وزیراعظم کی غربت کا ازالہ

انور ساجدی
وزیراعظم چونکہ غربت کی چکی میںپس رہے ہیں اس لئے اپنی تنخواہ میںچارگناہ اضافہ کرنے پر مجبور ہوئے بجٹ سے قبل انہوںنے کہا تھا کہ2لاکھ کی تنخواہ میںان کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے شکر ہے وزیراعظم بننے کے بعد انکے بنی گالا اور لاہور میںواقع دونوں گھروں کے تمام یوٹیلٹی بل سرکار کے کھاتے سے اداہوتے ہیں سیکورٹی بھی مفت ہے عام دنوں میںتو دو لاکھ بجلی کا بل صرف بنی گالا کے محل کا تھا جبکہ زمان پارک لاہور کے جدید محل کابل تو شائد اس سے بھی زیادہ ہوگا بظاہر وزیراعظم کا کوئی کاروبار نہیں ہے کوئی فیکٹری شوگر مل اور اسٹیل مل نہیں ہے دواسپتال چندہ زکوٰۃ اور خیرات سے چل رہے ہیں تیسرا کراچی کے ڈی ایچ اے سٹی میںبننا ہے اس کیلئے اربوں روپے کا پلاٹ راحیل شریف نے عنایت کیاتھا لاہور میںجو شوکت خانم ہے اس کا پلاٹ اور پہلا چندہ میاںنوازشریف نے دیا تھا معلوم نہیں کہ پشاور کے اسپتال کیلئے پلاٹ کیسے حاصل کیا گیا کئی لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ جب عمران خان کا کوئی کاروبار نہیں ہے تو وہ بادشاہوں جیسی زندگی کیسے گزارتے ہیں اس سوال کا جواب مخالفین تو کئی بار دے چکے ہیں چونکہ انکے الزامات ناقابل اشاعت ہیں۔لہٰذا ان میںسرکھپانا بہت فضول ہے البتہ کفایت شعاری وزیراعظم کی گھٹی میںشامل ہے وزیراعظم بننے سے قبل انہوںنے کہا تھا کہ بنی گالا محل کا کچن بند ہے کیونکہ وہ گھر کاکھانا نہیںکھاتے اگر کبھی ضرورت پڑے تو انکے ملازمین جو دال سبزی پکاتے ہیں اسی میںسے ایک پلیٹ کھالیتے ہیں کچن بند ہونے کی شکایت انکی دوسری بیگم ریحام خان نے بھی کی تھی جبکہ پہلی بیگم جمائما خان نے برسوں پہلے کہا تھا کہ خان صاحب لاہور کی بلاکی گرمی میںبھی اے سی چلانے نہیںدیتے جمائما خان کی لندن واپسی کی ایک وجہ یہ بھی تھی خان صاحب کی کفایت شعاری کایہ عالم ہے کہ دونوں شہزادے جمائما خان کے سپرد کردیئے تاکہ وہ لندن میںانکے تعلیمی اخراجات رہائش اور رہنے کا مفت بندوبست کرلیں نہ صرف یہ بلکہ اپنی بیٹی ٹیریان کو بھی جمائما کے حوالے کردیا تاکہ وہ انہیں اپنی لے پالک بچی کی طرح پالے حال ہی میں انکی پارٹی کی سرکردہ رہنماعظمیٰ کاردار کی ایک آڈیو لیک ہوئی ہے جس میںانہوںنے انکشاف کیا ہے کہ خان صاحب نے اپنے گھر کے باہر ایک لکیر کھینچ دی ہے اور حکم دیا ہے کہ افرادخانہ کے سوا کوئی لکیر پار نہ کرے یہ بات تو پہلے بھی عام تھی خان صاحب پارٹی لیڈروں کو گھر کے اندر نہیںبلاتے کیونکہ انکے خیال میںلگڑ پگڑ لیڈروں کی وجہ سے ان کا گھر میلا ہوتا ہے اب تو خیر سے انہوںنے یاروں دوستوں یاسرکار کے خرچ سے ایک اور بلڈنگ کھڑی کردی ہے جس میںاجلاس ہوتے ہیں پارٹی رہنما آتے جاتے ہیں لیکن کسی کوپانی کے سوا اور کچھ نہیںملتا خان صاحب کی کفایت شعاریٰ کی ایک ادنی مثال یہ ہے کہ بنی گالا کے وسیع وعریض علاقہ 15برس سے ایک عمارت نامکمل ہے اور آج تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا نہیںجاسکا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فضول خرچی ہے حالانکہ جو 2سوکینال وہ باجی علیمہ کا ظاہرکرتے ہیں باجی نے آج تک وہاں پر قدم بھی نہیںرکھا عظمیٰ کاردار کے مطابق بنی گالا محل کے اندر موکل ہیں اور موکل کبھی برداشت نہیںکرتے کہ انسان انکے کاموں میںدخل اندازی کریں چونکہ خان صاحب اور بیگم صاحبہ ان موکلوں کے آقا ہیں اس لئے جن نہ صرف انہیں برداشت کرتے کرلیتے ہیں بلکہ انکے احکامات بھی بجالاتے ہیں۔ دو سال ہونے کوآئے ہیں آج تک پتہ نہ چل سکا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت عمران خان چلارہے ہیں یا ان میں موکلوں کا زیادہ عمل دخل ہے بعض اوقات گماں ہوتا ہے کہ اصل فیصلے کوئی اور کرتا ہے جبکہ خان صاحب کو اس کا بعد میںپتہ چلتا ہے کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کوہ قاف سے آئے ہیں اور انہیں زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہے غالباً شوکت خانم کے جس ڈاکٹر نے خان کو انجکشن لگایا تھا جس کے بعد حوریں نظرآئی تھیں وہ دراصل کوہ قاف سے آیا تھا خان صاحب سے ملنے والی خواتین کی اکثریت کوگھمنڈہے کہ وہی حوریں ہیںلیکن جب سے خان صاحب نے اصل حوروں کی بات کی ہے تو تحریک انصاف کی ساری نوجوان خواتین پریشانی کا شکارہیں۔
خان صاحب اگرچہ پاکستانی ہیں لیکن وہ مقامی خواتین کو کبھی حور نہیںسمجھتے کیونکہ انکی پوری جوانی گوریوں کے ساتھ گزری ہے ایک گوری تو آج کل بھی پاکستان میں ہے اور خان صاحب نے انہیںپشتونخوا آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کاکنسلٹنٹ رکھاہے حالانکہ انہیںآثار جدیدیہ کا توپتہ ہے لیکن آثارقدیمہ کا کوئی علم نہیں ہے خاتون پھولوں کے رسیا ہیں اگر انہیں محکمہ زراعت میںبھرتی کیاجاتا تو زیادہ مناسب تھا ٹی وی اینکر بیگم نوازش علی نے ایک وڈیو کلپ میںانکشاف کیا ہے کہ سنتھیارچی نے جو کہ اسکی روم میٹ تھی اسے بتایا تھا کہ عمران خان نے بھی تنہائی میںملنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن بازی رحمن ملک کے ہاتھ لگ گیا ایک پراسرار خاتون جو ڈبل رول ادا کررہی ہے یا ڈبل گیم کھیل رہی ہے اتنے عرصہ سے ویزا کے بغیر یہاں رہ کر کیا کررہی ہے یہ کن لوگوں کی پناہ میںہے اگر اسے رکھنے کا مقصد مخالفین کی کردار کشی ہے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہے کیونکہ واپس جاکر جب وہ کتاب لکھے گی تو کوئی مرشد کوئی پارسا اور کوئی صوفی نہیںبچے گا اگرچہ لوگوں نے شروع میںریحام خان کی کتاب کو سنجیدہ نہیں لیا تھا لیکن رفتہ رفتہ لوگ اسے زیادہ غور سے پڑھیں گے اور اس میںدرج ہوشربا انکشافات پر یقین کرنا شروع کردیںگے پہلے لوگوں اس لئے یقین نہیں کیا کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت عروج پر تھی بلکہ تحریک انصاف والوں نے الٹا ریحام خان کو پروپیگنڈہ کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا یہ تک کہا گیا ہے کہ کتاب کی اشاعت کا انتظام شہبازشریف نے کیا ہے تاکہ عمران خان کو2018ء کے انتخابات میںنقصان پہنچے سنتھیارچی کی کتاب تو اس سے زبادہ تہلکہ خیز ہوگی بلکہ مصطفی کھر کی سابقہ اور شہبازشریف کی موجودہ بیوی تہمینہ درانی کی کتاب مائی فیوڈل لارڈ سے زیادہ رنگین ہوگی جن لوگوں نے امریکی خاتون کو اپنی پناہ میںرکھا ہے وہ گھاٹے کا سودا کررہے ہیں آگے چل کر اس سے کیا کام لیاجائے گا یہ تومعلوم نہیں اگر آصف علی زرداری بہت زیادہ بیمار نہ ہوتے تو بات ان تک لے جائی جاتی پروفیسر صاحبان نے اپنے تئیں زرداری کادائمی علاج سوچ رکھا ہے وہ عذیر بلوچ کے اقبالی بیان کو بہت دھیان سے رکھے ہوئے ہیں لیکن اس سے کچھ ہونے والا نہیں صولت مرزا نے تو اپنے بیان میں ایم کیو ایم کی پوری قیادت پر ایک ایک کا نام لیکر الزام لگایا تھا لیکن بیچارہ اکیلئے پھانسی چڑھ گیا اور ایم کیو ایم کے کسی لیڈر کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا بلکہ کئی تو حکومت میںبھی شامل ہیں۔
وزیراعظم کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان میںکرونا پھیلانا ہے جبکہ دوسرا کارنامہ جناح اور دل کے امراض کے اسپتال پرقبضہ کرناہے۔دل کے اسپتال کے بارے میںآج صبح ایک پوسٹ پڑھنے کو ملی جس کے مطابق ساری دنیا میںدل کے مفت علاج کا سب سے بڑا اسپتال یہی ہے سندھ حکومت ہرسال اسے ایک ارب روپے سے زائد کا فنڈ دیتی ہے جبکہ اس کے12یونٹ اندرون سندھ بھی قائم کئے گئے ہیں وفاق کا اس میںایک پیسہ بھی نہیںلگا ہے خدشہ ہے کہ وفاق کے زیر انتظام آجانے کے بعد دل کے امراض کایہ عظیم ادارہ تتربتر ہوجائے گا یہی حال جناح اسپتال کا ہوگا اس سے متصل کینسراور بچوں کا جو اسپتال ہے انکا جواب ہی نہیں ہے وفاق ان پر قبضہ کرکے کیاحاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ تمام وفاقی ادارے نہیں چل رہے ہیں وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے اسپتال پمز کا برا حال ہے وہاں کا پولی کلینک تو گھوڑااسپتال معلوم ہوتا ہے کوئی عمران خان کو سمجھائے کہ وہ یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے لاکھوں مریض علاج کی سہولت سے محروم رہ جائیں گے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ کیپٹل کے اسپتالوں کی حالت بہتربنائیں اور انہیں کم از کم شوکت خانم کی سطح پر لے آئیں لیکن ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وزیراعظم صدر ٹرمپ کی طرح ضدی طبعیت کے مالک ہیں وہ اپنے سوا کسی کی غلطیوں کو معاف کرنے کوتیار نہیںانہوںنے چینی کے اسکینڈل سے بھی کچھ نہیںسیکھا صاف نظر آیا ہے کہ انہوںنے اپنے چینی چور ساتھیوں کو کیسے بچایا حکومت کی نااہلی میںآئے روزاضافہ دیکھنے میںآرہا ہے تیل کی قلت اسکی حالیہ مثال ہے کوئی دن ایسا نہیںگزرتا کہ غریب عوام کیلئے حکومتی اقدامات سے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتیل کے بعد بجلی کا زبردست بحران آنے والا ہے کیونکہ کے الیکٹرک کا اس وقت کوئی والی وارث نہیں ہے اس کا مالک عارف نقوی انگلینڈ کی جیل میںہے او اس پر39کروڑ ڈالر خرد برد کا الزام ہے جبکہ دوبئی حکومت کا کہنا ہے کہ ابراج گروپ نے14ارب ڈالر کاہیرپھیر کیا ہے عارف نقوی امریکہ میںبھی مطلوب ہیں جہاں انکو100-80 کی سزا ہونیوالی ہے ، اس وقت وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو بھاری سبسڈی دے کر چلارہی ہے ایک دن آئیگا جب کراچی مکمل تاریکی میںڈوب جائیگا اسی طرح وفاق کے زیرانتظام بجلی گھروں کو چلانے کیلئے تیل اور کوئلہ کے پیسے نہیںہیں اس سال اگست سے دوبارہ کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہوجائیگی اوپر سے کرونا کا عذاب نازل ہے خود حکومت کا کہنا ہے جولائی تک 12لاکھ لوگ بیماری کا شکار ہوجائیںگے جبکہ مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے آخر تک22لاکھ لوگوںکی ہلاکت کاخدشہ ہے وزیراعظم نے لاک ڈائون کی مخالفت کرکے تمام ہلاکتیں اپنی حکومت کے نام لکھوالی ہیں کیابعیدکہ کل عبدالقادر پٹیل قاتل اعظم کا لفظ استعمال کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں