشوں کے متعلق اپنی ماہرانہ رائے اور حکومتی پالیسی کے معاشی خدوخال کی وضاحت فرمائیں گے بلاشبہ جناب حفیظ شیخ اپنے سبجیکٹ (سرمایہ دارانہ استحصال) کے تمام رموز سے کماحقہ آگاہ اور عمل کرنے میں مکمل دسترس رکھتے ہیں انہوں نے ملکی معیشت کی ممکنہ شرح نمو کی گراوٹ حقیت کا اعتراف تو کیا مگر معاشی تنزلی کی تمام تر ذمہ داری سابقہ حکومتوں کی "نااہلیوں ” پر ڈال کر بزعم خود بری الذمہ ہوگئے یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں وہ مشیر خزانہ نہیں بلکہ سینیٹ کے رکن اور وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے سو اس دورکی کوتاہیوں کا ملبہ ماضی کی حکومت پر ڈالتے ہوئے وہ اپنی ذات کو بری الذمہ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ اگر آج ان کی دلیل مان لی جائے تو پھر منطقی نتیجہ وزیراعظم جناب عمران خان کے خلاف نکلے گا کیونکہ اس دلیل کا مطلب ہوگا معاشی پالیسیوں کی غلطی و کوتاہی کا بوجھ حکومت پر ہوتا ہے جس حد تک یہ بات درست ہے اسی تناسب سے یہ دلیل موجودہ معاشی تنزلی انہدام کی ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیتی ہے
زیادہ حیران کن بات شیخ جی یہ ارشاد فرمائی کہ آئی ایم ایف ایک بینک ہے جو قرضہ کی واپسی یقینی بنانے پر زور دیتا ہے دنیا کے بیشتر ممالک اس سے قرض لیتے ہیں اسے 150 ممالک نے مل کر قائم کیا ہے شیخ صاحب کا انداز تکلم معنی خیز اور آئی ایم ایف کے لیے خیر کے جذبات سے لبریز تھا جس مفہوم گویا یوں بیاں ہو سکتا کہ پاکستان کو قرض دینا اس کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ہماری التماس ہے جسے از راہ کرم اس نے قبول کیا ہے جناب عبدالحفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی وکالت کرتے ہوئے اسے ایک انسان دوست رحمدل عالمی مالیاتی ادارہ ثابت کرنا چاہا جبکہ جان برکنز نے جو انہی عالمی مالیاتی اداروں کے سابق اقتصادی دہشت گرد (EHM) رہ چکے ہیں نے اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ” دنیا بھر میں جن ممالک نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لئے ان کی معیشت تباہ ہوئی خود مختاری مجروح اور قومی ادارے ہاتھ سے نکل گیے "ہ
چنانچہ ان سامراجی اداروں کے متعلق حفیظ شیخ کا لب ولہجہ محض ان کے ذاتی اغراض کا غماز ہے ورنہ تو دنیا جانتی ہے کہ قرض دینے والے ان عالمی مہاجنی اداروں نے عالمی معیشت اور سرمایے کے ارتکاز و ترقی کی سمت اور استحصال کا رخ کن خطوں کی طرف موڑ رکھا ہے۔
تاریخ کا ہر طالبعلم جانتا ہے کہ آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کی تشکیل امریکی شہر سیل میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر 1945ء میں ہوئی تھی جنگ کے فاتح ممالک کے قلیل رکنی کلب ان کا بانی ہے تب اس اقدام کو نیو ورلڈ آرڈر کہا گیا تھا ورلڈ بینک جنگ سے تباہ حال یورپ کی تعمیر نو کے خصوصی مقصد کے لیے قائم ہوا تھا۔تاکہ یورپ کو اشتراکی انقلابات سے بچایا جائے اس وقت. دنیا نوآبادیات کی گرفت میں تھی آزاد ممالک کی تعداد محدود تھی ہاں جنگ نے عالمی استعماریت کو نڈھال کیا افریقہ ایشیا کے ممالک کو تیزی سے سیاسی آزادیاں نصیب ہوئیں تو اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد 150 سے زیادہ ہوئی۔
جناب حفیظ شیخ نے اس اجتماعی حکومتی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اگلے مالی سال میں زراعت کی معاشی شرح نمو 2.67 فیصد جبکہ صنعت کے شعبے منفی 2.64 اور خدمات کے شعبے میں 0.59 فیصد شرح نمو ہوسکتی ہے مجموعی ملکی آمدن کی شرح نمو کا تخمینہ 0.38 فیصد لگایا گیا ہے۔
ختم ہوئے والے مالی سال میں محصولات کی وصولی ہدف سے 900 ارب روپے کم رہی ہے جس کا ایک سبب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کیلئے درآمدات کی حوصلہ شکنی بتائی گئی جبکہ اس مقصد کیلئے روپے کی قدر میں جتنی کمی یا گراوٹ لائی گئی تھی اسی تناسب سے بیرونی قرضوں کے حجم میں بھی اضافہ ہوا جس کے ذمہ دار حکمران ہیں۔شیخ صاحب نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73 فیصد کمی لانے پر جو اعزاز خود اپنے سر سجایا مگر وہ اسکے تمام منفی پہلو بیان کرنے سے گریز کرگئے تھے اس عمل سے کسٹم ڈیوٹی ہدف سے کم رہی تو درآمدات میں کمی کا منفی نتیجہ ملکی صنعت کیلئے درآمدی مال کی کمی کی صورت بھی نکلا روپے کی شرح تبادلہ میں کمی سے درآمدی خام مال کی قیمت میں اضافہ ہوا باالفاظ دگر پیداواری لاگت میں اضافے سے برآمدات بھی کم ہوئیں کی عالمی منڈی میں ہماری مصنوعات کے یے گنجائش میں مندی آئی جو رواں اقتصادی پالیسی کا منفی نتیجہ ہے
کرونا وباء میں احساس پروگرام کے تحت مستحق افراد میں 192 ارب روپے کی تقسیم مستحسن اقدام تھا۔ اگر مالی اعداد وشمار کے ساتھ امداد لینے والے افراد کی تعداد اور فی گھرانہ دی گئی امدادی رقم بھی بتا دی جاتی تو عوام جمع تفریق کرکے اس کی شفافیت کے متعلق آگاھی پا لیتے کیونکہ محترمہ ثانیہ نشتر نے تو کابینہ کے اجلاس کو بھی احساس پروگرام کے تمام کوائف مہیا کرنے سے انکار کردیا تھا جو غیر منتخب فرد کی منتخب شدہ وفاقی کابینہ پر غیر جمہوری بالا دستی اور عدم اعتماد کی انوکھی مگر افسوسناک مثال ہے
مشیر خزانہ کا اصرار تھا کہ کرونا سے قبل حکومت نے ملک میں جو اقتصادی استحکام پیدا کیاتھا کرونا اسے لے ڈوبا برا ہو اس کرونا کا جس نے 5.8 فیصد سے ترقی کرتی ملکی معیشت کا ستایا ناس کر دیا جو پہلے ہی پی ٹی آئی ٹیم معاشی ماہر بلکہ درخشندہ چہرے کے ہاتھوں دو فیصد سالانہ کی شرح تک آن پہنچی تھی۔ بھلا ہو کرونا کا ورنہ ہمیں معاشی نمو کے متذکرہ انحطاط کو معاشی استحکام تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑ جاتا۔!!!
عمران حکومت نے قلیل مدت میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لئے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ نئے قرضے سابقہ ادوار میں لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے مجبوراً لیے گئے ہیں۔ جناب حفیظ شیخ نے بہت سے حقائق مخفی رکھنے کے باوجود اسی پریس کانفرنس میں بتایا کہ سابق دور کے مجموعی قرضے مع واجبات 30 کھرب روپے مالیت کے ہیں حکومت نے پچھلے سال 5 ہزار ارب یا پانچ کھرب روپے قرضوں کی ادائیگی پر صرف کئے مگر اسے صرف آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا پیکج ملا جناب یہ رقم 5 کھرب روپے سے زیادہ بنتی ہے کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ حالیہ دور میں لئے گئے قرضوں کی باقی رقم کہاں گئی ہے؟ بیرونی ادائیگیوں میں ملنے والی سہولت اور ادھار تیل خرید کر جو رقم بچائی گی ہے وہ کن منصوبوں پر خرچ ہوئی ہے؟ یہ بھی کہ ادھار خریدے گئے تیل کی ادائیگی کب کون اور کیسے کرے گا؟ کیا یہ معاملہ آنے والی حکومت کے گلے کا ہار بنے گا؟
تبدیلی سرکار کے عہد میں وہ کونسے بڑے اور اہم اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع ہوئے ہیں؟ ان کی نشاندہی تو نا ممکن ہے یہ کہنا کہ دفاعی بجٹ کو سابقہ سطح کر دیا گیا شاید درست نہ ہو بجٹ اس راز کو فاش کر سکتا ہے۔ اگر دفاعی منجمد رکھا گیا ہے تو قابل تعریف ہے اگر یہ بھی بتایا جائے کہ اس وقت ملک کے دفاع کیلئے مجموعی طور پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟ تو بجٹ کے حقیقی اعداد وشمار بالخصوص آمدن واخراجات میں عدم توازن کا درست مفہوم عام آدمی کے لیے زیادہ قابل فہم ہوجاتا۔ شاید بجٹ میں اس پر بات ہو۔
ایک بات بہت واضح ہے کہ بجٹ میں آء ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل ہوگا تو کم از کم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا امکان صفر سے بھی کم ہے سنا ہے افواج پاکستان کی تنخواہوں میں شاید دس فیصد اضافہ کر دیا گیا کرونا کے معیشت اور روز گار پر بھی منفی اثرات مسلمہ حقیقت مالیاتی خسارے کے اسباب بھی درست ہیں لیکن کیا اس بحران کے دوران فی الواقعی عالمی اقتصادیات کے نظام زر سے ہوا نکل گئی ہے؟ کیا حقیقی دولت ختم ہوگئی ہے؟ یا محض کرنسی کسی ایک شعبے سے نکل کر کسی دوسرے میں منتقل ہورہی ہے؟ زرمبادلہ کی بنیاد وتناسب پر دنیا میں چھپنے والی کرنسیوں کی قدر زائل ہوگئی ہے؟ ڈالر تو امریکی مرکزی بینک میں موجود سونے کے محفوظ ذخائر کی بنیاد پر چھپتے ہیں؟ کیا کرونا اس محفوظ سونے کو ہڑپ کرگیا ہے؟ یا صنعتی کمرشل سرگرمیوں میں آئے والے عارضی تعطل سے محض مطلوبہ منافع یا قدر زائد کی فراہمی متاثر ہوئی ہے؟جس سے آمدن اور اخراجات کا توازن بگڑا ہے؟ ساری دنیا کے اقتصادی ماہرین کو اب ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی تجارت کے لیے کرنسی پر انحصار کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ کیا عالمی تجارت کے لیے حقیقی دولت. یعنی مختلف مقدار کے حامل یکساں مالی قدر کے حامل مختلف. اوزان کے طلائی یا دھاتی سکوں کا اجراء لازمی نہیں ہو گیا؟؟
بجٹ سے اچھی توقعات کا انحصار اچھی حکمرانی سے مشروط ہوتا ہے اور ہم اس سے یہی دامن ہیں لیذا امیدوں کے چراغ چلانے سے گریز ہی بہتر ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں