عزت اور ذلت میں انتخاب

انور ساجدی
غور طلب بات ہے کہ شورش زدہ علاقہ کیچ میں تسلسل کے ساتھ جو افسوسناک واقعات ہورہے ہیں آیا یہ لارینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے یا اس میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں سانحہ ڈنک کے بعد نیم مردہ سول سوسائٹی نے طویل عرصہ کے بعد اپنے وجود کا احساس دلایا تھا بلوچستان کے طول پر عرض میں شدید احتجاج ہوا تھا جس کے نتیجے میں واقعہ میں ملوث تمام ملزمان پکڑلئے گئے تھے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شخص اپنی وابستگی بتائے بغیر واضح طور پر اپنی شناخت ظاہر کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اگر ملکنازشدید مزاحمت نہ کرتی تو ہمارے ساتھی انہیں جان سے نہ مارتے اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ملزمان کے اصل چہرے اور مقاصد پہچانے گئے یعنی وہ کیچ کے عوام میں خوف و دہشت پھیلانا چاہتے تھے تاکہ کوئی سر نہ اٹھا کر چلے اور جو بھی ہوتا ہے اس پر خاموشی اختیار کرے۔
کیچ تاریخی طور پر ایک حساس علاقہ ہے چونکہ یہ مغربی بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے اس لئے اس میں ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کا آنا جانا رہتا ہے کسی زمانے میں ڈرگ اسمگلر اسے نشانہ بنائے ہوئے تھے پھر ملا صاحبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سیاسی ہدف بننے والے لوگوں نے یہاں جائے پناہ ڈھونڈی کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ مکران میں قبائلی معاشرہ وجود نہیں رکھتا اور یہاں ایک کامل سیاسی سوچ موجود ہے اس علاقہ میں طویل عرصہ تک ملیٹینسی بھی نہیں تھی۔
2005 میں نواب صاحب نے ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر مالک سے پوچھا کہ جو حالات ہیں مکران کیا کردار ادا کرے گا ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ہم قبائلی لوگ اور بندوق بردار نہیں ہیں ہم پہاڑوں کا رخ بھی نہیں کرسکتے ہم سیاسی طور پر احتجاج کرسکتے ہیں جلسہ و جلوس کرسکتے ہیں۔
لیکن نواب صاحب کی شہادت کے بعد مکران تبدیل ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مزاحمت کا سب سے بڑا مرکز بن گیا سیاسی اعتبار سے بھی اور مسلح انداز فکر کے حوالے سے بھی یہ قبائلی علاقوں پر بازی لے گیا اس مزاحمت کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہونے تھے کیونکہ ردعمل بھی ایسا ہی نکلنا تھا قدرتی بات ہے کہ جب میدان جنگ میں گھمسان کا رن پڑا ہو تو ساری روایتیں اور اصول ایک طرف رہ جاتے ہیں کیچ میں کئی ایسے معرکے لڑے گئے کہ ان کا تذکرہ تو آنے والے زمانے میں تاریخ کی کتابوں میں ہوگا کیچ کو اس احتجاج کیلئے واجہ غلام محمد نے تیار کیا تھا ساتھیوں سے نظریاتی اختلاف کے بعد وہ ایک دن بھی اپنے گھر نہیں سوئے وہ قریہ قریہ گاؤں گاؤں گئے اور لوگوں کو اپنے نظریہ پر چلنے کیلئے تیار کیا جب ان کی شہادت ہوئی تو اس کا ردعمل پورے بلوچستان میں ہوا اور اور یہاں کے لوگ بدل گئے حتیٰ کہ کیچ کو حکومت ملی ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا مالک نے یونیورسٹی بنائی میڈیکل کالج کھولا تربت کی نوک پلک درست کی لیکن لوگ قائل نہ ہوئے کیونکہ انہوں نے ریاستی اداروں سے اپنا ناطہ توڑ لیا تھا وہ دراصل ایک جدا راستے پر چل پڑے تھے ایسے میں سی پیک کا منصوبہ آیا اس کا مرکز گوادر تھا اور کیچ کے بغیر گوادر ادھورا ہے کیونکہ کیچ مغربی بلوچستان کا نہ صرف ثقافتی مرکز ہے بلکہ نصیر خان کے حملہ سے قبل اس کی جداگانہ حیثیت تھی گوکہ مغربی بلوچستان کا سیاسی مرکز بمپور تھا لیکن وہ بھی تاریخی اعتبار سے مکران کا ہی حصہ تھا کیچ مذہبی اعتبار سے بھی ایک منفرد تشخص کا حامل تھا اگر اس بات کو عقیدہ سے جدا کرکے دیکھا جائے تو کوہ مراد کی یہاں موجودگی ایک مرکزیت کی حیثیت رکھتی تھی گوادر میں جو ہونا تھا سو ہونا تھا۔کیچ کو قابو کئے بغیر دور رس مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے تھے چنانچہ ایسا پلان بنایا گیا کہ کیچ میں صرف اپنے ہی لوگ آگے آئیں اور اس میں مخالفین کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے یہی وجہ ہے کہ کیچ کو انتظامی طور پر ساؤتھ زون کا نام دیا گیا یہاں بڑے پیمانے پر اپنے لوگ پیدا کئے گئے یہاں پر ”حالکاری“ کا ایک جال بچھایا گیا سینکڑوں رضاکار بھرتی کئے گئے جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ساؤتھ زون کووسطی پنجاب کی طرح مخصوص ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ سرکاری رٹ مضبوط ہوسکے لوگ دیکھیں گے کہ آئندہ ایک عشرے میں کیچ کنکریٹ کا جنگل بن جائے گا۔ یہاں جدید شاپنگ مالز اور کاروباری مراکز بھی قائم ہونگے ہوسکتا ہے کہ ڈی ایچ اے بھی آئے ایسا وقت بھی آئے گا کہ یہاں پر زمین کی قلت ہوجائے گی اس زمانے میں ”کوہ مراد“ کی طلب زور پکڑے گی اگرچہ میں نے یہ مقام دیکھا نہیں ہے سنا ہے کہ یہ ایک وسیع و عریض علاقہ ہے۔
اس ممکنہ ترقی کا مقصد معاشرتی معاشی اور سیاسی تبدیلیاں لانا ہے قدرتی بات ہے کہ جب معاشی اہداف بدل جائیں تو معاشرت اس کے ہی سانحے میں ڈھل جاتی ہے جب آبادی متنوع ہوجائے تو زبان اور طرز زندگی میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوجاتی ہیں کولواہ سے کیچ تک جوبے آب و گیاہ صحرا ہے وہ بدلنے جارہا ہے کیونکہ بزداد کے واقعہ کے بعد اس کا بدلنا لازمی ہوگیا تھا آواران ہو مالار ہو بزداد ہو یا ہوشاپ یہ تبدیلی کا نیا زون ہے کیونکہ یہاں پر تبدیلی لائے بغیر گوادر کا کامل حصول ادھورا رہے گا اگر کولواہ میں کچھ نہ بدلا تو وہ امام بھیل عرف بزنجو کا مقام نہیں بدلے گا۔
اگر حالات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا ڈیرہ جات کو جنوبی پنجاب بنانے سے پہلے بلوچ ثقافت کا سب سے بڑا مرکز کوہ سلیمان تھا لیکن انگریزی فیصلہ نے پوری معاشرت بدل دی پھر یہ مرکز کوہلو ڈیرہ بگٹی اور کشمور میں منتقل ہوا لیکن جب وہاں پر بڑا ہاتھ پڑا تو یہ مرکز کیچ منتقل ہوگیا۔
کیچ آج بلوچی دوچ کا سب سے بڑا مرکز ہے وقتی طور پر اس کی ڈیمانڈ اور قیمت بڑھنے والی ہے کیونکہ بڑی بڑی کمپنیوں نے ارطغرل ڈرامہ میں یہ لباس دیکھنے کے بعد اس کے مشینی ڈیزائن بناکر مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جیسے کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ہاتھ کی بجائے کشیدہ کاری کی مشینیں ایجاد کرلی گئی ہیں۔
کیچ کے دوچ کی ظاہری نمائندگی بی بی زبیدہ جلال کافی عرصہ سے کررہی ہیں لیکن یہ دوچ بی بی ملکناز اور بی بی کلثوم جیسی خواتین کے دست ہنر کی مرہون منت ہے کسی زمانے میں یہاں کے ”چوٹ“ پر بھی چگین کاری کی جاتی تھی لیکن یہ کام اب کمرشلائز ہوگیا ہے اسی طرح دوچ بھی کمرشلائز ہونے لگا ہے لیکن یہ اس کے زوال کا آغاز ہے کیونکہ ملکناز اور کلثوم نہ رہیں تو کا ہے کا دوچ کا ہے کی کشیدہ کاری اور کاہے کی ثقافت جب ثقافت کمرشلائز ہوجائے تو وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے تابع ہوجاتی ہے۔
انگلستان میں اسکرٹس اور شرٹس پر جو چھوٹی چھوٹی کشیدہ کاری مشینوں سے کی جاتی ہے وہ انگریزوں نے انڈیا سے سیکھا تھا ایک حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعدازاں خود انگریزی سرکار نے کم و بیش دو سو سالہ راج کے دوران انڈیا میں جو لوٹ مار کی وہ آج کے انگلینڈ کی کل پیداوار سے 10 لاکھ گنا زیادہ تھا اسی لوٹ مار کے سہارے انگریز دو سو سال تک نصف دنیا پر حکمرانی کرتے رہے لیکن جب یہ اصل زر ختم ہوگیا تو انگریز دوبارہ غریب ہوگئے۔
وقت آئے گا کہ سب لوگ دیکھیں گے کہ جو تبدیلیاں درکار ہیں اگر وہ آگئیں تو بلوچ ثقافت کی چیدہ چیدہ چیزوں کی وقعت تو ہوگی لیکن لوگوں کی نہیں ہوگی۔
انگریزوں نے ویسٹ بنگال میں کئی ہتھوڑا گروپ بنائے تھے جو دریائے ہگلی کے کنارے لوگوں کا سر کچلتے تھے اور 1857 میں غدرکے بعد دہلی میں جتنے درخت تھے ہر ایک کی شاخوں پر مقامی لوگوں لٹک رہے تھے انگریزوں نے بعد میں جو معاشی اور معاشرتی انقلاب برپا کیا اس کے نتیجے میں مغل بادشاہوں کا لباس ویٹروں کو پہنایا گیا اور بہادر شاہ ظفرکو رنگون میں ایک گیراج کے اندر قید کیا گیا اگر بہادر شاہ ذلت آمیز گرفتاری کی بجائے اپنی جان کی قربانی دیتے تو ان کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک نہ ہوتا جو قابض انگریز نے کیا۔
جب بھی تاریخ میں عزت اور ذلت کے درمیان انتخاب کامسئلہ آجائے تو عزت کا راستہ چننا چاہئے جیسے کہ فتح علی ٹیپو خان محراب خان اور اکبر خان شہید نے چنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں