ایک گواہی نقصان پہنچا سکتی ہے۔۔!

رشید بلوچ
مائنس ون کا فارمولہ ایک بار پھر سیاسی حلقے میں موضوع بحث بنا ہوا ہے،اسکا اشارہ عمران خان نے بھی اپنی بجٹ تقریر میں کیا ہے،اس سے قبل الطاف حسین کو ایم کیو ایم اور نواز شریف کو ن لیگ سے مائنس کیا گیا ہے، بجٹ منظوری کے سیشن سے قبل وزیر اعظم نے اپنے اتحادیوں کو کھانے پر مدعو کیا تھا جس میں بی این پی اور ق لیگ بھی مدعو کیئے گئے تھے،جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی کے مرکز اور پنجاب میں اہم اتحادی چوہدری برادران کی جماعت ق لیگ نے شرکت نہیں کی،کھانے کی دعوت میں بی این پی کا شریک نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہ اب تحریک انصاف کی اتحادی نہیں رہی لیکن ق لیگ کے انکار نے بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے،پی ٹی آئی کے پرانے ساتھی حالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگرMinus one کا فارمولہ اپلائی کیا گیا تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اسکا سیدھا سا مطلب یہی نکالا جاسکتا ہے کہ درون خانہ کہیں نہ کہیں Minus one فارمولہ کی کچڑی پک رہی ہے، دو تین سال کے وقفے کے بعد ہوبہو وہی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں جو نواز شریف اور الطاف حسین کو مائنس کرنے سے قبل کی جارہی تھیں،زیادہ تر تجزیہ نگار بھی مائنس ون کا اشارہ دے رہے ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مائنس ون ہونا کیوں ضروی ہے،؟ عمران خان حکومت سے نہ ڈان لیک سرزد ہوئی ہے اور نہ ہی کسی کے کہنے پر خارجہ پالیسی کو چھیڑا گیا ہے، نا کوئی نازک تار ہاتھ لگائی گئی ہے، موجودہ حکومت تو فرمان بردار بچے کی طرح ہر حکم ماننے کیلئے دست بستہ مؤدبانہ انداز میں کھڑی ہے،عمران خان ایک حساب سے خوش قسمت بھی ہیں کہ انہیں ڈری سہمی ہوئی اپوزیشن ملی ہے جو ایک حد سے زیادہ یا اشارے کے بغیر اسٹیٹمنٹ تک نہیں دیتی اسکے باوجود عمران خان کو مائنس کرنیکی کیا ضروت پیدا ہورہی ہے؟ میری ضعیف رائے میں مقتدرہ سردار عثمان بزدار کی جگہ چوہدری پرویز الہی کو ریپلیس کرنا چارہی ہے لیکن عمران خان گزشتہ ایک سال سے حکم عدولی کر رہے ہیں ایک وجہ یہ بن رہی ہے،جس خوش فہمی کے ساتھ عمران خان کو لایا گیا تھا اورتوقعات پر اتر نہیں پارہے ہیں،گمان یہ تھا کہ عمران خان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں پیسہ لانے میں آسانی سے قائل کر سکتے ہیں،لیکن وہ اور سیز پاکستانیوں کو اس بات پر مائل نہیں کر سکے یہ ہے دوسری ناکامی،تیسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ سوچ پروان چڑ رہی ہے کہ یہ بندہ مستقل مزاج نہیں ہے،حکومت پر سے انکی گرفت خاصی ڈھیلی پڑ چکی ہے، پٹرول اسکینڈل،چینی اسکینڈل،اور اب پی آئی اے نجکاری اسکینڈل ان تمام عوامل کو دیکھ کر ایک بہتر ایڈ منسٹریٹر کی تلاش شروع ہوچکی ہے۔۔
بعض لوگوں کی رائے ہے کہ عمران خان کو مائنس کرنے کیلئے پارٹی فارن فنڈنگ کیس بطور جواز پیش کیا جائے گا یہ ایک جینیئن کیس ہے جسے حکومت مختلف طریقے سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے اگر یہ ثابت ہوگیا کہ عمران خان نے فارن فنڈنگ میں ملنے والی رقم چھپائی ہے اس میں غیر قانونی طریقے سے ہیر پھیر کی ہے تو اسے نواز شریف کی طرح نا اہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن یہاں پر میری رائے میں عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ سے کیس بڑا کیس حیر بیار مری کے حق میں دیا جانے والا گواہی کیس زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے برٹش گورنمنٹ سے حیربیار مری کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا،ریاست کا موقف تھا کہ حیر بیار مری اور فیض بلوچ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے مؤجب ہیں انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے،اپنی حوالگی روکنے کیلئے حیر بیار مری اور فیض بلوچ نے لندن کی ایک عدالت میں اپیل دائر کر رکھی تھی اس کیس میں موجودہ وزیر اعظم نے حیر بیار مری کے حق میں گواہی دی تھی،اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا،موجودہ وزیر اعظم نے اپنا بیان وڈیو لنک کے زریعے لندن کی عدالت کو ریکارڈ کرایا تھا،غالباًوزیر اعظم عمران خان نے اپنا یہ بیان یکم جنوری 2009 کوقلمبند کیا تھا جسے لندن سے شائع ہونے والے Daily Express میں جون ٹومی نامی صحافی نے رپورٹ کی تھی، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی گواہی سے حیر بیار مری کی کیس کو تقویت ملی،ایک مشہور کرکٹر اور پاکستانی سیاستدان کی گواہی نے عدالتی فیصلے کا رخ مخالف فریق کے پلڑے ڈال دیا جس سے مخالف فریق کو کافی سہولت میسر ہوئی،۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما پلوشہ خان نے دو دن قبل پریس کانفرنس میں 2009 میں چلنے والے ٹرائل کا زکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پاکستان مخالف گواہی دینے پر مقدمہ چلا یا جائے،پلوشہ خان نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کمیٹی بنائی جائے تاکہ اس معاملے کی تحقیقات کرے،ان کے بقول یہ اقدام ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے،پلوشہ خان کا بیان ایک ایسے وقت آنا جہاں مائنس ون کی باتیں خود وزیر اعظم اسمبلی میں کہہ رہے ہیں خاصی معنی رکھتا ہے،اگر پلوشہ خان کے مطالبے کو سنجیدگی سے لیا گیا تو یہ معاملہ عمران خان کو گھر بیجنے کیلئے کافی ہوگا اور اس معاملے کا دفاع کرنا تحریک انصاف کے لوگوں کیلئے اسی طرح مشکل ہوگا جس طرح ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایم کیو ایم کے لوگوں کیلئے مشکل ہوا تھا،باالفرض عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑ گیا تو اسکا فائدہ پیپلز پارٹی کے بجائے ن لیگ کو ہوگا کیونکہ ن لیگ کی سیاست ہمیشہ پرو اسٹیبلشمنٹ رہی ہے بیچ میں نواز شریف تھوڑے سے“بھٹک“ گئے تھے لیکن شہباز شریف نے بڑے بھائی کو سمجھا دیا کہ چئے گویرا بن کر جیل میں بندہ نا پرساں بننے کے بجائے لندن جاکر سکون سے انجوائے کرو۔،ن لیگ کے تمام معاملات شہباز شریف کے سپرد ہیں اگر ضرورت پڑی تو ن لیگ 18ویں ترمیم پر بھی کمپرومائز کر جائے گی18ویں ترمیم کبھی پنجاب کا مسئلہ رہا ہے ہی نہیں۔ آگے بھی یہ مسئلہ نہیں ہوگا،بعض لوگوں کو رواں سال نومبر تک ایک بڑی تبدیلی نظر آرہی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی قسمت کا فیصلہ اس سال کے آخر تک ہوجائے گا، لیکن دوسری جانب بعض تجزیہ نگار سمجھتے ہیں عمران خان کو مائنس کرنے کیلئے نا اہلی کے پرانے اسکرپٹ کی کوئی نئی فلم نہیں بنے گی بلکہ انکے خلاف اسمبلی کے اندر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی،اپوزیشن دبے الفاظ میں اپنی اکثریت کا دعویدار ہے لیکن اپوزیشن کو یہ خوف بھی ہے کہ اگر جلد بازی میں اس سے کوئی چھوک ہوگئی تو یہاں بھی اسکا وہی حال ہوگا جو چیئرمن سینٹ کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کا ہوا تھا،اس لیئے اکثریت ہونے کے دعوے کے باوجود اپوزیشن بہتر موقع کا انتظار کر رہی ہے،ہاں اگر کوئی مائنس ون نہ ہوا تو عمران خان کی حکومت اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرے گی تب تک ن لیگ سمیت تمام جماعتوں کو اگلے پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا،

اپنا تبصرہ بھیجیں