بلوچستان میں منٹگمری

انور ساجدی
جمعرات کو علی الصبح جب میں حب کے قریب پہنچا تو ایک بہت ہی دلکش مگر پرفریب منظر دیکھنے کو آیا شروع میں ایسا لگا جب آپ واشنگٹن ڈی سے نیوریارک جاتے ہوئے منٹگمری شہر میں داخل ہورہے ہوں۔منٹگمری امریکہ کا ایک چھوٹا شہر ہے لیکن اسکی شان نرالی ہے اور یہاں پر کافی اونچی عمارتیں ہیں جو منظر میں نے دیکھا وہ ڈی جی سیمنٹ فیکٹری کا تھا دن کو یہ فیکٹری مختلف نظرآتی ہے لیکن رات کو لاکھوں برقی قمقموں کی وجہ سے منظر یکسر بدل جاتا ہے اس فیکٹری سے کچھ دور مفرور سعودی ارب پتی غیاث فرعون کی سیمنٹ فیکٹری ”اٹک“ واقع ہے جو کسی زمانے میں سیمنٹ بنانے کی سب سے بڑی فیکٹری تھی لیکن اب اسکی جگہ ڈی جی نے لے لی ہے کیونکہ اسکے متعدد کارخانے ہیں اور اسے پاورفل حلقوں کی پشت پناہی حاصل ہے چند سال قبل یو اے ای کے گلداری خاندان نے بھی ایک فیکٹری قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس خاندان کے مالی زوال کی وجہ سے یہ مکمل نہ ہوسکی ڈی جی ایک وسیع وعریض رقبہ پر مشتمل ہے اسکی پانی کی ضروریات کروڑوں گیلن روزانہ ہے یہ متعدد ٹیوب ویلوں کے ذریعے پوراکیاجارہا ہے خدشہ ہے کہ چند سال کے عرصہ میں حب کا زیر زمین پانی ختم ہوجائیگا۔سیمنٹ کے کارخانے آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں یعنی ایک طرف ڈی جی اور دوسری طرف اٹک سیمنٹ فیکٹری ہے حب کی جنت نظیر وادی زہریلے دھوئیں کی لپیٹ میں ہے حب ندی سے پارٹپال فیملی کی بجلی بنانے کا پلانٹ ہے اس سے بھی ہر وقت دھواں خارج ہورہا ہے۔گڈانی سے آگے کنڈ میں حبکو پاور پلانٹ ہے اسکے ساتھ بو سیکارکی آئل ریفائنری ہے گڈانی کے ساحل پر دنیا بھر کے ناکارہ بحری جہاز توڑے جارہے ہیں اسکے علاوہ حب کے اندر ہائٹ میں جو کارخانے ہیں وہ الگ سے آلودگی پھیلانے کا موجب ہیں اس سلسلے میں ایم این اے اسلم بھوتانی نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا تھا لیکن کوئی بات نہیں بنی کنڈ سے لیکر بندمراد تک پورا علاقہ سلوپوائزن کاشکار ہے جبکہ جو انسان ہیں وہ روزانہ ”سکھیا“ کازہر اپنے اندر جذب کررہے ہیں یہ جو انسانی المیہ ہے حکمران اسے قابل توجہ نہیں سمجھتے کیونکہ وہ غالباً ساحلی پٹی کے عوام کو انسان ہی نہیں سمجھتے اگرسمجھتے تو اس آلودگی کاکوئی علاج کرتے علاقہ کے لوگوں کو صحت،تعلیم،پانی دیگربنیادی ضروریات فراہم کرتے ہر طرف ایک بے ہنگم گروتھ ہورہا ہے یہ سرمایہ داروں کیلئے ترقی ہوسکتی ہے لیکن عوام اور علاقہ کیلئے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے یہ جو میں لکھ رہا ہوں اس کا مقصد تنقید نہیں بلکہ جو کچھ ہورہا ہے اسے ریکارڈ پر لانا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ انکی سرزمین کے ساتھ کیا ہوا تھا یہ تو معلوم نہیں کہ بلوچستان کی تقدیر کا فیصلہ امریکہ کی طرح ہوگا یانتائج مختلف ہونگے لیکن تاریخ پڑھنے سے یہ بات ثابت ہے کہ آج وہاں کے انڈین باشندوں کے پاس انکے ”نوحوں“ کے سوا اور کچھ نہیں ہے جو لوگ نوحے پسند نہیں کرتے انہیں حق ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے بہتے دریا کی موجوں کے ہمسفر ہوجائیں کیونکہ اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس سے قطع نظر کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہے ایک نئی صف بندی کی ضرورت ہے کیونکہ جوں جوں معاملات آگے بڑھیں گے انسانی المیئے بڑھتے جائیں گے قصور وار کے ساتھ بے قصور بھی زد میں آئیں گے جیسے کہ ننھی سی بچی ناز بی بی ناکردہ گناہوں کی بھینٹ چڑھ گئی اسکی تصویر کودیکھ کرکلیجہ منہ کو آتا ہے طاقت کا استعمال جب بڑھ جائے تو اسی طرح کے نتائج نکلتے ہیں نئی صف بندی کیا ہونی چاہئے یہ ان لوگوں کا کام ہے جواپنے آپ کو سیاستدان کہتے ہیں حالانکہ یہاں پر سیاست کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی اجازت لیکن بنیادی حقوق کی پامالی ایک عالمی اور انسانی مسئلہ ہے اگرچین اقلیتی آبادی کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے یا ہندوستان میں مودی ہندو توا کے زہر کو پھیلا کر مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پرظلم وجبرکے پہاڑ توڑرہے ہیں تو دنیا کے کئی ممالک آوازیں اٹھارہے ہیں حال ہی میں جس معصوم کشمیری بچے کے سامنے اسکے نانا کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تو معصوم بچے کی تصویر نے پورے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا لیکن برمش کے سامنے جب اسکی والدہ کو معلوم مگر گمنام ڈاکوؤں نے قتل کیا تو اس ظلم دنیا میں اس طرح اجاگرنہیں ہوا جس طرح کہ کشمیری بچے کا ہوا ایسی صورت میں جبکہ سیاسی جماعتوں کا کوئی نظریہ نہیں ہے وہ کم از کم انسانی حقوق کی آواز تو اٹھائیں اس مسئلہ پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھیں اور یہ بتایں کہ خواتین اور بچوں پرہاتھ اٹھانا تمام عالمی اورانسانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ان سیاسی جماعتوں کویادرکھنا چاہئے کہ انکی بقا بھی مجموعی صورتحال سے وابستہ ہے اگرعوام نیست ونابود ہوئے تو ان کا کیا مستقبل ہوگا بدقسمتی سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں کوئی تیاری نہیں کرتیں کسی بھی مسئلہ پر ان کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔تنظیم کاری پر انکی توجہ بھی صفر ہے جبکہ حالات آزادانہ کام کے موافق نہیں ہیں ان حالات میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے ہوا کے دریچے کھولنے کی ضرورت ہے صورتحال کو باریک بینی سے دیکھنے اور اسکے مطابق حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے محض خانہ پری اور جیسے تیسے کرکے وقت گزارنے سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوسکتیں۔
سوشل میڈیا چونکہ افواہ سازی کی فیکٹریاں ہیں لیکن کچھ نہ کچھ اطلاعات صحیح بھی ہوتی ہیں مثال کے طور پر ایک یہ اطلاع گردش کررہی ہے کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ سے گوادر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اول تو یہ صوبائی مسئلہ ہے اور وفاق کے دائرہ اختیار سے باہر ہے کہ وہ کسی صوبائی حکومت کے صدرمقام کا معاملہ طے کرے دوسرا یہ کہ گوادر کے بارے میں چین کے ساتھ زمین کا جو معاہدہ ہے وہ خفیہ ہے اگر صدر مقام وہاں پر لے جانا مقصود ہوتو چین اسکی اجازت نہیں دے گا کیونکہ گوادر میں اسکی گنجائش نہیں ہے حالانکہ وہاں پر ایک چھوٹا سا گورنر ہاؤس ضیاء الحق کے دور میں بنا تھا اور کچھ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جو عارضی طور پر کام آسکتی ہیں البتہ گوادرسے جیونی کی طرف درمیان میں جو علاقے ہیں وہاں پر مستقل دارالحکومت تعمیر ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے بہت روپے درکار ہیں جو بلوچستان کے بس سے باہر ہے یہ خیال تو تقریباً پختہ ہوچکا ہے کہ جب انگریزوں نے کوئٹہ کوبرٹش بلوچستان کا صدر مقام بنایا تھا تو ان کا مقصد کوئٹہ گیرژن میں فوج رکھنا اور افغانستان کیخلاف استعمال کرنا تھا یہ ضرورت اب باقی نہیں رہی کوئٹہ مستقبل میں آبادی کے بڑے بوجھ کوسہنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے اسی لئے نواب محمد اسلم رئیسانی نے عارضی طور پر گوادر کو سرمائی صدرمقام قرار دیا تھا اس فیصلہ کی وجہ بتاتے ہوئے نواب صاحب نے بتایا تھا کہ ان کا مقصد گوادر کو بچانا اور مقامی آبادی کا تحفظ کرنا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں وفاقی ادارے گوادر سمیت ساری ساحلی پٹی پرغلبہ حاصل کرچکے ہیں میرے خیال میں مرکزی سرکاری کوبلوچستان کے صدرمقام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کا پلان ہے کہ ساحلی پٹی کو کس طرح وفاق کے دائرہ اثرمیں لائے اس لئے اسے ساؤتھ زون قراردیا گیا ہے اور ساحلی ڈویژن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس زون کا مرکز تربت کو بنایا جارہا ہے جبکہ عمومی سرگرمیوں کے مراکز کو لواہ ہوشاپ گوادر اورجیونی ہونگے یعنی آواران سے لیکر مند تک اور وہاں سے لیکر ڈام تک سارا علاقہ انتہائی حساس زون ہوگا اس زون میں صوبائی حکومت محض سہولت کار ہوگی جبکہ اس کا اصل انتظام وفاق کے ہاتھ میں ہوگا بے شک آئین اسکی اجازت نہ دے لیکن عملاً ایسا ہوگا جیسے کہ آئینی طور پر راولپنڈی پنجاب کا حصہ ہے لیکن عملاً یہ وفاق کے زیرانتظام ہے زیادہ دیر کی بات نہیں جو بھی پلان ہے وہ آئندہ دوسالوں کے دوران طشت ازبام ہوگا تب پتہ چلے گا کہ حکمران کیا چاہتے ہیں اور انکے اصل مقاصد کیا ہیں بدقسمتی سے آج تک کسی سیاسی جماعت نے نہ پارلیمنٹ میں اور نہ بلوچستان اسمبلی میں وضاحت طلب کی کہ بلوچستان کے ساتھ کیا ہورہا ہے آئندہ کیا ہوگا اگر یہ کہاجائے کہ سیاسی جماعتوں کاوژن محدود اور وجدان صفر ہے تو بے جانہ ہوگا اگریہ تاثر غلط ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصلحت پسندی اور فنڈز کی کمزوری کی شکار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں