اور وہ دن کبھی واپس نہیں آیا

مشکے اس وقت ضلع آواران کا سب ڈویژن ہے آواران کے ضلع بننے سے قبل یہ ضلع خضدار کی سب تحصیل تھا ”گجر“ علاقے کا صدر مقام ہے پہلے ایہ ایک گاؤں تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹاؤن بن گیا میں نے تعلیم کا آغاز پروار نامی گاؤں سے کیا جو ایک بہت ہی خوبصورت وادی ہے یہاں پر ایک پرائمری سکول تھا اس سکول کو اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر دو عظیم شخصیات نے تدریس کے فرائض انجام دیئے ایک ماسٹر قادر بخش محمد حسنی تھے جو حیران کن طور پر عوامی لیگ سے ذہنی وابستگی رکھتے تھے جبکہ علاقہ کے لوگ اس جماعت کے نام سے ہی واقف نہیں تھے وہ کھدر کے کپڑے پہنتے تھے اور سردیوں میں ڈفل کا کوٹ۔ان کی مجبوری یہ تھی کہ وہ بہت ہی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے وہ پرائمری کے بچوں کو الف ب کے علاوہ سیاسی معلومات بھی دیتے تھے مثال کے طور پر جب ہم آخری سال یعینی پانچویں جماعت میں پہنچے تو ہمیں پاکستان کی تمام جماعتوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات حاصل تھیں نیشنل عوامی پارٹی ولی گروپ بھاشانی گروپ کنونشن مسلم لیگ، کونسل مسلم لیگ اور عوامی لیگ ہمارے دوسرے ٹیچر شوکت صحرائی تھے وہ بلوچی زبان کے بہت اچھے شاعر تھے اور ان کی وابستگی نیشنل عوامی پارٹی ولی گروپ سے تھی وہ سردار عطاء اللہ خان مینگل اور میر غوث بخش بزنجو کے ذاتی دوست تھے انہوں نے ایک مرتبہ وڈھ کے بارے میں ایک مکتوب لکھا جو اس زمانے میں بلوچ مزاحمت کا مرکز تھا انہوں نے ایسی تصویر کشی کی تھی کہ یہ ایک ادبی شاہکار معلوم ہوتا تھا پروار ویسے تو کئی گاؤں کا مجموعہ تھا لیکن یہ بہت ہی شاداب علاقہ تھا اس میں کھجور کے لاکھوں درخت اسے کافی منفرد بناتے تھے وادی کے درمیان ندی بہتی تھی جس کے پاٹ دریا جتنے چوڑے تھے ہر طرف حد نگاہ تک کھجور کے درخت ہی نظر آتے تھے جس جگہ میں پیدا ہوا وہ ایک پہاڑی ٹیلہ تھا وہاں سے ہر طرف بہت ہی دلکش منظر دکھائی دیتے ہیں ندی کنارے چاول، سبزیاں، تمباکو اور دیگر فصلیں اگائی جاتی تھیں یہ کام مغربی بلوچستان سے آنے والے ان لوگوں نے سیکھایا تھا جو میر دوست محمد بارکزئی کی شہادت کے بعد پناہ لینے مشکے آئے تھے پرائمری کے بعد ہم مڈل سکول گجر آ گئے یہ قلات اسٹیٹ کے زمانے کا اسکول تھا اور کئی ٹیچر ایسے تھے جو چار جماعتیں پاس کر کے ٹیچر لگتے تھے سکول کے ہیڈ ماسٹر خواجہ نصیر تھے جن کا تعلق پنجاب کے ضلع سرگودھا کے ایک ٹاؤن بھیرہ سے تھا جبکہ کئی ٹیچر پنجاب سے آئے تھے لوکل ٹیچروں میں ماسٹر عثمان اور گل محمد نمایاں تھے گل صاحب حساب کے ٹیچر تھے اور پہاڑہ یاد رکھنے پر زور دیتے تھے نالائق طلباء ہر صبح انار کے قاتل بید سے مار کھاتے تھے یہاں پر ماسٹر رحمت اللہ ساجدی کچھ عرصہ کے بعد آ گئے وہ کتابی سبق کم اور سیاسی سبق زیادہ پڑھاتے تھے وہ نیشنل عوامی پارٹی کے دیوانے اور بلوچ لیڈروں کے فرزانے تھے تمام طلباء پر ان کا گہرا اثر تھا ان کا تعلق مقامی علاقہ سے تھا اور ان کا گھر سکول سے چند کوس دور تھا وہ چونکہ ہمارے عزیز تھے اس لئے خاص خیال رکھتے تھے یہی حال ماسٹر عثمان صاحب کا تھا وہ سبق یاد نہ کرنے پر کوئی رعایت نہیں برتتے تھے اور میرے بستے سے ناول برآمد ہونے پر سخت سزا دیتے تھے-
گجر باغات کا شہر تھا یہاں لوکل قسم کا ایک سیب بکثرت پایا جاتا تھا اور دیسی گلابوں کی بھی بہت بہتات تھی یہاں پر ایک سرکاری باغ تھا جو شاہی باغ کہلاتا تھا یہ قلات اسٹیٹ کے زمانے سے سرکاری ملکیت میں تھا ہم آدھی چھٹی کو سیب توڑنے کے لئے اس باغ کا رخ کرتے تھے اور کبھی کبھار باغبان عومر ایرانی کے ہاتھ بھی لگ جاتے تھے جو کان پکڑواتے تھے موسم بہار میں سارا قصبہ گلابوں کی مسحور کن خوشبوؤں سے مہکتا تھا اور ہر طالب علم گلاب کی پنکھڑیاں توڑ کراپنے بستے میں رکھتا تھا خواجہ نصیر کے تبادلہ کے بعد چوہدری بشیر احمد ہمارے ہیڈ ماسٹر ہوئے تب تک سکول بھی ہائی ہو چکا تھا وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو ٹیچر چوہدری محمد ریاض اور یونس صاحب بھی یہاں پوسٹ ہوئے تھے وقفے میں جب چائے کا دور چلتا تھا تو ماسٹر رحمت اللہ ساجدی اور باقی ٹیچروں کے درمیان بحث و مباحثہ بھی ہوتا تھا اس طرح ہم مڈل اسٹیج تک بہت کچھ سیکھ چکے تھے علامہ اقبال کا دیوان بانگ دراسے لے کررموز خودہی، رموز بے خود ہی، ارمغان حجاز فلسفہ خودی نسیم حجازی کے تمام ناول جو اسلامی فکشن پر مشتمل تھے جنہیں ہم تاریخ سمجھتے تھے ایم اسلم اور ایم صادق کے ناول منشی پریم چند کرشن چندر اور منٹو کے افسانے میر گل خان نصیر کا دیوان گلبانگ ان کی تاریخ بلوچستان لالہ ہتو رام اور میر عالم راقب کی تاریخ کوئی کتاب ہم نے پڑھے بغیر نہ چھوڑی تھی گجر کے درمیان بھی ندی بہتی تھی اور زمینیں اس سے سیراب ہوتی تھیں صوبہ بننے کے بعد تحصیل مشکے میں تعلیم اتنی عام ہو چکی تھی کہ ڈویژنل ہیڈ خضدارمیں بیشتر ملازمین کا تعلق مشکے سے ہوتا تھا یہی حال بعد میں ضلع آواران میں ہوا
مشکے ایک محیر العقول علاقہ ہے یہ گریشہ میں واقع رباط پہاڑ سے مغرب کی طرف شروع ہوتا ہے اور آواران پر ختم ہوتا ہے چاروں طرف پہاڑوں کے سلسلے واقع ہیں جگہ جگہ چشمہ اور نخلستان ہیں کھجور کی درجنوں اقسام پائی جاتی ہیں پہاڑ قلعہ نما ہیں جن کے چوٹیوں پر آبشاریں پھوٹتی ہیں کوئٹہ سے لے کر رباط پہاڑ تک زمین کا لینڈ اسکیپ ملتا جلتا ہے جس کے بعد لینڈ اسکیپ بدل جاتا ہے درختوں کی اقسام بدل جاتی ہیں موسم اور ایکوسٹم بھی بدل جاتا ہے میرا خیال ہے وسطی ایشیاء کے آخری نقش رباط پہاڑی پر ختم ہو جاتے ہیں جس کے بعد وسط ایشیاء شروع ہو جاتا ہے مشکے سطح سمندر سے 3500فٹ بلند ہے جبکہ رباط پہاڑ کی اونچائی پانچ ہزار فٹ ہے اور باالمقابل واقع شاشان پہاڑی چھ ہزار فٹ ہے جس پر کبھی کبھار سردیوں میں برف بھی نظر آتی ہے پرانے زمانے میں جب ٹیکنالوجی ترقی یافتہ نہیں تھی اور طویل قحط کے دوران فاقوں کی نوبت آتی تھی تو مشکے فوڈ باسکٹ کا کام دیتا تھا دور دراز سے لوگ یہاں آتے تھے اور اپنا گزارہ کرتے تھے اس علاقہ کو کسی بھی حکومت نے ترقی نہیں دی جس کی مثال یہ ہے کہ یہ ابھی تک پختہ سڑک اور بجلی سے محروم ہے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹیوب ویل لگا کر زمینداری کرتے ہیں 15سال کی جنگ نے اس علاقہ کو ایک ویرانے میں تبدیل کر دیا ہے سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور اس کی 60فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے چند سال قبل آنے والے زلزلہ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی بہت سال پہلے ہیڈ ماسٹر چوہدری شیر احمد کہتے تھے کہ مشکے کے طلباء کا آئی کیو بہت زیادہ ہے اور یہ ترقی یافتہ لوگوں کے برابر ہے۔
مشکے کی طرف میرا خیال اس لئے لوٹ گیا کہ ایک تو یہ میری جنم بھومی ہے دوسرے گزشتہ دو عشروں میں ہم اپنے سینکڑوں دوست احباب اور عزیز واقارب سے محروم ہو گئے ہیں ان میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ بھی شامل ہیں جن کی طرف سمی بلوچ نے توجہ دلائی اپنے والد کی بازیابی کیلئے انہوں نے دس سال کی عمر سے اب تک ایک بے مثال جدوجہد کی ہے انہوں نے کئی مرتبہ لانگ مارچ کیا بھوک ہڑتال کی ہر سطح پر حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑا سمی اور ان جیسی سینکڑوں بیٹیوں کی جدوجہد تاریخ انسانی کا ایک اہم باب ہے جس کا ابتدائی خاکہ محمد حنیف اور وسعت اللہ خان جیسے انسان دوست دانشوروں نے پیش کیا ہے۔
یہ آزمودہ بات ہے کہ جب کوئی سماج زوال پذیر ہو جائے اور بالغ مرد مصلحتوں اور خوف کا شکار ہوں تو قیادت کیلئے خواتین آگے آتی ہیں بلوچستان اس وقت جس انسانی المیہ سے دوچار ہے اس کیلئے سب سے اونچی آواز نوجوان خواتین نے بلند کی ہے سمی نے اپنے والد کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی ہوں 28جون کو میری فیملی میرے والد کی جبری گمشدگی کی 11ویں سال منا رہی ہے میرے والد میڈیکل ڈاکٹر اور بلوچستان کے معروف سیاسی کارکن ہیں میرے والد انتہائی دیانتدار اور نفیس انسان ہیں انہوں نے ہماری بڑی اچھی پرورش کی اور ان کا خواب تھا کہ وہ ہمیں اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں ہم ضلع آواران کے علاقہ مشکے سے تعلق رکھتے ہیں۔
جون 2009ء کو میرے گلے میں انفکیشن ہوا جس کے علاج کیلئے میرے والد مجھے کوئٹہ لائے اسی دوران انہیں اورناچ سے ایک کال موصول ہوئی جہاں وہ بطور ڈاکٹر تعینات تھے وہ مجھے ہاسپٹل میں چھوڑ کر چلے گئے اور وعدہ کیا کہ وہ انہیں لینے جلد واپس آ جائیں گے۔
28مئی2009کو ہمیں کال موصول ہوئی کہ میرے والد کو جبری طور پر اورناچ میں سرکاری رہائش گاہ سے غائب کر دیا گیا ہے اس واقعہ نے ہماری زندگیوں کو تتربتر اور مکمل طور پر تبدیل کر دیا پل بھر میں ہر چیز ہمارے لئے تبدیل ہوگئی چنانچہ اس وقت سے میں اور میری فیملی ان کی باحفاظت بازیابی کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں ایک خوش و خرم فیملی ایک تباہ کن صورتحال سے دوچار ہے 29جون کو میرے انکل نے اورناچ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروائی اسی روز ہم نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی اور بی این ایم کے زیر اہتمام کوئٹہ اور کراچی میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
یکم اپریل2010ء کو وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ ہم نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک ٹرین مارچ کیا ہم نے اسلام آباد پہنچ کر دس روزہ بھوک ہڑتال بھی کی 27اپریل 2010ء کو ہم نے ہائی کورٹ بلوچستان میں رٹ پٹیشن دائر کی 31مئی 2010ء کو اورناچ ہسپتال کے گیٹ کیپر محمد رمضان نے مسنگ افراد کیلئے قائم کمیشن میں گواہی دی جسٹس جاوید اقبال اس کمیشن کے سربراہ تھے متاثرین خاندانوں کے افراد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جسٹس جاوید اقبال نے وعدہ کیا کہ میرے والد 10دنوں میں واپس آ جائیں گے یکم اپریل 2011ء کو ہم نے ایک بار پھر کوئٹہ سے اسلام آباد تک 2500 کلو میٹر کے پیدل مارچ کیا جس میں تین ماہ لگے ہم نے وہاں پہنچ کر یو این آفشیل سے ملاقات کی اور پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مظاہرہ کیا 2015ء کو ہم نے کراچی پریس کلب میں بھوک ہڑتال کی میں نے اور میری فیملی نے اس توقع کے ساتھ ہر اس دروازے پر دستک دی تاکہ ہمیں انصاف مل سکے۔
ہم گزشتہ10برس سے جس عذاب اور کرب میں مبتلا ہیں اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا میں نے اپنے والد کا کیس ہر جگہ پیش کیا میں اقوام متحدہ گئی تمام سیاسی لیڈروں جن میں اختر مینگل، حاجی لشکری رئیسانی، ڈاکٹر مالک بلوچ، ضیاء لانگو شامل ہیں اس کے علاوہ ہم شیریں مزاری سے بھی ملے میں انسانی حقوق کی تمام تنظیموں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ میرے والد کی بازیابی میں ہماری مدد کریں اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور کسی ٹارچر سیل میں رکھنے کی بجائے عدالت میں پیش کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں