آیا صوفیہ کی دوسری فتح
انور ساجدی
1934کے بعد پہلی مرتبہ دنیا کے سب سے بڑے کلیساسینٹ صوفیہ سے اذان کی ایمان افروز اور مسحورکن آواز بلند ہوئی یہ آیا صوفیہ کے دوسری فتح تھی جو سلطان طیب اردگان کے ہاتھوں انجام پائی اسکی پہلی فتح 21سالہ ترک بادشاہ سلطان محمد دوئم المعروف سلطان محمدفاتح کے ہاتھوں 1553ء کوہوئی تھی یہ کوئی معمولی فتح نہیں تھی یہ رومن امپائر اور اسکی جانشین بازلطینی سلطنت کی شکست تھی،قستنطنیہ کی فتح ہلاکو خان کی اولاد کے عروج کا آغاز تھا21سالہ سلطان نے قدامت پسند آرتھوڈکس عیسائیوں کے کلیسا آیا صوفیہ میں نماز پڑھی اور اعلان کیا کہ آج سے یہ مسجد ہے انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ آج سے قستنطنیہ کا نام اسلام بول (اسلام آباد) ہوگا بحرہ قلزم کے اس پار عیسائی لرزہ براندام تھے کیونکہ استنبول کی ساری آبادی اس طرف ہجرت کرگئی تھی ہر طرف عورتوں اور بچوں کی آہ وبقاء کی آوازیں آرہی تھیں شہر میں صرف کرد آبادی رہ گئی تھی جنہوں نے سمجھا تھا کہ ترک انکے ہم مذہب ہیں اور انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن انکی خوش فہمی جلد دور ہوگئی سلطان نے استنبول کی ساری زمین کو سلطنت کی ملکیت قرار دے کر قومی ملکیت میں لے لیا کرد دربدر ہوکر دیارباقر اورحلب کی طرف بھاگے اسکے باوجود استنبول کے کردوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے عثمانی سلطنت اور جدید ترکی کوپانچ سوبرس کاعرصہ لگا اس طرح وسط ایشیاء کے خونخوار قبائل نے یورپی وحشی اور جنونی قدامت پسندوں کوپیچھے دھکیل دیا جبکہ ہزاروں سال سے موجود ایک عظیم تہذیب کاخاتمہ کردیا بحیرہ روم کاعلاقہ اور دریائے فرات اوردجلہ جن پہاڑوں سے نکلتے تھے انکی تاریخ ہزاروں سال پرانی تھی جس کے آخری وارث کرد تھے اس تاریخ کو وسط ایشیائی حملہ آوروں نے اپنے گھوڑوں کی سموں نیچے روندڈالا اولین مسلمان ہونے کے باوجود کرد لبرل اور سیکولر تھے جبکہ ترکوں نے اپنے عروج کیلئے مذہب کا استعمال کیا انہوں نے مساجد بنائیں مدرسے بنالیئے لیکن صدیوں تک چھاپہ خانے لگانے پر پابندی عائد کردی جس کی وجہ سے اس خطہ کے لوگ جدید علوم سے محروم رہے۔
کہاجاتا ہے کہ جب عیسائی یورپ گئے تو انکے پاس طب اور اس وقت کے جدید علوم کی بے تحاشا کتابیں تھیں جنہیں پڑھ کر یورپ نے ترقی کے مدارج طے کئے انہوں نے مسلمانوں کو شکست دینے کیلئے سینکڑوں سال کاانتظار کیا صلیبی جنگوں میں شکست کھانے کے باوجود انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا پہلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے عثمانی سلطنت کا خاتمہ کرکے دم لیا معاہدہ لوزان کے تحت بچے کچھے ترکی کو مجبور کیا کہ وہ اسلام ترک کرکے سیکولر نظام اپنائے جبکہ استنبول کے عظیم کلیسا کومسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی شرط بھی منوائی چنانچہ1934ء کو کمال اتاترک کے زیر صدارت کابینہ نے آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاکمال اتاترک عرب اقوام سے بہت بدظن تھے اور وہ ان سے شدید نفرت کرتے تھے کیونکہ عربوں نے انگریزوں سے مل کر سلطنت عثمانیہ کاخاتمہ کیا تھا انہوں نے ردعمل کے طور پر حکم دیا کہ ترک آئندہ عرب نام نہیں رکھیں گے عربی کی جگہ رومن رسم الخط رائج ہوگی ترک قرآن عربی کے بجائے ترکی زبان میں پڑھیں گے انہوں نے چند سالوں کیلئے اذان پر بھی پابندی عائد کردی تھی ترکی کومرد بیمار بنادینے کے بعد عیسائی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم برپا کی جس کے نتیجے میں عربوں کو شکست ہوئی اور1948ء کو2ہزارسال بعد بنی اسرائیل کی مملکت قائم کردی گئی ترکی پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ترکی میں احیائے اسلام کی بنیاد نجم الدین اربکان نے1980ء کی دہائی میں رکھی انہوں نے1990ء میں اسلام پسند پارٹی اے کے کی بنیاد رکھی1996ء میں وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ترکی کے پہلے اسلام پسند وزیراعظم بن گئے۔ترکی کی فوج نے اس فیصلہ کو قبول نہیں کیا صرف ایک سال بعد انکی حکومت ختم کردی گئی نہ صرف یہ بلکہ انہیں گھر پر نظربند کرکے سیاست کیلئے تاحیات نااہل قراردیا گیا اربکان کے عبد اللہ گل اورطیب اردگان نے مل کر اے کے پارٹی کو زندہ رکھاانکی جسٹس پارٹی2011ء سے برسراقتدار ہے وہ دومرتبہ ریفرنڈم کرواچکے ہیں اور2016ء میں جو بغاوت ہوئی تھی انہیں کچل کر مکمل ڈکٹیٹر بننے کا سہرا تھی انہی کے سر ہے انہوں نے کمال اتاترک کے آئین کو تبدیل کرکے سیاست میں فوج کی مداخلت کاخاتمہ کردیا۔ترکی کے گزشتہ آئین کے مطابق فوج کوسیاسی حکومتوں کاتختہ الٹنے کااختیار تھا اور اسے پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی حاصل تھی ترک فوج نے پہلے منتخب اور اسلام پسند وزیراعظم عدنان مندریس کو17ستمبر 1961ء کو تختہ دار پرلٹکادیاتھا انہوں نے برسراقتدارآنے کے بعد تمام بند مساجد کو کھولنے اور لاؤڈاسپیکر پر اذان دینے کی اجازت دی تھی عدنان متدریس 10برس تک ملک کے وزیراعظم رہے انکے دور میں ترکی نے9فیصد کی شرح سے ترقی کی انکے دور میں ترقی اور خوشحال کاانقلاب آیا فوج کووہ پسند نہیں تھے ایک مرتبہ ان کاجہازکریش ہوگیا لیکن مندریس بچ گئے۔وہ ترک قبرص کا معاہدہ کرنے لندن جارہے تھے یہ مسئلہ آج تک مسئلہ کشمیر بنا ہوا ہے انکے خلاف بڑی سازش یہ ہوئی کہ نامعلوم افراد نے کمال اتاترک کے آبائی گھر پرحملہ کیا جس کاالزام ان پر لگایا گیا مندریس کا عروج وزوال ذوالفقارعلی بھٹو سے ملتا جلتا ہے انہیں عوامی حمایت حاصل تھی لیکن انہوں نے مسلسل پریس پرسنسر شپ رکھی بالآخر انہیں فوج نے پھانسی دے کر ایک عہد کاخاتمہ کردیا ان پر ایک نام نہاد مقدمہ بھی ملٹری کورٹ میں چلایا گیا تھا الزامات وہی تھے جو بھٹو پر تھے۔
اگردیکھا جائے تو عدنان مندریس اورموجودہ صدر طیب اردگان میں کئی باتیں مماثل ہیں جبکہ اردگان کویہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے فوج کارول بظاہر ختم کردیا ہے اور سارے پرانے جرنیلوں کوبرطرف کرکے نئی فوج کی بنیاد رکھی یہ کام عدنان مندریس اور بھٹو نہیں کرسکے تھے اردگان مندریس اور بھٹو سے بڑے ڈکٹیٹر ہیں وہ خود کوعالم اسلام کے سب سے بڑے لیڈرسمجھتے ہیں وہ تقریبات میں زبردست قرأت کرکے رقت آمیزسماں پیدا کرتے ہیں۔لیکن انکی پالیسیاں ہمیشہ دوغلی رہی ہیں وہ اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف ہیں لیکن سفارتی تعلقات دوستی اور تجارت برقراررکھے ہوئے ہیں وہ مسلم امہ کویک جاکرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن شام پر انکے حملے جاری ہیں وہ اہل تشیع اورکردوں کی نسل کشی کررہے ہیں حالانکہ کرد پکے سنی ہیں وہ منتخب لیڈر ہیں لیکن میڈیا پر ہمیشہ سے زیادہ قدغن ہے سوشل میڈیا پر پابندی ہے اورکئی اخبارات کی اشاعت بند ہوچکی ہے۔
اردگان نے2سال قبل عربی رسم الخط دوبارہ رائج کردیا حفظ قرآن اور قرأت کے انعامی پروگرام شروع کئے جسکی وجہ سے نوجوانوں میں قرآن بینی اور قرأت سے لگاؤ بڑھ گیا اردگان کبھی امریکہ اورکبھی روس سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں اپنے دور میں وہ ہزاروں کرد اور بے گناہ شامی باشندے مارچکے ہیں۔مسلسل جنگوں اور حالیہ کرونا کی وجہ سے ترک معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس سے توجہ ہٹانے کیلئے اردگان خودنمائی اور مذہب کا زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں اگرچہ عالم اسلام میں آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانے پرانکی خوب واہ واہ ہورہی ہے لیکن یہ کام انہوں نے سیاسی مقاصد کی خاطر کیا ہے انہوں نے استنبول کے میئرکی حیثیت سے ترقی کاجو سفر شروع کیا تھا وہ زوال پذیر ہے اور انکی مقبولیت میں کمی آرہی ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے کلیسا آیا صوفیہ کو دوبارہ فتح کرنے کے بعد وہ سلیمان عالیشان بننے کی کوشش کررہے ہیں انکی پالیسی میں اتنا تضاد ہے کہ کسینوجواخانے اور نائٹ کلب پہلے کی طرح چل رہے ہیں شراب پرپابندی نہیں ہے اسکے باوجود وہ احیائے اسلام کی تحریک چلارہے ہیں اپنے ریاست مدینہ والے وزیراعظم بھی کچھ نہ کچھ انکے نقش قدم پر چل رہے ہیں دو دن سے انکے پیروکار سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلارہے ہیں کہ عمران خان دنیا کے نمبرون وزیراعظم ہیں سبحان اللہ اس پروپیگنڈے کا جواب صرف سبحان اللہ ہی ہے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ہمارے وزیراعظم ترقی کی شرح کومنفی اعشاریہ چارتک لے آئے ہیں عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق کرپشن پہلے سے بڑھ گئی ہے بجلی کی پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ بڑھ رہی ہے۔وزیراعظم کی آنکھوں کے سامنے فصلیں ٹڈی دل کھاگیا اوروہ بے بسی سے دیکھتے رہے چینی کا نرخ بڑھ گیا آٹے کی قیمت بڑھ گئی مہنگائی ڈبل ہندسہ کراس کرگیا ہے۔گورننس بہت ہی ناقص انصاف ناپید ہے غربا کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے لوگ فاقوں کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں۔دوسال میں اتنا قرض بڑھ گیا ہے جو گزشتہ دو ادوار سے بھی زیادہ ہے پھر بھی موصوف نمبرون ہیں شائد ناکامی ونامرادی میں نمبرون ہوں۔