آخری کوشش اور وحدانی نظام

تحریر: انور ساجدی
ایس آئی ایف سی فوج کا قائم کردہ ادارہ ہے اور جس کا مقصد بیرونی سرمایہ لانا اور ایسے منصوبے شروع کرنا ہے تاکہ پاکستان موجودہ بدترین معاشی بحران سے باہر نکل آئے۔گو کہ ادارہ کی ایپکس کمیٹی کا بظاہر سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے لیکن ان کا عملی کردار ایک بھاشن دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا جیسے کہ دو روز قبل کمیٹی کے اجلاس میں شہبازشریف نے ایک لمبا چوڑا بے ربط بھاشن دیا اور انہیں خود بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ادارہ کی ایک ایگزیکٹو کمیٹی ہے اس کے ظاہری سربراہ بھی وفاقی وزیر پلاننگ و منصوبہ بندی ہیں لیکن اصل کردار وہ اعلیٰ اہل کار ادا کریں گے جن کو فوج نے متعین کیا ہوتا ہے۔اگر ہمارے موجودہ وزیر صاحب احسن اقبال میں کوئی صلاحیت ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔وہ گزشتہ ادوار میں بھی اسی عہدے پر جلوہ افروز تھے۔تیسری کمیٹی عمل درآمد سے متعلق ہے کیونکہ پاکستان کی جو بیورو کریسی ہے وہ کالونی دور کی تربیت میں چلتی ہے اس لئے ہر کام میں رکاوٹ ڈال کر اکثرو بیشتر منصوبوں کو ناکام بنانا ہوتا ہے چنانچہ عمل درآمد کمیٹی خالصتاً اعلیٰ فوجی اہلکاروں پر مشتمل ہوگی تاکہ ایس آئی ایف سی کے تحت جو بھی منصوبے بنیں گے ان میں تاخیر نہ ہو ورنہ کوئی سرمایہ کار نہیں آئے گا۔ہمارے موجودہ حکمرانوں نے اپنی ساری توقعات نئے ادارے سے وابستہ کررکھی ہیں اور وہ اس ادارے کو گیم چینجر کا نام دے رہے ہیں سابق حکمرانوں نے سی پیک کو بھی گیم چینجر کا نام دیا تھا لیکن ناقص پالیسیوں اور دوغلے پن کی وجہ سے سی پیک کا پروجیکٹ بری طرح ناکام ہوگیا ہے جسے فیز ٹو کے نام سے دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی ایف سی سے توقعات اپنی جگہ لیکن کوئی ٹھوس ضمانت نہیں کہ یہ بیرونی سرمایہ لانے اور مفید منصوبے شروع کرنے میں کامیابی حاصل کرے بعض مبصرین اس ادارے کو ایوب خان کے بی ڈی نظام ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ اور جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام جیسا سسٹم قرار دیتے ہیں۔ایوب خان نے1962 کے آئین کی بنیاد بی ڈی سسٹم پر رکھی تھی اور اسے الیکٹورل کالج قرار دے کر خود کو صدر منتخب کروایا تھا لیکن1969 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے ان کا تختہ الٹ کر خود کو کسی انتخاب کے بغیر صدر اور مارشل لاءایڈمنسٹریٹر قرار دیا تھا۔ ایوب خان 1958سے1968 تک برسراقتدار رہے۔ان کے دور میں کچھ صنعتی ترقی ہوئی ٹیکسٹائل ملز لگیں اور سالانہ شرح ترقی 6فیصد تک چلی گئی لیکن چونکہ ان کا سیاسی نظام ناکام تھا وہ جعلی صدر تھے اور ان کا بی ڈی سسٹم ڈھکوسلہ تھا اس لئے ان کے جانے کے ساتھ ہی سارا سسٹم مٹی کی کچی دیوار کی طرح زمین بوس ہوگیا۔ اگرچہ یحییٰ خان نے کوئی نیا نظام نہیں دیا البتہ انہوں نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر ضرور دیا اور پاکستان کی تاریخ کے پہلے شفاف انتخابات کروائے جن کے نتائج ماننے سے انکار کر کے انہوں نے اپنی ریاست کو دولخت کر دیا۔بھٹو صاحب نے اگرچہ ایک آئین دیا تمام جمہوری ادارے قائم کئے لیکن سقوط مشرقی پاکستان کا غم بھلانے کے لئے انہوں نے ہاﺅ ہو اور ہوجمالو والا نظام دیا جس سے ملک کی سیاست تبدیل ہوگئی۔بھٹو کے بعد ضیاءالحق نے آ کر شورائی نظام دیا اور ملک بھر سے ایسے گمنام افراد اس میں جمع کر دئیے جن کی اس سے پہلے کوئی شناخت نہیں تھی۔انہوں نے غیر جماعتی انتخابات بھی متعارف کروائے لیکن یہ نظام بھی برقراہ نہ رہ سکا۔ضیاءالحق کے ورثہ کو برقرار رکھنے کے لئے اس وقت کے فوجی زعماءنے نوازشریف کی متبادل قیادت قائم کی جسے فوجی بٹھیوں میں ڈال کر کندن بنادیا۔وقت حالات اور پنجاب کے فضیلت یاب ڈومیسائل نے انہیں ایک سیاسی بت بنا دیا اور کافی سارے لوگ ان کی پوجا کرنے لگے۔اگر دیکھا جائے تو جنرل ضیاءالحق کے جانشین کے طور پر اس ملک کی سیاسی و معاشی تباہی میں نوازشریف کا کردار ناقابل فراموش ہے۔انہوں نے اپنے دو ادوار میں آئی پی پی ایز کے مہنگے پلانٹ لگوا کر اور ان کی من مانی شرائط مان کر معیشت کی پیٹھ میں ایسا چھرا گھونپا کہ ملک کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔نوازشریف نے2007 میں لندن میں بے نظیر کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ فوجی حکمرانی کی راہ ہموار نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنی خدمات پیش کریں گے لیکن بے نظیر کے قتل کے بعد زرداری کی جو حکومت قائم ہوئی نوازشریف نے ایک بار پھر اپنا کندھا آگے کر دیا۔میمو گیٹ کے جھوٹے اسکینڈل میں نوازشریف جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی ایما پر مدعی بن گئے اور زندگی میں پہلی مرتبہ کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے یہ میثاق جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل تھی جو نوازشریف نے ٹھونک دی۔بہرحال ماضی تو گزشتہ ہے اصل بات یہ ہے کہ تمام حکمرانوں کی نااہلی ناقص پالیسیوں اور کرپشن کی وجہ سے آج عملی طور پر پاکستان دیوالیہ ہوگیا ہے۔اگر امریکی مداخلت سے آئی ایم ایف شہبازشریف کے16 ماہ کی حکومت کے دوران پیکیج نہ دیتا تو پاکستان کو ڈیفالٹ کرنا پڑتا اب جبکہ ملک کو بچانے کی ایک کوشش ہورہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور دوست ممالک کو راغب کیا جا رہا ہے کہ وہ یہاں آکر سرمایہ لگائیں تو ابھی تک کوئی خاص رسپانس نہیں دکھائی دے رہا ہے۔حتیٰ کہ پی آئی اے سمیت اہم اداروں کی نجکاری کا عمل بھی ناکامی سے دوچار ہے۔غیر ملکی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ جس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہوں وہ ان کا سرمایہ کیسے واپس لوٹائیں گے۔اس وقت جو9ارب ڈالر کا زرمبادلہ ہے اس میں سے آدھے دوست ممالک نے عارضی طور پررکھے ہوئے ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کردیں لیکن اس سے کیا ہوگا؟ رواں سال جو قرضے لوٹانے ہیں ان کا بندوبست کہاں سے ہوگا؟۔حکمران اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پاکستان کا انتظامی معاشی اور ریاستی ڈھانچہ گل سڑ کر ناکارہ ہوچکا ہے۔بار بار کی مداخلت ہر بار جعلی انتخابات کے انعقاد اور ہائبرڈ حکومتیں مسلط کرنے کی وجہ سے اصلاح احوال کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔مقتدرہ کے کیا کہنے کہ ایک سیٹ والی جماعت پی ٹی آئی کو2018 میں پورا اقتدار سونپ دیا۔ابھی چار سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ اسے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دیا۔عمران خان کو لانے کے لئے دھتکاری گئی جماعت ن لیگ کے لئے8 فروری کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی۔بھلا ایک غیر نمائندہ جعلی حکومت ملک کو اتنے بڑے بحرانوں سے کیسے نکال سکتی ہے؟۔جہاں تک ایف آئی ایف سی کا تعلق ہے تو یہ آخری کوشش ہے یہ ایسا اقدام ہے جسے سافٹ ٹیک اوور کا نام بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا دائرہ کار وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں تک ہے۔90 فیصد شعبے ایسے ہیں جن کا تعلق صوبوں سے ہے۔ان میں زراعت زمینیں ،صحت،تعلیم اور صنعتیںہیں۔1973 کے آئین کی موجودگی اور18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں مداخلت کی کہاں تک آئینی گنجائش ہوگی؟۔اس کا کوئی جواب نہیں البتہ وزرائے اعلیٰ سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ تعاون کریں ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔نئے نظام کے تحت وزیراعظم ایک نمائشی عہدہ بن کر رہ گیا ہے اور وزرائے اعلیٰ کا کام بھی محض سپر ویژن یا نگرانی کا ہوگا۔ کوشش ہوگی کہ رفتہ رفتہ تمام معاملات یعنی ترقی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری ایک ہی ادارہ دیکھے اگر آگے بڑھنا ہے تو پہلے سیاسی اختلافات کو کم کر کے ملک میں معاشی وسیاسی استحکام لانا ہوگا۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو وحدانی طرز حکومت یا ون یونٹ کا قیام ممکن نہ ہوگا کیونکہ ایس آئی ایف سی ایک ملک گیر ادارہ ہے جس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ عملی طورپر ملک کو وحدانی نظام کے تحت چلایا جائے ۔ہے تو یہ مشکل کام لیکن سیاست دان کمپرومائز کر کے غیر اعلانیہ طور پر وحدانی طرز کی حمایت کریں گے تاکہ کوئی مشکل پیدا نہ ہو ورنہ صوبائی وسائل کو وفاقی کنٹرول میں لینا آئینی طورپر درست نہیں ہے جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے صوبوں کے وسائل کو استعمال کرنا ناگزیر ہے کیونکہ وفاق کے اپنے وسائل بہت محدود ہیں۔

نواز شریف کی ایک اور اننگ
تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم مسلم لیگ ن کے بانی اور سپریم لیڈر میاں نوازشریف آج28مئی کو ایک بار پھر پارٹی صدارت سنبھالیں گے۔پارٹی اعلامیہ کے مطابق نوازشریف نے28مئی 1998ءکے تناظر میں پارٹی قیادت کو دوبارہ سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے جو ان کے بقول یوم تکبیر ہے۔28 مئی وہ دن ہے جب پاکستان نے راسکوہ کے پہاڑ میں یکے بعد دیگرے6ایٹمی دھماکے کئے۔ن لیگ کے لئے تو یہ یوم تکبیر ہوگا لیکن اس وقت کی حکومت نے بلوچ گلزمین کو ایٹمی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں