وکیل کاکڑ قومی ہیرو یا قومی مقتول

بایزید خان خروٹی
کئی دونوں سے لکھنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن قلم الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا ہے نظام کا وجود اپنے اختتام کی آخری سسکیاں لے رہا ہے 8جون کو تقریبا 6 بجے شام مجھے میسج موصول ہوتا ہے جس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔ بایزید بھائی میں وکیل کاکڑا سسٹنٹ کمشنر (خالق آباد) منگوچر کا بھائی ہوں ان کوڈیوٹی کے دوران کورونا کا مرض لاحق ہوگیا تین دن تک وہ اپنی جائے تعیناتی پر بے یارو مددگاراپنی سرکاری رہائش گاہ پر پڑے رہے بعد میں ہمیں انکی بیماری کی خبر ہوئی تو ہم انکو علاج کی غرض سے کوئٹہ لے کر آئے اور وہ 26مئی2020 ء سے شیخ زاہد ہسپتال کوئٹہ میں بد قسمتی سے داخل ہیں، بھائی نے آپ کا نمبر دیا ہے اور آپ سے رابطہ کرنے کو کہا ہے ہم مایوس اور بے بس ہوکر آپ کو مسیج کررہے ہیں کل رات کو یکدم سے پورے ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر میں پریشر ختم ہوگیا ہے جس سے تین کورونا کے مریضوں کی اموات واقع ہوئی ہیں وہیں وکیل کاکڑ کی طبیعت بھی سخت بگڑگئی اور مسلسل بگڑتی جارہی ہے، آکسیجن کے کم پریشر کی وجہ سے ہمیں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے بار بار شیخ زاہدہسپتال کے ایم ایس سے شکایت کی لیکن پھر بھی ہماری شکایت کا ازالہ نہیں ہورہا ہے۔ ہم نظام سے مایوس ہوکر آپ کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں یہاں نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ ہی کوئی اسٹاف ہماری مدد کررہا ہے ہم نے صبح باہر سے اپنے جاننے والے ڈاکٹر کوبلایا تو انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ فوری طور پر آکسیجن پریشر کو ٹھیک کرایا جائے ورنہ میرے بھائی کی جان کوشدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں میرے بھائی کی زندگی بچانے میں ہماری مدد کریں۔ مسیج کے جواب میں میں نے ایک مسیج لکھا۔ جسکا متن کچھ یوں تھا نااہل حکومت صرف کاغذی دنیا میں پیسے کورونا وائرس کے نام پر بے دریغ اربوں خرچ کرنے والے اعلیٰ افسران کی ناکامیاں سامنے آرہی ہیں۔ شیخ زائد ہسپتال میں کورونا وارڈ میں زیر علاج اسسٹنٹ کمشنر خالق آباد کو حکومت آکسیجن پلانٹ سے مطلوبہ مقدار میں آکسیجن پریشر کے ساتھ فراہم کرنے میں ناکام ہے آکسیجن پلانٹ کی خرابی اور آکسیجن پریشر کی کمی کی وجہ سے 3 مریض کل جان کی بازی ہسپتال میں ہار چکے ہیں، مریضوں کے لواحقین شکایت کررہے ہیں کہ چیک اپ کرنے والا طبی عملہ غائب ہے، ہسپتال میں طبی عملے کی شدید کمی ہے تمام مریضوں کے لواحقین اپنی تعلق داری پر ڈاکٹر باہر سے لا کر اپنے مریضوں کو چیک کرواتے ہیں، ہسپتال میں آکسیجن پلانٹ کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر کی حالت غیر ہوگئی ہے اگر آکسیجن پلانٹ کا پریشر نہیں بڑھایا گیا تو اسسٹنٹ کمشنر کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے یہ مسیج میں نے تمام اعلی ترین حکومتی شخصیات جن میں چیف سکریڑی اور سکریڑی صحت بلوچستان بھی شامل تھیں کو ان بکس کیا توقع یہی تھی کہ اب غفلت کرنے والوں کی جواب طلبی ہوگی اور اسسٹنٹ کمشنر وکیل کاکڑکے ساتھ دیگر لوگوں کا بھی بھلا ہوگا صبح آنکھ کھلی موبائل آن کیا تواس نمبر سے میسج تھا جس نے پہلے میسج کیا اس خیال کے ساتھ مسیج دیکھنا شروع کیا کہ شاید شکریہ ادا کرنے کیلئے کیا ہے کہ مسیج دیکھا تو لکھا تھا کہ میرا بھائی حکومت نے مار دیا ہے وہ مزید اس دنیا میں نہیں رہے میں اس قومی ہیرو کے جنازے میں شرکت کیلئے روانہ ہوا تو جنازے میں بھی کورونا کاروبار والے اعلیٰ ترین حکومتی شخصیات کی غیر موجودگی کا عالم دیکھ کر خیال آیا کہ فرنٹ لائن پر لڑنے والوں کے لئے محض باتیں، مخصوص ڈرامہ اور بلوچستان میں کورونا صرف چند لوگوں کیلئے کمانے کا ذریعہ ہے وہ وزیر داخلہ کے آبائی گاؤں کے اسسٹنٹ کمشنر بھی تھے جنازے میں گارڈ آف آنر تو دور کی بات تھی، نہ ڈپٹی کمشنر پشین اور نہ ہی ان کے اپنے ڈپٹی کمشنر قلات کو موجود پایا۔ سب غیر حاضر تھے اس سے بڑی اور شرمندگی اور مایوسی کی بات نظام میں کیا ہوسکتی ہے؟کیا نظام والے اپنے آفیسران کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جب تک وہ زندہ ہے وہ نظام کے ہیں، اس وجہ سے نظام میں آتے ہی لوٹ مار شروع کردیں، تاکہ چار پیسے ہوں۔ آپ کے جنازہ میں سرکاری احکام شریک نہ ہوں۔ کم از کم آپ کے پاس قبر کھودنے والے مزدوروں کو دینے کیلئے پیسے تو ہونے چاہئے۔میں نے ان کے بھائی سے پوچھا 15 دن ہسپتال میں تھے تو کسی سیکرٹری یا حکومتی شخصیت نے رابطہ کیا۔ کہنے لگے رابطہ تو در کنار، ہمارے فون تک وہ نہیں اٹھا رہے تھے۔آبدیدہ ہوکر کہنے لگے بھائی نے مجھے آپ کے نمبر کے ساتھ سیکرٹری ماحولیات اورسیکرٹری بلدیات کا نمبر دیا تھا تاکہ میں ان سے بھی رابطہ کروں۔افسوس ہے اس نظام پر، اور نظام چلانے والوں پرہم ہر دن سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں کہ کرونا کے خلاف متحرک لوگوں کی تصاویر شیئر کر کے انہیں فرنٹ لائین ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ میری دانست میں یہ بدترین لفاظی ہے جب تک اس کو عملی طور پر ثابت نہ کیا جائے۔ وکیل کاکڑ جیسے لوگ شاید حکومت کے لئے ایک گنتی کا درجہ رکھتے ہوں مگر وہ اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کے لئے کل کائنات ہیں۔ قانون میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ”Dying Declaration”یعنی بستر مرگ پر دیا گیا بیان اور قانون اس بیان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وکیل کاکڑ کا بستر مرگ پر دوستوں کے نمبر دینا دراصل اس نظام اور اس کے ہرکاروں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ وہ کیسا فرنٹ لائین ہیرو ہے جسے ہسپتال میں کوئی پوچھنے نہیں گیا۔ اس کے تیمارداران آکسیجن کی سپلائی میں کمی کی شکایت کرتے دہے مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ پھر اس کا انتقال ہوا وہ اپنے دن پورے کر کے راہی ملک عدم ہوا مگر کسی سرکاری اہلکار کو توفیق تک نہ ہوئی کہ وہ اس کے جنازہ میں شرکت کرتا جس سے اس کے اہل خانہ کی دلجوئی ہو جاتی ورنہ آج تک چلے جانے والے کو کون واپس لایا ہے۔ اب سرکاری اشتہاروں پر دوسروں کے ساتھ وکیل کاکڑ کی بھی تصویر چھپے گی اور سرکاری مشینری والے اپنے سینے پر تمغہ سجائیں گے کہ ہم بھی کورونا کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ کیا آج ان کے گھر چولہا جلا یا نہیں۔ کیا وکیل خان کی پنشن اور دیگر سرکاری واجبات کے ادائیگی کے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے یا اس کے ورثاء کو فائل بغل میں دبا کر دفتروں کے تھکا دینے والے چکر لگانا ہوں گے۔ زبانی کلامی کسی کو ہیرو گرداننے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس عملی طور پر کر کے دکھانا ہوتا ہے۔ اس کے بچوں کی تعلیم، ان کی فیسوں کی ادائیگی یہ وہ سب امور ہیں جو حکومتی زعماء کی توجہ چاہتے ہیں۔ یہ تو حال ہے ایک قومی ہیرو کا اب ذرا غور فرمائیں اس عام بلوچستانی کا جس کو نہ ہیرو کا درجہ حاصل ہے نہ کسی با اثر بندے تک اس کی رسائی ہے۔ اور بدقسمتی سے وہ کورونا یا کسی اور موذی مرض میں مبتلا ہو۔ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ وہ صرف محاورتا” نہیں بلکہ عملا” کتوں جیسی موت مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر وہ تصور کہاں گیا کہ ”ریاست ہو ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرئے گی” خدارا اگر غریبوں کی دعائیں نہیں لے سکتے تو کم از کم بددعائیں تو نہ لو۔ کرونا ایک ایسی آگ ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی گھر تک پہنچ سکتی ہے۔ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ اس سے بچ جائے گا۔ اس موقع کو عوامی خدمت کے لئے استعمال کرئین نہ کہ ذاتی نام و نمود کی خاطر اور اپنی جیبون کو بھرنے کے لئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک خطرناک وباء ہمارے اطراف منڈلا رہی ہے اور آج 3 مہینے ہونے کو آئے اور ہم ابھی تک مخمصے کا شکار ہیں اور ایڈ ہاک ازم پر چل رہے ہین اور ہمارے ماہرین کوئی جامع حکمت عملی وضع کرتے دکھائی نہیں دے رہے صرف بہتی گنگا مین ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اگر یہی روش رہی تو مبارک ہو ٹڈی دل کی صورت ایک اور گنگا آرہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں