فالٹ لائن

انور ساجدی
نریندر مودی لال بہادر شاستری کے بعد انڈیا کے ناکام ترین وزیراعظم ثابت ہورہے ہیں انکی بنیادی شہرت گجرات کی ترقی سے بنی تھی لیکن جب وہ وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے تو انکی صلاحیتوں کاپول کھل گیا اپنے ملک کو شدید فرقہ واریت کا شکار بناکرمودی نے ترقی اور ارتقا کاپہیہ الٹا گھما دیا حالانکہ دنیا کے تمام اشارے اس بات کے غماز تھے کہ انڈیا2030ء میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت اور 2050ء میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جائیگا لیکن مودی نے اقلیتوں کیخلاف محاذ کھول کر اور کشمیر میں بے رحمی کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کوکچل کر دنیا بھر میں ہندوستان کے امیج کو داغدار بنادیا نہ صرف یہ بلکہ چین سے حالیہ سرحدی تنازعہ پرمودی نے جس نااہلی کامظاہرہ کیا اس سے ملک کے عوام شدید خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے کہا ہے کہ سرحدی جھڑپوں کے بعد مودی چوہے کی طرح چپ گئے ہیں اور وہ چین کوبھرپور جواب دینے میں ناکام رہے مودی کیلئے تشویش کی بات یہ ہے کہ چین نے بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کومکمل طور پر تبت کا حصہ قراردیا ہے اگر مودی چین کے ساتھ مکمل جنگ چھیڑتے ہیں تو وہ شکست سے بچ نہیں سکتے اور اگرآنکھیں بند کرلیتے ہیں تو صرف سرحدی علاقے نہیں بلکہ ہماچل پردیش کابڑا حصہ ہاتھ سے چلاجائیگا مودی کیلئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ اور روسی صدرپوٹن سے رابطہ کریں اور انکوثالثی پرقائل کریں کیونکہ چین اور بھارت کے درمیان جو ورکنگ باؤنڈری ہے اسے ”میک موہن“ لائن کہاجاتا ہے جسے چین تسلیم نہیں کرتا پہلا سرحدی معاہدہ 1906ء میں روس اور برطانیہ کے درمیان طے ہوا تھا اس وقت تبت کمزور چین کاحصہ نہیں تھا بلکہ الگ ملک تھا ایک سال کے بعد یعنی 1907ء کو چین کو بھی معاہدے میں شامل کیا گیا چین نے شرط رکھی تھی آئندہ کے مذاکرات میں تبت کو شامل نہیں کیاجائیگا۔
1914ء کو شملہ میں ایک اور معاہدہ چین،بھارت اور تبت کے درمیان ہوا جس میں طے پایا کہ ہماچل پردیش کے علاقہ ”توانگ“ کااوپر کاحصہ چین کی ملکیت ہوگا جبکہ نیچے کاعلاقہ بھارت کے زیرکنٹرول رہے گا1950ء میں چین نے تبت پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ فرارہوکر بھارت آگئے چین نے اس پر شدید احتجاج کیا جسکی وجہ سے تعلقات خراب ہوگئے حتیٰ کہ1962ء میں نوبت جنگ تک پہنچی جواہر لعل کو شکست ہوئی اور چین نے لداخ پر قبضہ کرلیا ایک اور بات لوگوں کو معلوم نہیں کہ ایوب خان نے چین کے ساتھ اپنی سرحد کی نوک پلک درست کرتے ہوئے ایک اچھا خاصہ علاقہ چین کو بطور تحفہ دیدیا۔بالکل میرجاواکی طرح
اب جبکہ چین سپرپاور بن چکا ہے وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ من مانی کرے جیسے کہ اس کے فوجیوں نے بھارتی فوجی اہلکاروں کوپتھر مار کر ہلاک کردیا پہلے کی بات اور تھی 1962ء میں چین کی رسائی اس علاقے میں نہیں تھی لیکن اب چین نے راستے بنائے ہیں تبت کومربوط کرلیا ہے پہلے تبت متنازع علاقہ تھا اب چین نے اسے مکمل طور پر ضم کرلیا ہے دنیا دلائی لامہ کو بھول چکی ہے اور انڈیا کے مقابلے میں بڑی طاقتیں چین کا ساتھ دیں گی یہ بات طے ہے کہ چین اگرچہ موجودہ سرحد کو نہیں مانتا لیکن وہ بات چیت پر آئے گا اور روس اور امریکہ کی مدد سے اسے مسئلہ کا حل نکالے گا لیکن بھارت کو اپنے جغرافیہ کااہم حصہ چین کو دیناپڑے گا اپنی خفت مٹانے کیلئے مودی پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر مہم جوئی کا پروگرام رکھتے ہیں کیونکہ مودی کو پتہ ہے کہ پاکستان میں ایک کمزورحکومت قائم ہے جس کے لیڈرانتہائی بزدل واقع ہوئے ہیں مودی اس مہم جوئی کیلئے اس لئے مجبور ہے کہ چین کے سامنے ہزیمت کی وجہ سے انڈیا میں اسکے کیخلاف شدید احتجاج شروع ہوسکتا ہے کیونکہ لوگ ان سے بیزار ہوچکے ہیں باقاعدہ طور پر کہاجارہا ہے کہ مودی بھارت کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکے ہیں اور بھارت ان کا مزید بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔
چین اور بھارت کے درمیان چونکہ ہمالیہ واقع ہے جس کی فٹ ہلز اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز ہیں اس علاقے میں آئے دن چھوٹے بڑے زلزلے آتے رہتے ہیں تین دن قبل بھی اسلام آباد میں زلزلہ کے جھٹکے آئے تھے لیکن اخترمینگل نے پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوکر ایک بم شیل یازلزلہ گرادیا ہے پی ٹی آئی حکومت 6ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے اخترمینگل کے چار ووٹ منہا ہونے کے بعد یہ دو جماعتوں ایم کیو ایم اور ق لیگ کی بیساکھیوں پرقائم رہے گی۔
اگرچہ اخترمینگل نے کسی کے کہنے پر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کیا ہوگالیکن انہوں نے اپنے اس فیصلہ سے ایک رات پہلے بلاول بھٹو زرداری کو آگاہ کیا تھا شائد انہوں نے بلاول کو اپوزیشن کے بڑے لیڈر کے طور پر اعتماد میں لیا لیکن انہوں نے شہبازشریف سے کوئی رابطہ قائم نہیں کیا معلوم نہیں کہ حکومتی سرپرستوں کاکیا ارادہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اخترمینگل کی علیحدگی سے حکومت کی دیوار سے پہلی اینٹ گرگئی ہے اگرسرپرستوں نے ساتھ دیا تو یہ پوری دیوار گرنے میں دیر نہیں لگے گی۔تبصرہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان دورہ کراچی کے بعد اسلام آباد جاکر سرداراخترمینگل سے ملاقات کریں گے اور انہیں فیصلہ بدلنے پر مجبور کریں گے لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ سردارصاحب اپنافیصلہ تبدیل کریں حکومت سے علیحدگی کی دیگر وجوہات کے علاوہ اس وقت بلوچستان کے جوداخلی حالات ہیں وہ سب سے بڑی وجہ ہے اس وقت بلوچستان کے طول وعرض میں شدہ ناراضگی اور بے چینی پائی جاتی ہے سانحہ ڈنک یادازن کاواقعہ باقی لوگوں یامیڈیا کیلئے بے شک اہم نہ ہو لیکن ان واقعات نے ایک طوفان برپا کردیا ہے بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے سے لاتعلق تھی لیکن مسلسل ہونے والے واقعات کی وجہ سے
انہوں نے امید کا دامنچھوڑدیا ہے
بے چینی اپنی جگہ لیکن ہر طرف خوف وہراس کاراج ہے کیچ کے پورے علاقے میں لوگ راتوں کوجاگتے ہیں کہ کہیں انکی چادر اور چاردیواری پامال نہ ہوجائے سیاسی جماعتوں کے غیرفعال ہونے سے لوگ خود ایک دوسرے کاسہارا ہیں انہیں لیڈروں سے کوئی امید کوئی آسرا نہیں جوپڑھے لکھے لوگ ہیں وہ جان چکے ہیں کہ جنوب میں وسیع پیمانے پر ڈیموگرافک تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جب نواب رئیسانی نے گوادر کو سرمائی ہیڈ کوارٹر بنایا تھا تو انکے فیصلہ کے پیچھے ایک معصومانہ اخلاص چھپا ہوا تھا لیکن اس بار جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے فی الوقت تو لفظ عارضی استعمال کیا گیا ہے لیکن ارادہ ہے کہ گوادر کو مستقل مرکز بنایاجائے۔1970ء میں جب کوئٹہ کو ہیڈکوارٹربنایا گیا تھا تو اس وقت اسکی آبادی صرف ایک لاکھ تھی لیکن آج اسکی آبادی 30لاکھ ہے جن میں افغان مہاجرین شامل نہیں ہیں۔
گوادر کی طرف مراجعت ایک بڑا پالیسی شفٹ ہے اور مستقبل قریب میں بلکہ کافی دیرتک اسکی قیمت یہاں کے لوگوں کو چکانی پڑے گی اس کیلئے موجوہ وقت کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ کوئٹہ میں ایک کمزور حکومت قائم ہے اپوزیشن کا کہیں وجود نہیں ہے اپوزیشن کا سب سے بڑا مقصد ایم پی اے فنڈ کا حصول ہے ثنا بلوچ بہت بولتے ہیں لیکن وہ ”اسٹریجک ڈیتھ“ کے بارے میں خاموش ہیں شائد حکومت سے علیحدگی کے بعد خدا ان میں ہمت پیدا کرے۔
یاد رکھنے کی بات ہے اگر تبدیلی کی ہوا چلے تو وہ صرف اسلام آباد کو متاثر نہیں کرے گی بلکہ کوئٹہ بھی ضرور متاثر ہوگا
عمران خان نے جہانگیرترین کو چھیڑکر گھاٹے کا سودا کیا ہے انہوں نے لندن میں نوازشریف سے جو ملاقات کی ہے اسکے اثرات آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہوجائیں گے کیونکہ عمران خان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ دوستوں اور دشمنوں کو خوش رکھ سکے انہوں نے سیاست کو چند غیر آمودہ نوجوانوں اور جدی پشتی لوٹوں کے سپرد کردیا ہے پارٹیاں بدلنے والے مکمل طور پر خاموش ہیں جبکہ مرادسعید،علی زیدی،شہریار آفریدی اور فردوس شمیم لوگوں کو ناراض کرسکتے ہیں حکومت کی طرف نہیں لاسکتے
پہلے اتحادیوں کومنانے کا کام جہانگیر ترین کرتے تھے بی این پی سے ہونے والے معاہدہ کے ضامن بھی وہی تھے لیکن عمران خان نے اپنے کسی اتحادی سے وفا نہیں کی انکی ضد انکی انا اور رعونت کسی اسٹیٹس مین کا طرز عمل نہیں ہے ان میں مختلف الخیال لوگوں کو یک جا کرکے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے وہ محاذ آرائی پر یقین رکھتے ہیں جس دن وہ کراچی میں سندھ حکومت کو ہٹانے کی تدابیر سوچ رہے تھے انکی جماعت نے سندھ اسمبلی میں وہ طوفان بدتمیزی کی کہ الامان والحفیظ حالانکہ اپوزیشن نے وفاقی بجٹ پیش کرنے کے دوران کوئی شورشرابہ نہیں کیا اس شورشرابہ کا مقصد محاذ آرائی کو بڑھاوادینا ہے عمران خان کو معلوم نہیں کہ انکے نیچے سے زمین سرک رہی ہے عوام کی طرح انکے سرپرست بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں