لائن آف کنٹرول

انور ساجدی
این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں حکومتی عزائم اس وقت کھل کر سامنے آگئے جب جنرل مشرف کی باقیات میں سے ایک بیرسٹر سیف نے سینیٹ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کے بارے میں ایک بل پیش کیا وقتی طور پر اپوزیشن نے بل کثرت رائے سے مسترد کردیا لیکن خطرہ ٹلا نہیں کیونکہ ”اوپر کی نظر“ نیک ہونے کی وجہ سے یہ بل آئندہ چل کر منظور ہوسکتا ہے اس مقصد کیلئے جوڑ توڑ اورہارس ٹریڈنگ کے ذریعے کام لیا جاسکتا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ اپنی مرغیوں کو سنبھال کر رکھیں تاکہ وہ ہماری طرف آکر انڈے نہ دیں ان کم بخت مرغیوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکومت کی طرف جاکر انڈے دیئے تھے ان مرغیوں میں ن لیگ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی موٹی تازی مرغیاں شامل تھیں منگل کو اپوزیشن کے 25 ارکان نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کو سینیٹ میں مکمل اکثریت حاصل ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پارٹی”باپ“ نے بھی صوبوں کا حصہ کم کرنے کے بل کے حق میں ووٹ دیا اگر این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم ہوگیا تو بلوچستان کا زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ اس کے موجودہ وسائل کم ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوپر کے حکم سے ایسا کیا گیا ہے بل کی حمایت اور مخالفت نے اپوزیشن کا پول کھول دیا کیونکہ اس کے نصف ارکان غیر حاضر تھے آئندہ چل کر ن لیگ بھی ”مک مکا“ کرسکتی ہے کیونکہ شہبا زشریف کے خفیہ رابطے زوروں پر ہیں اگر حکومت نے مقدمات میں ہاتھ ہلکا رکھا تو ن لیگ آرمی ایکٹ کی طرح 18 ویں ترمیم اور این ایف سی میں تبدیلی کے حق میں ووٹ دے سکتی ہے ن لیگ کی بلا سے کہ صوبوں کے اختیارات اور مالی وسائل بڑھتے ہیں یا کم ہوتے ہیں دونوں صورتوں میں فائدہ پنجاب کا ہے جہاں تک پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی بھی حکومت کی مخالفت میں ایک حد سے آگے نہیں جائے گی کیونکہ اسے کہہ دیا گیا ہے اگر اس نے لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کی تو وہ گولہ باری کی زد میں آجائے گی اور اسے سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے آدھے ملک کی بادشاہت چھوڑنا پیپلز پارٹی کیلئے ممکن نہیں بلاول نے دو روز قبل جو گولہ باری کی وہ محض لفظی ہے اور اس کا مقصد حکومت کو دباؤ میں رکھنا ہے تاکہ وہ سندھ کے معاملات میں مداخلت کم کرے اگر پیپلز پارٹی کو اوپر سے حکم ملے تو وہ زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ سے غیر حاضر ہوسکتی ہے اس سے بڑی حکم عدولی کا ارتکاب نہیں کرسکتی خود وزیراعظم کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کتنے پانیوں میں ہے ان کے دستخطوں سے آئے دن جو بڑی بڑی تقرریاں ہورہی ہیں وزیراعظم صرف انگوٹھا لگا کر ان کی توثیق کررہے ہیں وہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اگرچہ روزانہ بھاشن دینا ان کی عادت ہے لیکن وہ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہیں حقیقت کھل جانے کے بعد گورننس معیشت اور دیگر معاملات براہ راست کنٹرول میں چلے گئے ہیں ان کے اختیارات اتنے ہیں جتنے کہ غدر کے بعد بہادر شاہ ظفرکے تھے سارے اختیارات کمپنی بہادر کو حاصل ہیں سیاسی اور خفیہ مذاکرات بھی کمپنی بہادر کے نمائندے کررہے ہیں کیونکہ عمران خان میں سیاسی ڈائیلاگ اور مخالفین کو ساتھ ملانے کی صلاحیت اور سلیقہ نہیں ہے ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے وزراء اور مشیر بھی ان کے کنٹرول سے باہر ہیں جو اتحادی ہیں وہ عمران خان کے نہیں ”انپڑھ“ بندے ہیں ان کا کیا کل کسی اور کنگز پارٹی اور نئی حکومت میں شامل ہوجائیں حال ہی میں چوہدری پرویز الٰہی کی ایک وڈیو لیک ہوئی ہے جس میں انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ اگر جنرل پرویز مشرف ان کو نہ لاتے تو وہ کبھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتے تھے انہوں نے کہا کہ عمران خان اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے کہا کہ ”پہلی جھپی“ کے بعد ہی ان کیلئے راہ ہموار کی گئی انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ”ہمارا جو ادارہ ہے“ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتاپرویز الٰہی مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے بظاہر وہ ہر روز عثمان بزدار کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن اندر سے ان کی اور عمران خان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں جس دن ان پر مشرف کی طرح نظر نیک ہوگئی وہ دوبارہ پنجاب کا کامیاب وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب مشرف نے وردی سمیت صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو پرویز الٰہی روزانہ بیان دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ہزار بار مشرف کو وردی سمیت ووٹ دیں گے لیکن جونہی مشرف کو وردی سمیت زوال آیا تو وہ آنکھیں بند کرکے زرداری کی گود میں جاکر بیٹھ گئے نہ صرف یہ بلکہ اپنے نئے نائب وزیراعظم کا عہدہ بھی تخلیق کروایا جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی چوہدری خاندان کی سیاست ہمیشہ آمروں کی مرہون منت رہی ہے مرحوم چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے سفر کا آغاز ایوب خان کے ساتھ کیا تھا 1960 کی دہائی میں ایوب خان نے میاں افتخارالدین کے اخبارات پاکستان ٹائمز امروز اور ہفتہ وار لیل و نہار کو بحق سرکار ضبط کرکے چوہدری ظہور الٰہی کے حوالے کیا تھا بھٹو کے دور میں البتہ چوہدری کی ان سے نہ بنی اور انہوں نے ضیاء الحق سے یارانہ کرلیا وہ پی این اے کی تحریک کے دوران روزان پردباؤ ڈالتے تھے کہ وہ مارشل لاء لگا کر بھٹو کو کیفر کردار تک پہنچا دیں اور جب ضیاء الحق نے جس قلم سے بھٹو کی پھانسی کی توثیق کی وہ قلم چوہدری صاحب نے ان سے مانگ لیا کہ یہ قلم متبرک ہے۔
بھٹو نے چوہدری ظہور الٰہی کو گرفتار کرکے کوہلو بھیج دیا تھا نواب شہید کے مطابق جب وہ گورنر تھے تو بھٹو نے ان سے کہا تھا کہ ظہور الٰہی کو کشمور لاکر ٹرین کے ذریعے پنجاب بھیجا جائے اگر ان کا راستے میں کام تمام ہوجائے تو اچھا ہوگا نواب کے بقول انہوں نے اپنی ذاتی سیکورٹی میں بہ حفاظت چوہدری کو پنجاب پہنچایا تھا ان کے فرزند چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ اس احسان کو تسلیم کیا لیکن افسوس کہ جب آمرمشرف نے نواب صاحب کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو چوہدری کوئی کردار ادا نہ کرسکے اور نہ ہی ان کی شہادت کے بعد ق لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دیا جو دراصل جنرل مشرف کی پارٹی تھی وہ مشرف کے زوال تک ان سے چمٹے رہے پنجاب کی سیاست ہمیشہ کرسی اور اقتدار کے گرد گھومتی ہے۔
ایک مرتبہ مرحوم حبیب جالب نے کہا کہ میں نے پنجاب کو جگانے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہا کیونکہ میں اپوزیشن میں اکیلا تھا اتنے بڑے پنجاب میں اپوزیشن صرف حبیب جالب پر مشتمل تھی آج بھی پنجاب میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔
ن لیگ دوبارہ اقتدار کے حصول کیلئے ڈرامے کررہی ہے وہ سڑکوں پر آکر حکومت کی مخالفت کرنے کی تاب نہیں رکھتی جب مشرف نے شریف خاندان کو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا تھا تو سارے خاندان نے اجتماعی معافی نامہ لکھ کردیا تھا اور جان کی امان پاکر سعودی عرب جلاوطن ہوگیا تھا۔
ایسے وقت میں جبکہ عمران خان کی حکومت دوسال پورے کرنے جارہی ہے حالات اتنے خراب ہیں کہ اپوزیشن چاہے تو سڑکوں پر اس حکومت کا خاتمہ کرسکتی ہے لیکن ن لیگ ”شارٹ کٹ“ کے آسرے میں ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ واحد متبادل وہی ہے اور سلیکٹڈ اپنے موجودہ انتخاب سے دلبرداشتہ ہوکر ضرور اسے ایک اور موقع دیں گے۔
اکیلے مولانا تو کچھ نہیں کرسکتے ان کی پہلی کوشش ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی جبکہ مستقبل میں بھی ان دونوں جماعتوں کا کوئی اعتبار نہیں کہ وہ کب کمپرومائز کریں اور دونوں کو بیچ چوراہے میں چھوڑ کر چلے جائیں۔
طویل عرصہ سے برسر اقتدار رہنے والی یہ جماعتیں کسی اصول اور ضابطے کی پابند نہیں ہیں انہیں بس کرسی چاہئے چاہے اللہ دے یا کوئی اور اگر وہ ایک مرتبہ دل گردہ بڑا کرکے اللہ ہو کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑتیں تو پاکستانی اداروں اور جمہوریت کا وہ حال نہ ہوتا جو اس وقت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں