منقسم قبائل وخاندان اور ریاستی شہریت

تحریر: راحت ملک
ما بعد نو آبادیات استعماری قوتوں نے اپنی مقبوضات سے دستبرداری کے ساتھ ان کی نئی جغرافیائی حد بندیوں کا اہتمام کیا اور اپنی سابقہ نو آباد یات نوزائیدہ ملکوں میں بین الریاستی اور داخلی سطح پر سیاسی کشمکش وعدم استحکام کی ایسی صف بندیاں کیں جن سے نئے آزاد ہونے والے ممالک یا
کرہ ارض پر ابھرنے والی مملکتوں کے عوام قبائل واقوام کو غیر فطری سرحدی حد بندیوں میں منقسم کردیا گیا۔تقسیم ہند کے دوران بنگال اور پنجاب کی تقسیم میں مذہبی تفریق کے ذریعے دونوں اقوام میں تقسیم پیدا کی گئی جبکہ بلوچستان اور کے پی کے میں خاندانوں اور قبائل کو دو علیحدہ ملکوں میں تقسیم کردیا گیا۔ڈیونڈر لائن اور میکموھن لائن جیسی سرحدوں کے آر پار بسنے والے قبائل اور خاندان دو الگ الگ ملکوں کے شہری قرار پائے افغانستان کی سرحد سے متصل چمن میں ایسی مکان و دیہات اب بھی موجود ہیں جن کے صحن پاکستان میں تو دیگر کمرے افغانستان کی حدود میں پائے جاتے ہیں۔یہ تقسیم جیسی بھی ہے کسی طور پر بھی ان خاندانوں اور رشتوں کو ختم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں رہی شومئیِ ِ قسمت اقوام متحدہ کے دستور نے ان ممالک اور مشرق وسطی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔تمام رکن ممالک کی علاقائی سالمیت جغرافیائی وحدت اور اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کر کے تمام رکن ممالک کو ان کے احترام کا پابند بنایا گیا ہے جو ایک جانب نو آزاد ممالک کی خود مختاری یقینی بنانے کے لئے مستحسن قدم ہے تو اسی فیصلے ور دستور کے مطابق سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی رضا مندی کے بغیر کسی ملک کی سرحد میں عسکری ذرائع سے ردو بدل ممکن نہیں رہا۔البتہ ہمسائیہ ممالک باہمی رضا مندی و مذاکرات کے ذریعے اپنی سرحدوں میں رد وبدل کر نے کے محاز ہیں چنانچہ پاکستان نے چین اور اومان کے ساتھ سرحدی امور طے کئے گوادر حاصل کیا نیز چین کو کشمیر کی سرزمین سے کئی ہزار ایکڑ رقبہ دے کر سرحدی پٹی کو سیدھا کیا۔اس حوالے سے بھارت کے سابق وزیراعظم آنجہانی اندر کمار گجرال کے ساتھ میری بات چیت جو کتابی شکل میں موجود ہے میں بہت مفید المعنی گفتگو کامطالعہ کیا جا سکتا ہے (بھارت کیا سوچ رہا ہے؟مطبوعہ فکشن ہاؤس لاہور) پاکستان وایران نے بھی سرحدوں میں باہمی رضا مندی سے کمی بیشی کی تھی۔لیکن جس مسئلہ کی نشاندہی میں کررہا ہوں وہ ذرا مختلف نوعیت کا ہے میں سرحدوں میں ردوبدل کی بحث سے بلکل الگ ان تین ممالک میں آباد منقسم قبائل وخاندانوں کے تناظر میں بلوچستان میں بالخصوص ڈومیسائل ولوکل سرٹیفکیٹ کے مسئلہ میں موجود الجنھوں،تنازعات اور اسکانات کی بات کرہا ہوں۔سرحدوں میں رود بدل ہونا چاہیے؟ اس مضمون کا موضوع نہیں۔مگر میرے خیالات اس بارے بہت واضح اور مثبت ہیں۔
شاہ رضا کے دور میں ایران ایک مستحکم وخوشحال ملک تھا چنانچہ پاکستان میں بسنے والے ایسے بلوچ قبائل جو سرحد کے آر پارآباد ہیں۔ان کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے ا یران جانے کو ترجیح دیتی تھی البتہ مسلکی نوعیت کے مسائل اس کے برعکس واقعات کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔
مجموعی تناظر میں بات کریں تو چونکہ تینوں ملکوں میں خاندان قبائل منتقسم طور پر آباد ہیں اس لئے بہتر مواقع کے خاطر بہت آسانی سے سرحد عبور کرکے ایک سے دوسرے ملک جانا سہل و ممکن پاتے ہیں شادی بیاہ کے معاملات اس کے علاوہ تبادلہ آبادی کا ذریعہ بنتے ہیں
پاکستان میں چونکہ ملگ گیر سطح پر یکساں ترقی کے مواقع موجود نہیں رہے اس لئے یہاں پسماندہ علاقوں اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے افراد کو ترقی و تعلیم کے مناسب مواقع دینے کیلئے تحفظاتی اقدامات کئے گئے ہیں جن میں شہری اور دیہی آبادی کی تقسیم کی بنیاد پر سندھ میں کوٹا سسٹم رائج کیا گیا تھا جسے بلوچستان میں بھی نافذ کیا گیا یہاں اس تحفظاتی سسٹم کو ضلعی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا اور مختلف مقامی قبائل کی اسناد کا اجراء شروع ہوا۔عارضی سکونت پذیر افراد کو یا مذکورہ قبائل سے تعلق نہ رکھنے والوں کو اسی ضلع سے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ مہیا کیا جاتا ہے جو اس بات کا غماز ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص اور اس کے خاندان کے افراد اس ضلع کے مسقل باشندے نہیں بلکہ یہاں اجنبی ہیں۔
علیحدگی اور امتیازی رویے کے حامل اس نظم و بست نے بلوچستان مین سیاسی جمہوری انسان دوست وطن پرست بنیاد پر قومیت پروان چڑھانے میں بڑا اہم مگر منفی و مزاحمتی کردار ادا کیا ہے کیونکہ مملکت نے ہر قسم کے استحقاقات کو وطن یا سرزمین کے ساتھ پیوستہ رشتے کے برعکس نسلی لسانی ثقافتی قبائلی شناخت کے ساتھ جوڑا اور اسے مرکزی مقام دیا ہے جس کے اثرات پر طویل بحث کی گنجائش ہے
حکومت نے لوکل سرٹیفیکیٹ کے اجراء کے لیے ہر ضلع کے مقامی قبائل کی فہرست تیار کی۔ اس فہرست اور نظم شہریت کی قانونی اساس و بنیاد کیا ہے؟ یہ آج بھی سوالیہ نشان ہے اور راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس بابت چند سوالات اکابرین و عمائدین کی خدمت میں بصد احترام پیش کئے تھے۔ بنیادی نقطہ جسے سمنجھنے کی ضرورت ہے وہ قبائل کی مقامیت کے مقام کے تعین کا ہے اور اسکی بنیاد ضلعی حدور کو مقرر کیا گیا ہے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ کا مطلب بلوچستان کے کسی ضلع کے رہائشی ہونے کے مترادف میں نہ کہ پورے صوبے کے (خالصتاً قانونی نقطہ نظر سے)
تقاضہ عصری یہ ہے کہ شہریتی اسناد کے یکساں اور مساوی الحقوق اجراء کو یقینی بنانے کیلئے نیز پورے ملک کے آئینی قانونی ڈھانچے کے ساتھ پوری طرح پیوستگی کی تشکیل اور اسے مضبوط کرنے کیلئے ایک ایسا معیاری نظم قائم کیا جائے جو صوبے کے شہریوں کو رنگ نسل زبان کی بنیاد پرتقسیم کرنے اورامتیازی رویے جنم دینے کی بجائے یکساں شہریتی حقوق عطاء کرے اس سلسلہ میں تجویز کیا جاسکتا ہے کہ
قومی شناختی کارڈ پر درج مستقل رہائشی پتہ کی بنیاد پر ہر شہری کو اسی ضلع کا مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ (PRC)جاری ہوا اور اسی بنیاد پرانتخابی ووٹر لسٹ میں نام درج ہو اس میں کسی قسم کے ردو بدل کے لئے مدت،قیام،تعلیم،ملازمت یا جائیداد یا کرایہ نامہ کی شرائط عائد کی جائیں جن کی تصدیق ضلعی انتظامیہ یا پھر میری سابقہ تجویز کے مطابق مقامی حکومت کے منتحب ادارے(کونسل) کے ذمہ ہو وہی تبدیلی یا نئے سرٹیفکیٹ کے اجراء کے بھی مجاز ہوں۔
رہا مختلف ممالک میں منقسم قبائل وخاندانوں کے باہمی تعلق میل ملاپ اور مرگ وزیست کے معاملات میں شراکت داری کا تو اس سلسلہ میں بالکل واضح موقف اپنانا چاہیے۔جہاں ہم سیاسی سطح پر ہمسایہ ممالک کے اندرونی سیاسی امور میں عدم مداخلت،علاقائی سالمیت،خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کے اصولوں کا تذکروہ کرتے ہیں اسی لمحے ہمیں یہ بھی کہنا ہوگا۔کی تینوں ملک اپنی سرحدوں کو قلعہ بند نہ بنائیں۔ بلکہ یورپ کی طرح اپنی اپنی سرحدوں کی حفاظت واحترام یقینی بناتے ہوئے سرحدی دیواروں میں ایسی متعدد راہداریاں اور موثر دورازے بنائیں جن کے ذریعے تینوں ملکوں کے شہری بہت سہولت کے ساتھ بہ آسانی سرحدوں کے آر پار سفر کرسکیں ان کے رشتے اور خاندانی مراسم سماجی روابطہ بر قرار رہیں وہ خوشگوار طور پر آپس میں ملیں وہیں پر یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہر قسم کی آمدورفت کو تمام تر سہولت آسانیوں کے ساتھ دستاویزی بندوبست میں پرویا جانا اشد ضروری ہوگا۔یہ اقدام ان ملکوں کے عوام اقوام اور ملکوں کے باہمی احترام کو یقینی بنائے گا یورپ کے تجربے سے استعفادہ کرنا زیادہ قرین عقل ہوگا بجائے اس کے کہ ہم نئے نئے تجربات کریں یا غفلت شعائری میں مبتلا رہ کر کچھ بھی نہ کرنے کے روائتی انداز کو جاری رکھیں جس سے مسائل تو حل نہیں ہوں گے موجود رہیں گے سلگتے رہیں گے اور ہر طرف عدم استحکام کے لئے ایندھن مہیا کرتے رہیں گے قوموں سے۔انسان سے پیار محبت واحترام بشر دوستی کا تقاضا مے تو شہری حقوق و استحقاق کے تعین کی موثر بنیاد وطن وسرزمین سے محبت و رشتہ ہے حب الوطنی اور بشر کے اسی سنگم سے نیا عمرانی معاہدہ وضع کرنا شاید اب ناگزیر ہوگیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں