جعلی لوکل ڈومیسائل کا قضیہ۔۔جام حکومت۔۔!

رشید بلوچ
پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک دبلا پتلا نوجوان بغل میں خاکی رنگ کی فائل دبائے دروازہ سرکا کر کمرے کے اندر آناچاہتا تھا،اجازت ملنے کے بعد بڑی معصوم سی شکل بنا کر بغل میں دبی فائل سامنے بیٹھے انتظامی افسر کے ٹیبل پر رکھ دیتا ہے،افسر فائل اٹھا کر اس میں موجود کاغذات کی ورق گردانی کرنے لگا، بعد میں چشمے کے اوپر سے نظریں اٹھا کر ایک بار میری طرف اور اسکے بعد نوجوان سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے
کہاں رہتے ہو؟
نوجوان گھبراہٹ دور کرنے کی اپنی سی کوشش کرکے جو اب دیتا ہے,, فیض محمد روڈ،،۔۔!لیکن اسکے چہرے پر اب بھی گھبراہٹ واضح نظر آرہا ہے ہوتا ہے
افسر۔۔ فیض محمد روڈ کے کہاں پر واقع ہے۔۔؟
نوجوان۔۔۔جی۔۔جناح روڈ
افسر۔۔ اچھا جہاں تمہارا گھر واقع ہے۔۔۔اسکی ایک طرف جناح روڈ لگتا ہے دوسری جانب کونسی سڑک ہے۔۔؟
نوجوان۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد۔سر۔سریاب روڈ
افسر آنکھوں سے چشمہ اتار کر فائل بند کرکے نوجوان کو تھما کر کہتا ہے۔۔۔بیٹا۔۔۔پہلے گھر جاکر ساتھ والی سڑک کا صحیح پتہ نوٹ کر کے آجانا۔۔۔اسکے بعد اس پر دستخط کردوں گا۔۔نوجوان خاموشی سے ٹیبل پر پڑی چائے کاآدھا کپ ادھورا چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا جاتا ہے،کچھ ہی لمحے بعد افسر کے فون کی گھنٹی بجتی ہے، افسر فون پر کہہ رہا ہوتا ہے۔۔نہیں یار یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ایسا میں کر نہیں سکتا۔۔۔ایسا کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔۔وغیر ہ وغیرہ۔۔فون بند کر دیتا ہے۔۔ دوسری جانب نوجوان کا سفارشی بندے کی کال ہوتی ہے
بعد میں معلوم ہوا کہ نوجوان جعلی لوکل ڈومیسائل کے کاغذات پر دستخط کروانے آیا تھا۔۔یہ نوجوان کافی عرصہ بعد مجھے اسلام آباد میں ایئر پورٹ میں ملے اپنی تجسس دور کرنے کیلئے نوجوان سے سلام و علیک کیا۔۔۔تعرف کے بعد یہ عقد کھلا وہ مرکز کے ماتحت ایک محکمے میں اچھی پوسٹ پر لگ چکے تھے۔۔۔اس نے ہاتھ میں شناختی کارڈتھام رکھا تھا جس پر مستقل پتہ فیض محمد روڈ کوئٹہ درج تھا۔
بلوچستان کی نوجوان نسل نے جعلی لوکل ڈومیسائل کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے، مستونگ کے انتظامی افسر نے 400سے زائد ایسے لوگوں کو کھوج لیا ہے جو مقامی لوگوں کو چار پیسے کی رشوت دیکر یاکہیں سے اثر رسوخ کے زریعہ جعلسازی سے لوکل ڈومیسائل بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جن لوگوں نے جعلی ڈومیسائل بنائے ہیں انکا مقصد بلوچستان کی آبادی بڑھانا تو نہیں ہے بلکہ مقصد ایک ہی ہے کہ بلوچستان کیلئے مختص 6% نوکریوں کے کوٹے پر نقب زنی کرنی ہے،جعلی ڈومیسائل کا قضیہ صرف ایک علاقے کا نہیں بلکہ چمن سے گوادر،آوران سے تفتان تک بلوچستان کے ہر شہر،کوچے میں جعل سازی کے زریعہ ڈاکہ زنی کی گئی ہے،ظاہر ہے جعل سازی کا یہ معاملہ کسی ایک دور حکومت میں نہیں ہوا ہوگا،گزشتہ ادوار میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سب کو اس گناہ میں شامل کیا جانا چاہیے اس میں قوم پرست جماعتیں ہوں یا مرکز پرست سب کو اپنی نا اہلی،نا لائقی کی زمہ داری لینی پڑے گی،بلوچستان کے عوام میں ایک عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ یہ ڈاکہ زنی ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے بلوچستان کے طول وعرض میں فرائض کی انجام دہی کے نام پر حکمرانی کی ہے،یہ رائے بہت تک صائب بھی ہے لیکن یہ چوری کسی کلرک،منشی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا اس میں جتنا قصور مسلط شدہ غیر مقامی افسر کا ہے اس سے کہیں زیادہ قصوروار مقامی ملازم بھی ہیں۔
وزیر اعلیٰ جام کمال نے جعلی لوکل ڈومیسائلز کی منسوخی کا عندیہ دیا ہے اگر جام کمال بلوچستان کے عوام پر لگے جانے والی ڈاکہ زنی روکنے میں کامیاب ہوگئے تویہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی بلکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہوگا اس عمل کو بلوچستان کے چھپے چھپے سے پزیرائی ملے گی،وزیر اعلیٰ جام کمال حکومت نے اس سے قبل گوادر میں زمینوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے ہماری نظر میں گوادر کی زمینوں کی خرید وفروخت پر پابندی موجودہ حکومت کا اہم اسٹیپ ہے جسے سراہا جانا چاہئے، بلکہ گوادر کیلئے شنگھائی طرز پر قانون سازی ہونی چاہئے،شنگھائی میں پراپرٹی کی خریداری پر مکمل پابندی عائد ہے بڑے سے بڑا کاوباری مرکز اور چھوٹی سی چھوٹی دکان 30سے40سال کی لیز پر دی جاتی ہے،لیز کی میعاد ختم ہونے کے بعد خود بخود پراپرٹی کی ملکیت اصل مالک یا حکومت کے پاس چلی جاتی ہے، اگر حکومت سنجیدہ ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا،جعلی لوکل ڈومیسائل کامسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے اسے حل کیا جاسکتا ہے،بلکہ حکومت کو1957کے بعد جاری ہونے والے تمام ڈومیسائلز کو منسوخ کردینے کی پالیسی اپنا نی چاہئے،1957کے بعد بلوچستان سے نہ صرف پنجاب دیگر صوبے کے لوگوں نے جعلی ڈومیسائل بنائے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں افغان شہریوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔۔ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب بلوچستان کے اکثر علاقوں میں مقامی نوجوان انتظامی پوزیشن پر ہیں وہ جعلی لوکل ڈومیسائل کے خلاف بہتر کاروائی کرسکتے ہیں جس طرح مستونگ کے انتظامی افسر نے تالاب میں پہلا کنکر پھینک کر کاروائی کا آغاز کر چکے ہیں باقی مقامی افسر ان کی تقلید کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں