مک مائن، گولڈ سمتھ، یحییٰ لائنز اور بلوچستان

جئیند ساجدی
فرانسیسی لیڈر نیپولین بونا پاریٹ تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ”جب مشترکہ طور پر لوگ جھوٹ کو سچ تسلیم کر لیں وہ جھوٹ تاریخ کہلاتی ہے“۔غالباً اس سے نیپولین کا مطلب یہ تھا کہ ہر قوم اپنی مصنوعی تاریخ بناتی اور ڈھونتی ہے اورخود کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتی ہے۔ اس مصنوعی تاریخ کو جب لوگ حقیقت سمجھتے ہیں وہ تاریخ کہلاتی ہے۔ویسے تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واقعی ہر قوم وملک نے اپنے تاریخ کو خوبصورت اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ایک اوردانشور تاریخ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”جب تک شیر کوخود لکھنا نہیں آئے گاتو قلم ہمیشہ شکاری ہی کی تعریف کریگی“غالباًاس دانشور کا مطلب نو آباد کاروں کی اپنی کالونیوں میں لکھی گئی تاریخ ہوگی۔جب بھی کوئی نو آباد کار کسی خطے پر قبضہ کرتے تھے تو وہ اپنی قبضہ گریت کو جائز قرار دینے کے لئے اس مفتوحہ خطے ا ور قوم کی تاریخ اپنی سیاسی مفاد ات کے مطابق لکھتے تھے۔اگر ترکی دانشور کرد ستان یاکردوں کے متعلق تاریخ لکھیں گے تواپنے سیاسی مفادکو مد نظر رکھ کے لکھیں گے۔اسی طرح اگر اسرائیلی دانشور فلسطین کے تاریخ لکھیں گے تو اپنے زاویئے سے لکھیں گے۔بلوچستان اور بلوچوں کی تاریخ بھی اکثر غیر ملکیوں اور نو آباد کاروں نے لکھی ہے جس میں بہت سارا بہام ہے اور بہت سے تاریخی حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔دور قدیم میں بلوچوں کی تاریخ اکثر ایرانی (فارسیبان)تاریخ دان جیسے کہ ابو قسم فردوسی الفریدی نے لکھی ہے۔غالباً انہی ایرانی دانشور وں کی کتابیں پڑھ کر کسی مطالعہ پاکستان کے ماہر تعلیم نے پنجاب کی تعلیمی نصاب کی کتاب میں بلوچوں کے متعلق یہ لکھا تھا کہ ”فارسی زبان میں بلوچوں کا مطلب غیر مہذب افراد کے ہے جو لڑائی جھگڑوں اور قتل وغارت میں مصروف رہتے ہیں یہ ریگستانوں میں رہتے ہیں اور قافلوں کو لوٹتے ہیں“ایرانی دانشور کے بعد اکثر بلوچستان کی تاریخ برطانوی سرکاری ملازموں نے لکھی ہے جو یہاں حملہ آور کی حیثیت سے آئے تھے۔برطانوی سرکاری ملازموں نے تاریخ کے متعلق بہت سارا ابہام پیدا کیا ہے۔تعجب کی بات ہے کہ بہت سے بلوچ دانشوروں نے بھی برطانوی سرکاری ملازموں کی کتابوں جن کا مقصد علمی نہیں بلکہ سیاسی تھا ان کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا دیا ہے۔
غالباً مطالعہ پاکستان کے دانشوروں سے متاثر ہو کر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کچھ روز قبل یہ بیان دیا تھا کہ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان نام کا کوئی وجود نہیں تھا۔بلکہ یہاں چار ریاستیں تھی جیسے کہ قلات،مکران،خاران اور لسبیلہ۔حالانکہ بلوچستان کا ذکر ہمایوں نامہ جو مغل بادشاہ ہمایوں کی ہمشیرہ نے پندرویں صدی میں تحریر کیا تھا اس میں انہوں نے بلوچستان کا ذکر کیا تھا۔حال ہی میں ایک ویڈیو نظر سے گزری ہے جس میں ضلع چاغی افغانستان کے چھوٹے سے گاؤں برابچہ کے رہائشی موجودہ پاک افغان سرحدپر باڑ لگانے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔کچھ میڈیا کے اداروں نے اسے اپنی رپورٹنگ میں ڈیورنڈلائن قرار دیا ہے جو 1893ء میں برطانوی ایجنٹ مارٹی مر ڈیورنڈ نے افغانستان کو تقسیم کرنے کے لئے کھینچا تھا اس لائن یا بارڈر کو ابھی تک افغان حکومت غیر قانونی قرار دیتا ہے اور بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتا۔چاغی سے منسلک بارڈر جہاں یہ احتجاج ہو رہا تھا اور جہاں سرحد کے دونوں اطراف بلوچ رہتے ہیں یہ ڈیورنڈ لائن نہیں بلکہ مک مائن لائن(McMahon line) کہلاتا ہے جسے کچھ تاریخ دان بلوچ افغان باؤنڈری بھی کہتے ہیں۔یہ لائن ڈیورنڈ لائن کے تین سال بعد 1896ء میں برطانیہ کے ایک اور سرکاری ملازم کیپٹن ہنری مک مائن نے کھنیچا تھا جس طرح ڈیورنڈ لائن نے پشتون برادری کو دو بین الاقوامی ریاستوں پاکستان اور افغانستان میں تقسیم کیا ہے اسی طرح مک مائن لائن نے بلوچوں کو بھی دو بین الاقوامی ریاستوں افغانستان اور پاکستان میں تقسیم کیا ہے۔اس سے قبل افغانستان کے بلوچ آبادی والے علاقے جیسے کے ہلمند،نیمروز،زرنج،گرم سیل وغیرہ۔ریاست قلات یا بلوچستان کے حصے تھے بلوچ تاریخ دان عنایت اللہ بلوچ لکھتے ہیں کہ ”مک مائن لائن چمن سے شروع ہو کر بلوچستان اور ایران کے بارڈر پر ختم ہوتا ہے اس لائن سے قبل یہاں سنجرانی سردار ابراہیم خان کی حکومت تھی جو کہنے کی حد تک خان آف قلات کے ماتحت تھا لیکن عملی طور پر تقریباً آزاد تھا۔ابراہیم خان سنجرانی کا ہیڈکوارٹر چاکنسر(سیستان) میں تھا۔ابراہیم خان سنجرانی نے اپنے علاقوں کو افغانستان میں ضم کرنے اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن کو اپنا امیر ماننے سے انکار کردیا اور برطانوی سرکار سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ میرا علاقہ ریاست قلات کے ماتحت ہے لیکن برطانیہ کی کابل پالیسی سے متاثر ہو کر امیر عبدالرحمن نے چاکنسر پر اپنے دستے بجھوادیئے اور ابراہیم خان سنجرانی کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔امیر عبدالرحمن نے ابراہیم خان سنجرانی کو خود کو امیر تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ان کی عہدے سے برطرف بھی کردیا۔ریاست قلات کے حاکم خدائیداد خان نے اس پر کیا رد عمل دیا تھا اس پر کوئی معلومات نہیں“تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے بلوچ رہنماء اور کچھ دانشوربھی مک مائن لائن یا بلوچ افغان سرحد کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔یہ بارڈر یا لائن (مک مائن)اس لئے غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ سنجرانی سردار جن کی وہاں حکومت تھی وہ ریاست قلات کے ماتحت تھے۔اور قلات کی آزادانہ حیثیت کو برطانوی سرکار نے قلات سے کیئے گئے دو معاہدوں 1854ء اور1876ء میں تسلیم کیا تھالیکن یہ بارڈر بناتے وقت خان خدائیداد خان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس میں صرف دو ہی فریقین شامل تھے ایک برطانوی سرکار اور دوسرے افغانستان کے امیر،حالانکہ اس مک مائن لائن سے 26سال پہلے انگریزوں نے گولڈ سمتھ لائن (1871)بنا کر بلوچستان کے کچھ حصے ایران میں ڈال دیئے تھے اس وقت ریاست قلات سے مشاورت کی گئی تھی اور گورنر مکران سردار فقیر محمد بزنجو ریاست قلات کے نمائندے تھے اور ایران کی نمائندگی مرزا ابراہیم نے کی تھی۔گولڈ سمتھ جو مک مائن کی طرح برطانیہ کے سرکار کے ملازم تھے انہوں نے گولڈ سمتھ لائن بنا کر بلوچوں کو دو بین الاقوامی سرحدوں میں تقسیم کردیا بعض بلوچ دانشور جیسے کے گل خان نصیر،عنایت اللہ بلوچ،جان محمد دشتی وغیرہ یہ لکھتے ہیں کہ دونوں لائنز گولڈ سمتھ(1871ء) اور مک مائن لائن (1896ء)برطانوی حکام نے ایران اور افغانستان کے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے بنائے تھے۔کیونکہ اس خطے (ایشیاء) میں دو بڑی عالمی طاقتیں تھی،جنوبی ایشیاء میں برطانوی سامراج اور وسطی ایشیاء میں روس دونوں کے درمیان اس وقت اس خطے میں اپنا اثر وسوخ بنانے کے لئے مقابلہ تھاایران اور افغانستان روس کے خلاف اپنا اتحادی بنانے کے لئے برطانیہ نے بلوچستان کے حصے افغانستان اور ایران میں بانٹ دیئے اس حوالے سے معروف بلوچ دانشور و شاعر گل خان نصیر لکھتے ہیں کہ ”باؤنڈری کمیشن کے فیصلے سے آدھے سے زیادہ بلوچستان کا حصہ ایران کے قبضے میں چلا گیا اور ایک حصہ افغانستان کے۔بے حاکم بلوچستان کی تقسیم کی وجہ ایران اور افغانستان کو خوش کر کے ان کو روس کے خلاف اپنا اتحادی بنانا تھا“ان دونوں تقسیم کے وقت برطانوی سامراج نے چار چیزوں ثقافت،تاریخ،جغرافیہ اور لوگوں کی حق خود ارادیت کو نظر انداز کیا۔اس حوالے سے برطانوی افسر جے۔رمسے لکھتے ہیں کہ ”سارے کا سارا ایرانی بلوچستان محض کہنے کی حد تک ایرانی گورنر جنرل جو کرمان میں بیٹھتا ہے اس کے زیر انتظام میں آتا ہے لیکن 15سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے کہ کسی ایرانی حکام نے اس خطرناک زمین پر اپنا پاؤں تک نہیں رکھا جس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی گورنر جنرل بلوچستان میں مکمل طورپر اجنبی ہے۔نسل کے حوالے سے بھی اجنبی اور مذہب کے حوالے سے بھی،بلوچ،سنی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنا شجرہ نصب فارسیبانوں سے مختلف سمجھتے ہیں لہذا فارسیبانوں کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں کہ وہ (بلوچستان)پرجہاں وہ اجنبی ہیں اپنی رٹ قائم کرسکیں۔وہاں کے لوگوں سے فارسیبان خود نفرت کرتے ہیں اورو ہاں کے مقامی لوگ بھی فارسیبانوں سے نفرت کرتے ہیں“انگریزوں کی جانب سے بلوچستان کی بین الاقوامی تقسیم نے بلوچوں کی سیاسی،ثقافتی اور قومی یکجہتی کو بری طرح متاثر کیا ان کی طاقت وصلاحیت مختلف حصوں میں تقسیم ہوئی نیشنلزم کے فروغ کے لئے ایک انتظامیہ اور ایک جغرافیہ میں رہنا ضروری ہوتا ہے بکھرے ہوئے لوگ قوم نہیں بن سکتے پاکستانی کوئی قوم نہیں بن سکی کیونکہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں تھا اور مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے ہزاروں میل دور تھا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی حکومتی اشرافیہ کا رویہ بلوچوں اور بلوچستان کے ساتھ برطانوی طرز عمل کا ہی رہا ہے۔ 1970ء میں جب بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے دیا گیا تھا۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو پنجاب کا حصہ بنایا گیا اور خان گڑھ (جیکب آباد)کو سندھ کا حصہ بنا دیا گیا اس لائن کو جو بلوچستان کے تاریخی حصوں کو بلوچستان سے جدا کرتا ہے اس کو یحییٰ لائن کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ صوبہ بلوچستان کی حدود انہوں نے ہی طے کی تھیں۔اور ان کا رویہ برطانوی افسران مک مائن اور گولڈ سمتھ سے مختلف نہیں تھا۔بلوچستان کے تاریخی حصوں کو پنجاب اور سندھ میں ڈالتے وقت جنرل یحییٰ خان نے بھی چار چیزوں ثقافت،جغرافیہ،تاریخ اورعوام کی حق خود رادیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا جس طرح بعض بلوچ مک مائن لائن سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ افغانستان کے بلوچ علاقے کبھی بلوچستان کا حصہ ہوا کرتے تھے اسی طرح بہت سے بلوچ یحییٰ لائن سے بھی ناواقف ہیں کہ خان گڑھ کبھی بلوچستان کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں