چڑیا کا دودھ تو لا سکتا ہوں مگر لیڈی ڈاکٹر نہیں

محمد انور شاہوانی
جس طرح میرے دوست روزنامہ انتخاب کوئٹہ کے ایڈیٹر انورساجدی نے اپنے آرٹیکل افکارپریشان میں ”اور وہ دن کبھی واپس نہیں آیا“ کے عنوان سے بجاطورپر ہیڈماسٹر چوہدری بشیر احمد کے تجزیہ کا ذکر فرمایا ہے کہ مشکے کے طلباء کا آئی کیو بہت زیادہ ہے اور یہ ترقی یافتہ لوگوں کے برابر ہے جس کا تجزیہ بحیثیت ایجوکیشنسٹ بھی کرچکاہوں۔
میراتعلق بھی مذکورہ علاقہ سب ڈویژن مشکے ضلع آوران سے ہے میں اپنی ابتدائی تعلیم پرائمری سکول مشکے گجر سے حاصل کی ہے 1964ء میں اسی سکول سے مڈل سٹینڈرڈ کا امتحان بورڈ سے امتیازی نمبروں سے حاصل کی مشکے میں ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول مستونگ سے لاہور بورڈ سے پاس کیا غربت اور تنگدستی کی وجہ سے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکا کیونکہ میرے والد لیویز میں ایک سپاہی کی حیثیت سے ملازمت کررہے تھے ابتداء میں پرائمری ٹیچر بھرتی ہوکر درس وتدریس کا فرض سرانجام دیا 1971ء میں ایف اے اور 1923ء میں گریجویشن کیا۔
اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتاہوں یہ ان دنوں کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو پر سراقتدار تھے ہمارے مہربان سردار محمد عارف جان محمدحسنی کی دعوت پر مشکے کا دورہ کیا اپنے ہیلی کاپٹر سے اتر کر جلسہ گاہ میں تشریف فرماہوکر فرمایا ”بہت افسوس سے کہتاہوں کہ یہاں غربت اتنی زیادہ ہے کہ اس وادی میں سرسبز وشاداب نخلستان کے درمیان سینکڑوں گھروں میں سے ایک بھی پکا گھر نظر نہیں آیا علاقہ بہت خوبصورت ہے مگر اس علاقے کو کسی بھی دورمیں نہیں سنبھالا گیا ہے جس طرح میرے دوست انور ساجدی نے فرمایا ہے کہ آج تک خضدار سے مشکے تک اور نہ ہی بیلہ سے براستہ جھاؤ آواران سے مشکے تک پختہ سڑک اور نہ ہی بجلی کی سہولت ہے البتہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورہ مشکے کے دوران ایک مقامی بجلی گھر کی منظوری دی تھی جو آج تک چند گھروں تک محدود ہے
ہاں تو میں یہ کہہ رہاہوں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو جلسہ گاہ پہنچے تو سردار عارف جان محمدحسنی نے حسب روایت سپاسنامہ پیش کیا۔جس میں باقی باتوں کے علاو ہ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ علاقے میں ایک لیڈی ڈاکٹر تعینات کیاجائے تاکہ غریب اور بیمار خواتین کا علاج مقامی سطح پر گھر میں ہوسکے سپاسنامہ پیش کرکے بھٹوصاحب نے جواب میں تمام مطالبات مان لئے مگر لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی کے جواب میں کچھ یوں فرمایا میں چڑیا کا دودھ تو لاسکتاہوں مگر لیڈی ڈاکٹر نہیں دے سکتا ساتھ یہ فرمایا کہ کیا پنجاب سے سندھ سے سرحد سے لیڈی ڈاکٹر اس لئے تعینات کروں کہ آپ بلوچ غیرت مند ہوکر اپنی بچیوں کو نہیں پڑھاتے ہوتا کہ ڈاکٹربن سکیں دوسرے صوبوں سے تمہاری خواتین کے علاج معالجے کیلئے ڈاکٹر بھیجوں اور ساتھ یہ فرمایا کہ آپ اپنی خواتین کی ڈلیوری کیلئے مردڈاکٹروں کو برداشت کرسکتے ہو؟ اگر نہیں تو یقینا میں ہرگز یہ مطالبہ نہیں مانوں گا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی اس نصیحت آمیز سیاسی مشورے نے میرے دل میں بہت گہرا اثر کیا میں نے دل میں مصصم ارادہ کیا کہ ہر حال میں اس کام کی ابتداء اپنی فیملی سے کرونگا یہ ان دنوں کی بات ہے کہ نہ صرف مشکے بلکہ پورے سب ڈویژن آواران میں کہیں بھی گرلز سکول نہیں تھا۔چنانچہ اپنے دو بچیوں اور دو بچوں کو ایک ساتھ اپنے بوائز ہائی سکول مشکے میں داخل کیا جہاں میں خود بھی سیکنڈری سکول ٹیچر تھا بچیوں نے مڈل پاس کیا میں نے اپنی ذاتی کوششوں اوراثررسوخ سے اے ڈی بی (ایشین ڈویلپمنٹ بینک) کی طرف سے ایک گرلز پرائمری ٹیچر بھرتی کرایا آس پاس کے لوگوں نے اپنی اپنی بچیوں کو داخل کرانا شروع کیا اس طرح پورے سب ڈویژن آواران میں گرلز ایجوکیشن کی بنیاد ڈھل گئی۔
مشکے کی دوبچیوں کے والدین ملازمت کی غرض سے خضدار میں رہائش پذیر تھے جن کی دوبچیاں مڈل پاس تھیں انہیں کسی طریقے سے ترغیب دے کر ٹیچر بھرتی کروائی اب اپنی بچیوں کو مزید تعلیم کیلئے کوئٹہ کے گرلز پوسٹل ہائی سکول میں داخل کروایا دوسال کے بعد بچیوں نے میٹرک کیا گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کوئٹہ سے ایف ایس سی کیا ایک کی میڈیکل میں سیٹ ہوگئی دوسری کو واپس مشکے کے گرلز سکول میں ٹیچر بھرتی کرائی میڈیکل والی بچی نے ایم بی بی ایس کرکے ہاؤس جاب کیا کمیشن کے امتحان میں میرٹ پر لیڈی ڈاکٹر بھرتی ہوئی کافی عرصے تک آر ایچ سی مشکے میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتی رہی جو آج کل بی ایم سی میں گریڈ19کی آسامی پر تعینات ہے میری ذاتی کوشش اورگائیڈ لائن سے علاقے بھرکی بچیوں نے ایف ایس سی کے بعد مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اس طرح آج تک صرف میری اپنی فیملی میں 14لیڈی ڈاکٹر مختلف ہسپتالوں میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہی ہیں انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار میں مشکے ہی کی دوبچیاں بطور پروفیسر کام کررہی ہیں۔
دیکھتے ہی بہت ساری بچیوں نے گرلز پرائمری سکول پرائمری پاس کرکے بوائز ہائی سکول مشکے میں داخل ہوگئیں یہاں تک کہ چھٹی سے لے کر دسویں تک تقریباً100سے زائد بچیاں داخل ہوگئیں اس طرح مشکے میں مخلوط تعلیم کی داغ بیل ڈالی اس وقت تک میں اپنے سکول کا ہیڈماسٹر بن چکا تھا اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم جو بنیادی طورپر ایک ڈاکٹر تھا حادثاتی طورپر سیاستدان بن کر وزیر تعلیم بن گئے حادثاتی سیاستدان اس لئے بغض وحسد کی وجہ سے نہیں کہتا بلکہ اس میں پالیسی سازی کا فقدان تھا جن کا کام پارلیمنٹ میں قانون سازی ہے۔
چنانچہ وزیر موصوف مشکے کے وزٹ پر گئے میں نے بھی اپنے سکول میں صفائی ستھرائی کا اہتمام کرکے بچوں کو پی ٹی شو اور سلامی کیلئے تیار کیا منسٹر صاحب کے عوام سے فارغ ہونے کے بعد انہیں سکول کاوزٹ کرنے کی دعوت دی کیونکہ اس کا اپنا محکمہ تھا وہ آگئے سلامی وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد میں ان سے سکول میں داخل بچیوں سے ملاقات کرنے کی استدعا کی تمام بچیوں نے ان سے ملاقات کی ملاقات میں یہ درخواست کی کہ سرہمارے گرلز پرائمری سکول کو ہائی کا درجہ دیں تاکہ ہم نوجوان بچیاں اپنے نوجوان بھائیوں سے علیحدہوکر یکسوئی سے تعلیم حاصل کرسکیں بچیوں سے ملاقات کے بعد مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا بچیوں کو آپ نے کیوں اس طرح مس گائیڈ کیا ہے کہ پرائمری سکول کو مڈل اس کے بعد ہائی کا درجہ دیاجاسکتا ہے میں نے بھی اس کے غصے کوخاطر میں نہ لاکر جواب دیا جناب والا زیارت سب تحصیل سے ضلع بن سکتا ہے جس کے لئے کروڑوں کا بجٹ درکار ہوتا ہے ہائی سکول کیلئے صرف ایک ہیڈمسٹریس ایک سائنس ٹیچر اور فرنیچر کی ضرورت ہوتی ہے یہ سن کر غصہ کرکے چلاگیا۔
کہنے کا مقصد کسی کی تذلیل نہیں بلکہ یہ فرق واضح کرنا تھا کہ بھٹو جو اصل سیاستدان تھا اس کے اور اس وزیر صاحب کے جواب میں کتنا فرق تھا۔بعد میں علاقے کے چند لکھے پڑھے لوگوں کی مدد سے اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے مذکورہ سکول کو ہائی کا درجہ دلوایا۔ جو آج تک بڑی کامیابی سے چل رہاہے جہاں سے سینکڑوں بچیاں میٹرک کے بعد علاقے کے بوائز انٹر کالج میں شام کے شفٹ میں پڑھ رہی ہیں۔
اس کے بعد میری ترقی بحیثیت ایگزیکٹوڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرآواران ہوئی اب تو مجھے پورے ضلعے میں گرلز سکولز کھولنے کے اختیار مل گئے میں نے باقاعدہ پورے ضلع کا دورہ کیااس سروے کے دوران جہاں ضرورت محسوس ہوئی کئی بوائز اور گرلز سکول کھول دیئے تمام بوائز مڈل اور ہائی سکولوں کے ہیڈماسٹر صاحبان کوباقاعدہ سرکلرجاری کرکے ہدایت کی کہ نزدیکی جتنے پرائمری سکول کی بچیاں پرائمری یامڈل پاس کریں انہیں اگر وہ چاہیں تو اپنے سکولوں میں داخل کرکے خاص نگرانی سے پڑھائیں۔
اس طرح خصوصاًمشکے عموماً آواران اور جھاؤ میں Gender Educationعام ہوئی اللہ پاک نے مجھے اپنے مشن میں توقع سے زیادہ کامیابی نصیب فرمائی اب ضلع کے تمام گرلز ہائی سکولز میں مقامی گرلز ٹیچرز پڑھارہی ہیں یہ سب کچھ دیکھ کر میرابڑا بیٹا جو سیکرٹری ہیلتھ اور ڈویژنل کمشنر کوئٹہ رہاہے اسے بھی Gender Educationپر پی ایچ ڈی کرنے کا جذبہ پیدا ہوگیا تاکہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن آکر مختلف فورم میں جاکر لڑکیوں کی تعلیم پر قانون سازی میں اپنا کردارادا کرسکوں۔ آج کل وہ آسٹریلیا میں تین سال سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔اللہ کرے کہ وہ اپنے اس نیک جذبے میں کامیاب ہوکر اپنی قوم کی خدمت کرسکے کیونکہ ہمارے معاشرے کی آدھی آبادی سے زیادہ خواتین ہیں کسی بھی معاشرے میں خواتین کاکردار بڑا اہم ہوتا ہے اگر ہماری خواتین ان پڑھ ہونگی تو پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں