سب کچھ وڑ گیا؟

تحریر: انور ساجدی

ڈگری تو ڈگری ہے
مختیاریا گل ودھ گئی ہے
پروگرام تو وڑ گیا
یہ پاکستانی سیاست کی جدید ضرب المثل ہیں۔اس سے سیاست کی کم مائیگی،سیاست دانوں کی ذہنی صلاحیت اور زبان و بیان کا پتہ چلتا ہے۔ پی ٹی آئی کے لیڈر شیر افضل مروت اور لیگی سینیٹر افنان اللہ جب ایک ٹی وی پروگرام میں دھینگا مشتی پر اتر آئے تھے تو پروگرام کے بعد کسی نے مروت سے پوچھا پھر کیا ہوا ۔موصوف نے کہا کہ پروگرام تو وڑ گیا۔
منگل کی صبح ایک خاتون وی لاگر اپنے پروگرام میں فرما رہی تھیں کہ ”حامد میر“ وڑ گیا ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام سے جبری طور پر ہٹا دئیے گئے ہیں۔تحقیق پر معلوم ہوا کہ حامد میر دو ہفتوں کی سالانہ رخصت پر گئے ہیں۔انہیں برخاست کرنے کی خبر درست نہیں ہے۔اگرچہ آج کل میر صاحب غیر جانبدار بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کا چینل غیر جانب دار نہیں ہے ۔اس لئے ان کی اپنے ادارے کے مطابق چلنا مجبوری ہے۔ویسے بھی گزشتہ کلمہ حق کے بعد انہوں نے جو محضر نامہ لکھ دیا تھا اس کے بعد مسنگ پرسنز کو چھوڑ کر وہ کسی بھی مسئلہ پر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔میر صاحب نے اینکر ہونے کی کافی قیمت بھی ادا کی ہے۔کراچی میں ان پر جب بلوچستان کے کچھ لوگوں نے جان لیواحملہ کیا تو وہ بال بال بچ گئے۔ان کے جسم اور روح پر وہ زخم ابھی تازہ ہیں اور وہ شاید ساری عمر ان زخموں کی کسک کو فراموش نہ کر پائیں۔
ایک حامد میر پر کیا موقوف ریاست خداداد میں صحافت ہو،سیاست ہو اور دیگر شعبے سب وڑ گئے ہیں جو کچھ بچا ہے وہ آئندہ انتخابات میں وڑ جائے گا۔کیونکہ2002 کے بعد ایک عظیم سلیکشن ہو رہی ہے جسے یقینی طور پر مخالفین دھاندلی دھاندلہ یا جھرلو کا نام دیں گے لیکن یہ کوئی پہلا الیکشن نہیں ہے جو اس طرح ہوگا۔ماضی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔2018 کو چھوڑ کرہر الیکشن میں ن لیگ کو سلیکٹ کیا گیا۔اگر اس بار اس کے حق میں ایک اور فیصلہ کیا گیا تو یہ کونسی انوکھی بات ہوگی۔آثار بتا رہے ہیں کہ نوازشریف کے بارے میں ایک بڑا پلان زیرغور ہے۔جس کے روبہ عمل لانے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ یہ ان کے حق میں ہے یا مخالفانہ ہے۔بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ تحریک انصاف وڑ گئی ہے لیکن ضروری نہیں کہ جو حکمران چاہتے ہیں نتیجہ بھی وہی نکلے اگر الیکشن کے نام پر مذاق کیا گیا تو کوئی اسے قبول نہیں کرے گا بے شک عدالتیں اور الیکشن کمیشن عمران خان کو نااہل قرار دیں یا تحریک انصاف کو آﺅٹ کر دیں اس سے کوئی فرق نہیںپڑے گا۔ایسے انتخابات کے نتیجہ میں جو ہائبرڈ پارلیمان آئے گی اور حکومت قائم ہوگی وہ ملک میں کوئی بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔سونے پر سہاگہ یہ ہوگا کہ حضرت مولانا فضل الرحمن کی شدید خواہش کے پیش نظر ن لیگ انہیں صدر مملکت نامزد کر رہی ہے۔صدر کا عہدہ اگرچہ برائے نام اور نمائشی ہے لیکن مولانا یہ عہدہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔محترم نے یہ نہیں سوچا کہ صدر بننے کے بعد ان کا سیاسی کیرئیر ختم ہو جائے گا۔جے یو آئی کی قیادت مولانا کی اگلی نسل کو منتقل ہو جائے گی تاہم یہ مشکل فیصلہ بھی درپیش ہوگا کہ مولانا کی جگہ امارت اسعد محمود کو سونپی جائے یا عطاءالرحمن کو۔ جمعیت کی قیادت سے دستبردار ہونے کے بعد مولانا کی زندگی میں بھی بہت بدلاﺅ آئے گا اور وہ بلاول کے مشورے کے مطابق اپنے کسی مدرسہ میں بیٹھ کر درس و تدریس میں باقی وقت گزار دیں گے یاگھر بیٹھ کر اللہ اللہ کریں گے۔مولانا خیر سے70 برس کے ہو گئے ہیں جبکہ ان کے اتحادی شہبازشریف 74سال اور ن لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف76 سال کے ہوگئے ہیں۔70,70 سال یا اس سے اوپر کے یہ بابے سیاست پر اپنا کنٹرول چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ حالات کا تقاضا ہے کہ یہ بابے اپنی موروثی سیاست یا وراثت اپنے بچوں کو منتقل کر دیں۔ان لوگوں میں زرداری بھی شامل ہیں جو آئندہ سال جون میں70 سال پورے کریں گے۔
صحافت کی بات ہو رہی ہے تو جیو ٹی وی کے معروف اور مقبول اینکر سلیم صافی یاد آئے جو ایک پروگرام جرگہ برپا کرتے ہیں۔غالباً جیو والوں نے پروگرام کا نام صافی صاحب کی تجویز پر رکھا ہے کیونکہ سلیم صافی کا تعلق پختونخواہ کے قبائلی علاقہ سے ہے موصوف کو الفاظ سے کھیلنے کا ہنر خوب آتا ہے اور وہ ضرورت پڑنے پر مشکل سے مشکل سوال کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔اگرچہ ہم پختونخوا کے حالات سیاست اور شخصیات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے لیکن ناقص اور سرسری معلومات کے مطابق سلیم صافی کا پس منظر کافی دلچسپ ہے۔مثال کے طور پر زمانہ طالب علمی میں وہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلباءکے رکن تھے ایک موقع پر نام نہاد افغان جہاد میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ان کی شخصیت اور فن کو سنوارنے یا انہیں دائیں بازو کے نظریات سے آراستہ کرنے میں مشہور زمانہ میجر عامر کا بڑا ہاتھ ہے۔میجر عامر نے ہی انہیں اسلام آباد کی اشرافیہ سے متعارف کروایا تھا۔ایک ویڈیوموجود ہے جس میں میجر عامر بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض سے ملنے جاتے ہیں ان کے ساتھ سلیم صافی کو بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔کافی عرصہ بعد جب صافی صاحب نے ملک ریاض کا انٹرویو کیا تو یہ سوال پوچھا کہ آپ زرداری کو ایک محل بنا کر دے رہے ہیں اس پر ملک صاحب نے کہا کہ یہ میرا کاروبار ہے جو بھی مجھے پیسہ دے میں اس کو مکان بنا کر دیتا ہوں جیسے کہ میں نے آپ کو پلاٹ فروخت کیا۔سلیم صافی کا نکتہ آغاز خیبر ٹی وی سے وابستگی تھی ۔خاص طور پر میجر عامر کی تجویزپر اپنے ریفرنڈم سے قبل پرویز مشرف نے پہلا انٹرویو سلیم صافی کو دیا۔حالانکہ خیبر ٹی وی اس وقت معروف نہیں تھا۔اس انٹرویو سے سلیم صافی کا عروج شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔سلیم صحافی نے حال ہی میں اپنا پروگرام جرگہ کوئٹہ میں منعقد کیا جس میں کوئٹہ کے نامور صحافیوں کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا ۔ان صحافیوں میں پی ایف یو جے کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار حمد زئی چوتھی اننگز کھیلنے والے سلیم شاہد پی یو جے کے سابق صدر ایوب ترین موجودہ صدر مسٹر عرفان،رپورٹر عبدالخالق بلوچ اور سید علی شاہ شامل تھے۔پروگرام تو اچھا تھا لیکن اس کا بنیادی سوال دراصل ایک مذاق تھا۔گزشتہ76 سالوں میں یہ سوال اہل پنجاب یا وہاں کے صحافی اور دانشور پوچھتے تھے لیکن اس بار سلیم صافی نے یہ سوال پوچھا یعنی
”بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے“
میں نے بارہا یہ لکھا ہے کہ 1972سے تاحال ہم جب بھی لاہور،راولپنڈی یا اسلام آباد جاتے تھے تو یہی سوال پوچھا جاتا تھا۔ہر دفعہ پوری کہانی بیان کی جاتی تھی لیکن چھ مہینے بعد جب جانا ہوتا تھا تو یہی سوال من وعن پوچھا جاتا تھا اور یہ سلسلہ نصف صدی سے جاری ہے۔آخر میں ہم سمجھ گئے کہ اس سوال کا مقصد اہل بلوچستان کی تضحیک کرنا اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔لہٰذا ہم بھی یہ کہتے تھے کہ بھائی کون سا مسئلہ بلوچستان میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔یہ جواب دیا جاتا تھا کہ دو فریقوں کے درمیان جنگ ہورہی ہے ایک فریق کی جیت اور دوسرے کی شکست مسئلہ کا حل ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ سلیم صافی جیسے زیرک جہاندیدہ اور حکومت شناس شخص نے یونہی یہ سوال صحافیوں کے سامنے رکھا ہوگا۔انہوں نے جان بوجھ کر یہ سوال کیا اور ایسے جوابات حاصل کئے کہ اصل مسئلہ جو ہے وہ وڑ گیا۔بظاہر تو سلیم صافی نے بلوچستان کے انتہائی تجربہ کار اور دانش مند صحافیوں کو جمع کیا تھا لیکن وہ کیا کرتے سوالات ہی بے جان تھے تو وہ کیا جواب دیتے۔
بلوچستان کافی عرصہ سے صحافیوں اور خاص طور پرعلاقائی نامہ نگاروں کے مقتل کی صورت اختیار کرگیا ہے۔کئی درجن صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس لئے وہاں پر ایک خوف کا ماحول ہے۔اس کے ساتھ ہی حالات اور سخت پابندیوں کی وجہ سے شاید ہی کوئی صحافی ہو جو اصل صورتحال بیان کرنے کی جرات رکھتا ہو۔بلوچستان میں عرصہ ہوا غیر جانبدار صحافت رخصت ہوچکی ہے۔وہاں کے اخبارات کو قتل کرنے کی عملی کوشش ہو رہی ہے۔زندہ رہنے کی خاطر اخبارات سرکاری اشتہارات کے محتاج ہیں۔بیشتر صحافی وزراءاور حکومتی پی آر اوز کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ان کی مجبوری ہے۔نامساعد حالات نے بلوچستان کے سیاست دانوں کی طرح وہاں کے صحافیوں کو بھی الیکٹیبلز بنا دیا ہے۔جان کے لالے ہوں تو ایسا کرنا پڑتا ہے۔سلیم صافی کے سوالات گورننس کرپشن اور کنٹرول انتخابات کے بارے میں تھے۔بلوچستان کا حقیقی مسئلہ یہ نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ الیکٹبلز اور پارلیمانی جماعتوں کو خدمات کے عوض حکومت دینا مسئلہ کا حل ہے کیونکہ بلوچستان کی جملہ جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہیں اور وہ اپنی وقعت اورساکھ کھوچکی ہیں۔ان کو وزارت یا کرسی دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہاں کی سیاست2006 کے بعد کہیں اور مراجعت کر چکی ہے۔اگر موجودہ لاٹ کو خوش کرنے سے مسئلہ حل ہوتا تو پھر کیا بات تھی۔حکمران جس مخلوق کو پال رہے ہیں اس کا مفاد اس میں ہے کہ موجودہ صورتحال جاری رہے تاکہ ان کا الو سیدھا ہوتا رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں