کچھ دل کی باتیں

تحریر : انور ساجدی
گدان یوٹیوب چینل کو میںنے اب تک تین انٹرویو دیئے ہیں دو انٹرویو میں شمس نے اپنے دل کی بات مجھ سے منسوب کرکے پیش کردی ایک سابقہ انٹرویو میں انہوں نے واجہ جان محمد دشتی کے بارے میں ایک سوال پوچھا اور ہوتمان کا ذکر کیا۔ اس نے الفاظ مجھ سے منسوب کردیئے ۔شاباش ہے کہ جان دشتی نے بظاہر کہیں ردعمل نہیں دیا۔ اسی طرح حالیہ انٹرویو میں سردار اختر جان مینگل کے بارے میں انہوں نے بات کی اور اس کا شذرہ بنا کر مجھ سے منسوب کردیا اگرچہ میں نے اس کی وضاحت کردی تھی لیکن بی این پی مینگل نے کوئی مخالفانہ مہم نہیں چلائی اس کا شکریہ، شمس الدین شمس ایک اچھے پیش کار ہیں لیکن میرے خیال میں پیشہ ور صحافی نہیں ہیں اس لئے وہ وقتاً وفوقتاً شرارت کرتے رہتے ہیں انکے نٹ کھٹ ہونے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے چینل کو دیکھیں اسکیلئے انہیں مزید محنت سے کام لینا ہوگا لیکن دیانتداری اولین شرط ہے۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت بلوچستان ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے یہاں کے لوگ بہت بڑے انسانی المیہ سے دوچار ہیں اور حالت جنگ میں ہیں ایسی فضا میں اختلافات اور اختلافی باتوں کی گنجائش کم ہے اگر اختر مینگل اخلاقی طور پر ہی سہی جدوجہد کی حمایت کررہے ہیں تو ان کا شکریہ۔ اگر ڈاکٹر مالک بلوچ بظاہر جدوجہد کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں تو ان سے بھی اظہار تشکر!کیونکہ بلوچستان کی روایات ہیںکہ ذاتی احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ہاں جو سرخ لکیر ہے وہ واضح ہے کہ کون کس طرف کھڑا ہے حالیہ اپرائزنگ کے دوران ”روزنامہ انتخاب“ کے اشتہارات بند کردیئے گئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ 1988ءسے اب تک یہ عمل متعدد بار دہرایا جاچکا ہے۔1988ءمیں جب جام غلام قادر کی حکومت تھی تو اس کا ڈیکلیئریشن منسوخ کردیا گیا اسی سال جب میر ظفراللہ خان جمالی کچھ عرصہ کےلئے وزیراعلیٰ بن گئے تو انہوں نے ڈیکلیئریشن بحال کردیا۔ نواب شہید جب وزیراعلیٰ ہوئے تو پیپلز پارٹی سے ان کے شدید اختلافات چل رہے تھے انہوں نے بلوچستان میں پیپلز پروگرام پر پابندی عائد کردی تھی اور پروگرام کی گاڑیاں ضبط کی تھیں۔ صحافیوں کی اسلام آباد میں بے نظیر سے ملاقات میں انہوں نے پوچھا تھا کہ آپ کب اخبار شروع کررہے ہیں محترمہ نے کہا کہ میںخود افتتاح کرنے آؤنگی لیکن مجھے پتہ تھا کہ نواب صاحب نہیں مانیں گے اس لئے میں نے نواب صاحب کو دعوت دی اور وہ جب تشریف لائے ابتدائی چند ماہ میں سرکار نے کوئی اشتہار جاری نہیں کیا تاہم بعدازاں نواب صاحب نے اس کا حکم دیا گزشتہ چند دنوں میں جو قصے کہانیاں دوستوں نے لکھیں تو انہوں نے کہا کہ انتخاب نواب صاحب کی حمایت اور مدد سے جاری ہوا۔ کوئی شک نہیں کہ نواب صاحب نے حد سے بڑھ کر اخلاقی مدد کی لیکن اس میں قطعی طور پر کوئی مالی تعاون شامل نہیں تھا ۔نواب صاحب بہت بڑے آدمی تھے اور ہم لوگ عام سے انسان اور ادنیٰ لوگ تھے لیکن ہمارے درمیان کبھی مالی معاملہ درمیان میں نہیں آیا۔1998ءمیں جب راسکوہ میں ایٹمی دھماکہ ہوا تو انتخاب نے اسکی بھرپور مخالفت کی جس پر اسکے اشتہارات بند کردیئے گئے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب نواب ثناءاللہ وزیراعلیٰ تھے تو بھی انتخاب پر اشتہارات کی بندش لگائی گئی اسکی وجہ انتخاب کی پالیسی تھی۔ برسوں بیت گئے لیکن یہ ناانصافی برقرار ہے۔ چند ہفتہ قبل پیپلزپارٹی کی بلوچستان حکومت نے ایک بار پھر اس پابندی کا اعادہ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ انتخاب کبھی حکومتوں کی توقعات پر پورا نہیں اترا ۔نواب صاحب کی شہادت ہو یا میر غلام محمد اور ساتھیوں کا قتل ہو اس نے ہمیشہ آواز بلند کی ۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن اب وقت بدل چکا ہے پرنٹ میڈیا کی وہ شان شوکت باقی نہیں رہی۔ ایک وجہ تو ٹیکنالوجی ہے دوسری وجہ آزاد ی اظہار پر قدغن ہے اگر پرنٹ میڈیا کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو ایسا مواد موجود ہے لوگ ہاتھوں ہاتھ اسکی پذیرائی کریں لیکن بدقسمتی سے نواز شریف کی آخری حکومت سے لےکر عمران خان اور اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت نے ایسی قانون سازی کی ہے کہ آزادی اظہار ایک خواب بن کے رہ گیا ہے روز بروز حالات دگردوں ہورہے ہیں۔ پیکا عدالتوںنے صحافیوں کو سزا دینا شروع کردیں یا پنجاب کے ہتک عزت قانون پر عمل درآمد شروع ہوگیا تو آزاد میڈیا بلکہ نیم آزاد میڈیا کی گنجائش بھی باقی نہیں رہے گی وقت سے پہلے تمام مین اسٹریم میڈیا گروپوں نے سرنڈر کر دیا ہے۔روزنامہ ڈان اب بھی ہاتھ پیر مار رہا ہے۔وہ حساس خبریں بھی دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے اداتی صفحات پر بے لاگ مضامین تبصرے اور ادارئیے شائع ہو رہے ہیں۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے بے لگام سوشل میڈیا نے ذمہ دارانہ صحافت کی جگہ لے لی ہے لیکن اس کا بھی بندوبست ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا پر بندش یا اسے قابو میں لانے کے لئے فائر وال کی آزمائش شروع ہوچکی ہے۔جس طرح حال ہی میں بنگلہ دیش نے انٹرنیٹ کے تمام ایپس پر پابندی لگا دی ہے یہاں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ظاہر ہے کہ کمزور میڈیا تو ریاست یا اس کے طاقتور اداروں سے نہیں لڑ سکتا۔البتہ فیک نیوز اور افواہوں کی وجہ سے حکومتوں کے لئے بے شمار مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن سے نئے مسائل جنم لیں گے یا مختلف علاقوں میں حکومت کی جو کارروائیاں ہیں ان کے بارے میں غلط اور فیک نیوز پھیلائی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم بے شمار حکومت مخالف وی لاگر ایسے پروگرام بنا کر کسی تیسرے ذرائع سے پھیلا سکتے ہیں کیونکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو روکنا ناممکن ہے۔ اگر روس ،چین اور شمالی کوریا کی طرح سوشل میڈیا پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے اور اسکی جگہ متبادل ریاستی نظام تشکیل دیا جائے تو یہ اقدام کارگر ہو سکتا ہے لیکن پھر سوالات اٹھیں گے کہ یہ کیا ریاست ہے اس کا وفاقی آئین نافذ ہے۔پارلیمنٹ موجود ہے صوبائی اسمبلیاں بھی ہیں آئین میں آزادی اظہار کی مکمل گارنٹی دی گئی ہے اس کے باوجود یہاں آزاد میڈیا وجود نہیں رکھتا۔اس صورتحال سے دنیا بھر میں ریاست کی سبکی ہوگی اور کوئی اچھا مسیج نہیں جائے گا۔انڈیا اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں 90 کروڑ ووٹر ہیں لیکن جب سے نریندر مودی آئے ہیں وہ آزاد میڈیا کے خلاف کمربستہ ہوگئے ہیں حالیہ انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے الزام لگایا کہ مودی کے پارنٹر گوتم اڈانی نے کافی چینل اور اخبارات خرید لئے ہیں تاکہ آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا جا سکے۔مودی عمران خان ٹائپ کے ڈکٹیٹر ہیں ان کی پریس کانفرسوں میں ایسے صحافیوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو صحافتی اقدار کے منافی تعریفی کلمات کہیں اور ایسے سوالات کریں جو مودی کی طبیعت پر ناگوار نہ گزریں حالانکہ فرقہ وارانہ نفرت کے سوا مودی کی اور کوئی کمزوری نہیں ہے۔اس کے باوجود وہ آزاد میڈیا سے کیوں ہراساں اور پریشان ہوتے ہیں حالانکہ مودی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں انڈیا ترقی کر کے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے اور اس نے جزائر انڈیمان میں تیل نکالنے کے لئے کھدائی شروع کر دی ہے۔ماضی بعید میں جزائر انڈیمان کو کالا پانی کہا جاتا تھا اور یہاں پر انگریز مخالفین کو قید رکھا جاتا تھا۔یہ جزائر انڈیا سے کئی ہزار کلو میٹر دور ہیں اور تھائی لینڈ اور ملائیشیا کے درمیان میں واقع ہے۔اگر کالا پانی میں تیل کے وسیع ذخائر مل گئے تو محض پانچ سال کے عرصہ میں انڈیا کی معیشت جاپان کی جگہ لے لے گی۔اس ترقی کے باوجود مودی جو کہ عام چائے فروش ہے وہ آمرانہ اور جابرانہ کارروائیوں پر یقین رکھتے ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہاں پر کل کیا ہوگا۔8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں یہاں پر ایک اور ہائبرڈ رجیم بٹھائی گئی جو بری طرح ناکام ہے اور یہ قرضوں کے جال میں پھنس چکی ہے۔اس حکومت میں یہ صلاحیت نہیں کہ آئی پی پی ایز کا مسئلہ حل کرے۔پختونخواہ اور بلوچستان کے مسائل کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرے۔ کہنے کی حد تک دو صوبوں یعنی سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن لگتا نہیں کہ یہاں پر واقعی میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے۔یہ بلوچستان میں پارنٹرشپ میں ہے لیکن سندھ میں تو اس کی مکمل اکثریت ہے لیکن یہاں پر بھی پیپلزپارٹی کی روایتی جھلک نظر نہیں آتی اس جماعت نے1973 میں بلوچستان میں آپریشن شروع کیا تھا اور اس کے دور میں مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں تھیں لیکن اس کے حالیہ تیور کچھ الگ ہیں۔کراچی میں بلوچ خواتین کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے جیسے کہ اسلام آباد میں روا رکھا گیا تھا۔اس نے اپنے منشور اور بنیادی انسانی حقوق کے پروگرام کو ترک کر دیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔حالانکہ پیپلز پارٹی ن لیگ کی ناکام حکومت کا حصہ ہے اور آنے والے دنوں میں معاشی اور سلامتی کے بڑے بڑے معاملات سر اٹھانے والے ہیں۔ اگر ن لیگ ڈوب رہی ہے تو پیپلزپارٹی بھی ڈوب جائے گی کیونکہ دونوں حکومت شریک ہیں۔ان کی ایک آزمائش جلد عدلیہ کی طرف سے آئے گی۔دوسری بڑی آزمائش نومبر میں جنم لے گی۔نومبر تو بہت دورہے۔ معلوم نہیں کہ یہ حکومت نومبر تک پہنچے گی کہ نہیں۔اگر پہنچ گئی تو معلق رہے گی۔پیپلزپارٹی کو یہ سمجھ نہیں کہ کراچی میں جو اس کے ووٹر ہیں ان ساتھ دشمنوں کا سا سلوک نہ کیا جائے ورنہ یہ کہیں کی نہیں رہے گی۔کراچی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے جس کا ادراک پارٹی قیادت کو نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں