خوش فہمی
انور ساجدی
وزیراعظم عمران خا ن نے بجٹ کی منظوری سے قبل اپنے پارٹی اور اتحادی اراکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اطمینان رکھیں ہم کہیں جانے والے نہیں کیونکہ میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے یہ ایسی خوش فہمی ہے کہ پاکستان جیسے ذوال پذیر نظام میں ہر حکمران کو رہی ہے
جب فیلڈ مارشل ایوب خان کا اقتدار عروج پر تھا تو ان کے میڈیا ایڈوائزر لوگوں کے ذہنوں میں بار بار یہی بات ڈالتے تھے کہ ایوب خان نجات دہندہ بن کر آئے ہیں یہ ہمیشہ رہیں گے ایسے شواہد موجود ہے کہ ایوب خان کے چیف میڈیا ایڈوائزر نے تجویز پیش کی تھی کہ وہ بادشاہ بن جائے لیکن کسی عقل مند نے تجویز مسترد کرتے ہوئے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ فیلڈ مارشل بن جائے حالانکہ ایوب خان نے کسی بڑی جنگ کی کمان نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ کوئی معرکہ جیتے تھے ان کے باوجود انہیں فیلڈ مارشل کا لقب دیا گیا یہ وہ زمانہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی افواج کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل منٹگمری اور افریقی محاذ کے کمانڈر آرکنلک حیات تھے اور انہوں نے عظیم جنگوں میں فتح حاصل کی تھی یہ عظیم جنرل کچھ عرصہ کوئٹہ میں بھی رہے تھے۔جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد فیلڈ مارشل آکنلک نے برطانوی شہریت ترک کر دی تھی اور باقی ماندہ زندگی مراکش کے شہر کاسا بلا نکا میں گزاری تھی۔ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی آئی تھی لیکن یہ ترقی مغربی پاکستان تک محدود تھی جب کہ مشرقی پاکستان شدید غربت سمندری طوفان اور احساس محرومی کی زد میں تھا۔ایوب خان نے پیریٹی کا نظام قائم کر کے اکثریت اور اقلیت کو برابر کردیا تھا اس زمانے میں زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ”سنہری ریشہ“ یقینی پٹ سن تھااور یہ زرمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ ہورہا تھا پیریٹی کے نظام نے مشرقی پاکستان کے احساس محرومی میں مزید اضافہ کردیا تھا ایوب خان نے 1965ء کے صدارتی انتخابات دھاندلی کے ذریعے جیتے اور کچھ عرصہ کے بعد آپریشن جبرالٹر کے تحت جنگ کا منصوبہ بنایا۔ائیر مارشل اصغر خان نے اسکی تفصیل اپنی کتاب میں شائع کی ہے لیکن ستمبر کے 17روزہ جنگ میں ہار جیت کے بغیر فیصلے سے ایوب خان کا اعتماد پارہ پارہ ہوگیا اور ایسے وقت میں جب کہ ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہورہا تھا مشیروں نے 10 سالہ کامیابیوں کا جشن منانے کا مشورہ دیا یہ دو وقت تھا جب ایوب خان کو دل کا دورہ پڑا تھا اس کے باوجود کہا کہ ایوب خان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو دوسرے حکمران تھے جو سمجھتے تھے ان کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے 1977ء کو پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)ان کے خلاف تحریک چلا رہی تھی تحریک کے عروج میں انہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کمزور ہو لیکن جس کرسی پروہ بیٹھے ہیں وہ مضبوط ہے لیکن چند دن بعد5جولائی1977ء کو ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔جنرل ضیاء الحق نے اسلامی نظام نافذ کرنے کا نعرہ لگا کر اس لئے آئے تھے کہ وہ تاحیات حکمران رہیں گے۔ضیاء الحق کے سینکڑوں مدح سرا یہی کہتے تھے کہ ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں لیکن 11سال بعد 17اگست 1988ء کو وہ فضاؤں میں راکھ بن کر بکھر گئے۔اب جب کہ عمران خان شدید ناکامیوں سے دوچار ہیں حتیٰ کہ وہ اپنی اکثریت بھی کھو چکے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہے یہ دعویٰ سرا سر باطل اور خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔اگر اپوزیشن سنجیدہ ہوتی تو بجٹ کی منظوری کے موقع پر حکومت کی قلعی کل جاتی لیکن اپوزیشن نے در پردہ حکومت کا ساتھ دیااور ان کے 50اراکین نے بجٹ سیشن کے اہم موقع پر شرکت نہیں کی حالانکہ بلاول اور خواجہ آصف اتنی گولہ باری کرچکے تھے کہ وزیراعظم شدید دباؤ میں آگئے تھے اور انہیں بجٹ کی منظوری میں شکست کا خوف لاحق ہوگیا تھا لیکن حسب سابق دو ٹیلی فون آئے ایک زرداری کو ایک میاں شہباز شریف کو جس کے بعد بجٹ کی منظوری کا راستہ ہموار ہوگیا اس کے باوجود حکومت کو 172کے بجائے160ووٹ ملے یقینی اکثیریت سے 12ووٹ کم تھے اہم حلقوں کے نزدیک بجٹ کی منظوری اس لئے ضروری تھی کہ ملک میں ہنگامی صورتحال ہے سیکورٹی کے حالات پر خطر ہیں اگر بجٹ میں رکاوٹ پڑی تو ایک مالیاتی بحران پیدا ہوسکتا ہے اس لئے زرداری اور شہباز شریف سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا
اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی طاقت ختم ہوچکی ہے حتیٰ کہ خود اس کے اراکین میں گروپنگ ہے۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ دوبارہ شروع ہوچکا ہے متعدد اراکین نے بر سر عام اپنی حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور وزیراعظم کے طرز عمل اور کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ایک اتحادی بی این پی مینگل علیحدہ ہوچکی ہے۔جس رات وزیراعظم نے عشائیہ دیا (ق)لیگ نے ایک متوازی عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں باپ‘ کچھ آزاد اراکین اور جی ڈی اے کے ارکان نے شرکت کی۔اگر حکومت میں طاقت ہوتی تونہ (ق)لیگ متوازی عشائیہ دیتی اور نہ ہی حکومتی اتحادی اس میں شریک ہوتے۔یعنی حالات اس حکومت کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں لیکن بیساکھیاں برقرار ہیں لیکن کب تک اگر چھ ماہ تک یہ حکومت اپنی کارکردگی،گورننس اور تباہ کن کرپشن پر قابو نہ پاسکے تو اس کے بعد اس کا برقرار رہنا مشکل ہے جب کہ دنیا دیکھے گی کہ اچانک متبادل کیسے منظر عام پر آجائے گا تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی نے قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی ہے ان کے خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ پیپلپز پارٹی ایک دہشت گرد جماعت ہے بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ نے 1981ء میں پی آئی اے کا جہاز اغواء کر کے کابل لے گئے 1988ء میں پیپلزپارٹی بر سر اقتدار آگئی تو اس نے لیاری گینگ وار بنایا جب کہ بعد کی حکومتوں کے دوران عزیر بلوچ کی سرپرستی کی گئی ان کے ذریعے قتل وغارت گیری کروائی گئی۔عزیر بلوچ نے ایک مشترکہ جی آئی ٹی کو جو اقبالی بیان ریکارڈ کروایا اس میں زرداری کا نام لیا۔علی زیدی نے عزیر بلوچ کے جی آئی ٹی کو عام کر نے کے لئے ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہے اگر دیکھا جائے تو عزیر بلوچ نے 2013ء کے بعد علیٰ اعلان پیپلزپارٹی پر لعنت بھیجی جب کہ ذوالفقار مرزا نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ عزیر بلوچ کو اسلحہ انہوں نے فراہم کیا تھا لیکن ذوالفقار مرزا کا کوئی نام نہیں لیتا۔انکی اہلیہ فہمیدہ مرزا جی ڈی اے کے ٹکٹ پر ایم این اے ہے اور حکومتی اتحادی ہے اسی طرح ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ایم کیو ایم کے متعدد لیڈر نامزدہیں لیکن ان کا نام کوئی نہیں لیتا بلدیہ کے فیکٹری میں 180 محنت کشوں کو زندہ جلانے کا کیس آئینہ کی طرح صاف ہے لیکن اس میں ملوث لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔اگر چہ پیپلزپارٹی کو سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے لیکن یہ عمل سندھ کے لئے اچھا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نے سندھ کی قدرتی سیاست کی ارتقاء کو روک رکھاہے اور چند ایک کاموں کے سوا اس جماعت نے سندھ میں اسٹیٹس کو برقرار رکھا ہوا ہے سندھ کے عوام کا مفاد اور ان کے تقاضے بد ل چکے ہیں صوبہ سندھ شدید استحصال کا اور احساس محرومی کا شکار ہے لیکن پیپلزپارٹی سندھ کے اصل سیاسی قوتوں کی آواز وں کو دبا رہی ہے اور ہر اٹھنے والی تحریک کو کچل رہی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کو ابھی تک وفاق کی علامت ہونے کی خوش فہمی ہے حانکہ وفاق اور خاص طور پر پنجاب 1977ء سے اسے اپنے ہاں سے دیس سے نکال دے چکا ہے پیپلزپارٹی نے بھٹو اور بے نظیر کے دور میں کچھ کام کئے تھے لیکن دور رس حالات کا تقاضا ہے کہ سندھ کی سیاست کو ازسر نو استوار کیا جائے پیپلزپارٹی کو خیر باد کیا جائے یہ عمل وفاق اور سندھی عوام دونوں کے مفاد میں ہے وفاق کو اپنے اقتصادی معاملات چلانے کے لئے صوبہ سندھ اور اس کے وسائل کی سخت ضرورت ہے پاکستان کا 60فیصد ٹیکس سندھ میں جمع ہوتا ہے ریاست کے 70فیصد گیس کی ضروریات سندھ سے پوری ہوتی ہے تین چلتے ہوئے پورٹ سندھ میں ہیں جبکہ وفاق کو کیٹی بندر کی بھی ضرورت ہے تا کہ وہاں پر ایک مخصوص پورٹ بنایا جائے پیپلزپارٹی ان کاموں کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ اٹھارویں ترمیم منظور کر کے اور ساتوایں این ایف سی ایوارڈ جاری کر کے وفاق کو نقصان پہنچا چکی ہے۔دوسری طرف سندھی عوام اپنے بہتر مستقبل کے لئے ایک نئے منصوبے کے منتظر ہیں تا کہ وہ اس کا پرچار کرسکیں جو سندھ کے مفاد میں ہے اگر چہ ایسا ہوا تو ایک ٹکراؤ ہوگا دیہی اور شہری آبادی کے تضادات کو ابھارا جائے گا دوبارہ 1980ء کی دہائی والی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔طاقت کا بے تحاشا استعمال کرنا پڑے گا سندھی پہلے مرحلے میں مار کھائے گا لیکن پھر سنبھال جائے گا سندھ کی سیاست کو نئے خون کی ضرورت ہے سندھ کو نئی سندھ کی ضرورت ہے سندھ کے افتادگان خاک بھوک،فاقوں،بیماری اور ناداری سے تنگ آچکے ہیں سندھ میں پسماندگی کے ڈھیرے ہیں ان کے وسائل درمیان میں غائب ہو رہے ہیں مستقبل میں پیپلزپارٹی سندھ اور وفاق کی قدر مشترک نہیں رہے گی جس طرح سقوط ڈھاکہ سے پہلے مشرقی پاکستان کے وسائل لوٹے جارہے تھے اسی طرح آج یہ سلوک سندھ کے ساتھ ہورہا ہے یہی سبب ہے کہ وہاں ایک سسکتی ہوئی مزاحمت سر اٹھا رہی ہے جس کے نتائج آئندہ کچھ عرصہ میں سامنے آئیں گے اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں سندھ کی ساری موجودہ قیادت ناکام ہوچکی ہے وہ ایاز پلیجو ہو،قادر مگسی ہو یا دیگر گروپ جو اپنے اپ کو قوم پرست کہتے ہیں قوم پرستی ان کا محض نعرہ اور خود اختیار کردہ لقب ہے۔
سندھ کی سسی بار بار لوٹی جاچکی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مستقبل میں بھی مظلوم سسی اسی طرح لٹتی رہے کوئی اور سسی نکلے گی اور سندھ کے خوابیدہ عوام کو جگانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
اٹھ سسی اے بے خبرے
لٹیا تیرا شہر بھنبور