بنگلہ دیش ماڈل ڈوب گیا

تحریر: انور ساجدی
بنگلہ دیش ماڈل ڈوب گیا۔حسینہ واجد کو عوامی تحریک کے نام پر ان کے رشتہ دار جنرل وقار الزمان نے معزول کر دیا البتہ ان کی مہربانی کہ انہوں نے محفوظ راستہ اور ہیلی کاپٹر دے کر بھارت فرار کروا دیا۔طلباءکی جو تحریک تھی اس کا نتیجہ فوج کے حق میں نکلا جیسے کہ1977 کو بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کا نتیجہ جنرل ضیاءالحق کے حق میں نکلا تھا۔شیخ حسینہ کے فرار کے بعد جو فوجی ٹینکوں میں سوار تھے انہوں نے بلوائیوں کے ساتھ مل کر فتح کا نشان بنایا۔مشتعل ہجوم نے حسینہ کے گھر پر اس طرح حملہ کیا جس طرح2023 کو 9مئی کے واقعات کے دوران لوگوں نے کورکمانڈر لاہور کے گھر پر کیا تھا۔اسی طرح کی لوٹ مار ہوئی حتیٰ کہ بلوائیوں نے شیخ حسینہ واجد کے انڈرگارمنٹ کی نمائش کی۔جو حشر بنگلہ بندو کا ہوا ان کی بیٹی کا وہ حشر نہیں ہوا کیونکہ ان کی جان سلامت ہے۔ البتہ ان کے عروج اور اقتدار کا سورج غروب ہوگیا اور شاید دوبارہ طلوع نہ ہو۔اقتدار کے آخری روز آرمی چیف نے ان پر استعفیٰ دینے کےلئے دباؤ ڈالا حسینہ نے آخری خواہش ظاہر کی کہ انہیں قوم سے خطاب کا موقع دیا جائے لیکن آرمی چیف نے کہا کہ اس کا نہ وقت ہے اور نہ ہی گنجائش۔ ایک گھنٹے بعد حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔اسی دوران ہیلی کاپٹر آیا اور حسینہ واجد خالی ہاتھ تن کے کپڑوں کے ساتھ بھارت روانہ ہو گئیں۔بھارت میں ان کا ہیلی کاپٹر مغربی بنگال کے مشہور مقام اگرتلہ میں اترا۔اگرتلہ وہی مقام ہے جب ایوب خان نے الزام لگایا تھا کہ شیخ مجیب نے وہاں پر مشرقی پاکستان کے الگ کرنے کی سازش تیار کی تھی چنانچہ ان کے خلاف اگرتلہ سازش کیس کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا گیا لیکن ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک شروع ہونے کے بعد خود ایوب خان نے یہ کیس ختم کر دیا اور شیخ مجیب کو راولپنڈی میں ہونے والی سیاسی رہنماؤں کی گول میز کانفرنس میں مدعو کیا۔بنگال کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے لوگ بڑے ہی آتشیں مزاج کے ثابت ہوئے ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے یہاں قدم رکھا تھا۔دریائے سہگلی کے کنارے اس نے نئی کالونی قائم کی تھی اس کے بعد مرشد آباد صدر مقام بنا اس کی وجہ بد نام زمانہ غدار میر جعفر تھے۔1757 کی جنگ پلاسی کے بعد جس میں انگریزوں نے میر جعفر کی غداری کے باعث نواب سراج الدولہ کو شکست دی تھی انہوں نے کلکتہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔مرشد آباد میں میر جعفر کا محل آج بھی کھنڈرات کی صورت میں موجود ہے اور لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔انگریزوں کا جب بنگال پر قبضہ ہوا تو یہ بہت بڑا صوبہ تھا۔اس میں سارا متحدہ بنگال آسام اور اڑیسہ بھی شامل تھے۔انگریزوں نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جبکہ آسام اور اڑیسہ کو اس سے الگ کر دیا۔مشرقی بنگال کے لوگ زیادہ مذہبی اور انتہا پسند تھے انہوں نے1906 میں ڈھاکہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی اگرچہ نواب سلیم اللہ نسلی اعتبار سے بنگالی نہیں تھے لیکن انگریزوں کے بڑے وفادار تھے۔مسلم لیگ کا جو منشور تیار ہوا اس کا پہلا نقطہ تھا کہ
ہندکے مسلمانوں کو انگریزوں کی وفاداری پر راغب کرنا
ہندوستان کے مسلمان رہنماؤں نے تمام عمر منشور کے اس نقطہ پر بڑی محنت کے ساتھ عمل درآمد کیا۔مسلم لیگ نے 1937 میں جب جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا تو اس میں مشرقی بنگال کے لوگ پیش پیش تھے۔1946 میں سہروردی کی حکومت یہاں بنی تھی۔ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک مشرقی بنگال نے چلائی تھی اور پاکستان کا قیام ان کی مرہون منت ہے لیکن جب ہندوستان تقسیم ہوا بنگالی خالی دست رہ گئے۔سب کچھ مغربی پاکستان کے ہاتھ لگا جس نے آزادی کی تحریک میں سرے سے حصہ نہیں لیا تھا۔آزادی کے بعد بنگالی رہنماؤں نے بغاوت کا آغاز کیا تھا۔منٹو پارک میں قرارداد لاہور پیش کرنے والے شیربنگال مولوی اے اے کے فضل الحق نے جگتو فرنٹ بنا کر اپنی حکومت بنائی لیکن مرکز نے مولوی صاحب کو غدار قرار دے کر ان کی حکومت برطرف کر دی۔نہ صرف یہ بلکہ بنگال کے پہلے اورآخری وزیراعظم حسین سہروردی کو بھی برطرف کر دیا گیا خواجہ ناظم الدین کا بھی برا حشر کر دیا گیا۔انہی ناانصافیوں کی وجہ سے بنگالی ملک سے متنفر ہوگئے اور انہوں نے 1971 میں علیحدگی اختیار کرلی۔ 1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب کو اقتدار دینے سے انکار کیا گیا۔انہیں گرفتار کر کے میانوالی جیل میں قید رکھا گیا سقوط ڈھاکہ کے بعد یحییٰ خان کا پکا پروگرام تھا کہ شیخ مجیب کو تختہ دار پر لٹکایا جائے لیکن 20 دسمبر1971 کو فوجی جرنیلوں نے بھٹو کو روم سے بلا کر صدر اور مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بنا دیا جس کی وجہ سے شیخ مجیب کی پھانسی کا مسئلہ ٹل گیا۔1972 کو بھٹونے مجیب کو رہا کر کے لندن بھیجا جہاں سے وہ ڈھاکہ چلے گئے اور ملک کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن محض تین سال بعد ملک کے کمزور جرنیلوں نے پانچ بار حکومتوں بلکہ ایک دوسرے کا تختہ الٹا اور آخر میں شیخ مجیب کوخاندان سمیت قتل کر دیاگیا۔ ان کی دونوں صاحبزادیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ اس لئے بچ گئی تھیں کہ وہ ملک سے باہر تھیں۔جنرل ضیاءکی اہلیہ خالدہ ضیاءکافی عرصہ تک برسراقتدار میں رہیں لیکن پھر شیخ حسینہ واجد چھا گئیں وہ 15 برس تک برسراقتدار رہیں۔انہوں نے تمام مخالفین کو ٹھکانے لگا دیا۔جماعت اسلامی کے19 سینئر رہنماؤں کو1971 میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر پھانسی پر لٹکا دیا جبکہ اپنے تئیں ایک مضبوط آمریت کی بنیاد رکھی۔آخری انتخابات میں انہوں نے تمام مخالف جماعتوں پر پابندی لگا دی اور اکیلے عوامی لیگ کی جیت کا اعلان کیا۔انہوں نے1971 کی جنگ میں حصہ لینے والے رضا کاروں کے بچوں کےلئے ملازمتوں ،یونیورسٹیوں میں کوٹہ مختص کرنے کا اعلان کیا جو حالیہ تحریک کی بنیاد بنا۔شیخ حسینہ اپنے اقتدار کی مضبوطی کےلئے فوج سمیت تمام اداروں کو ایک پیج پر لائی تھیں انہوں نے اپنے عزیز وقارالزمان کو آرمی چیف تعینات کر دیا لیکن طلباءکی تحریک کے دوران فوج نے شیخ حسینہ کا ساتھ چھوڑ دیا۔رشتہ داری کام نہ آئی چنانچہ آرمی چیف نے سارا کنٹرول سنبھال لیا۔بظاہر نوبل انعام یافتہ ”میکرو اکانومک“اصطلاح کے موجد ڈاکٹر محمد یونس کو عبوری وزیراعظم بنایا جا رہا ہے لیکن وہ محض شو بوائے ہوں گے معلوم نہیں کہ کب الیکشن ہوں گے اگر ہوئے تو انجینئرڈ ہوں گے اور ایک ہائی برڈ رجیم مسلط کی جائے گی۔اس اقدام کا وہی نتیجہ نکلے گا جو پاکستان میں نکلا ہے۔ حسینہ واجد کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی ناکام ریاست کو کامیاب بنایا اور اس کی معیشت کو کئی پڑوسی ممالک سے بہتر بنایا لیکن لگتا ہے کہ نئے تجربات کے بعد بنگلہ دیش سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔معیشت کی اٹھان بیٹھ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ کچھ عرصہ بعد یہ ریاست خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔شیخ حسینہ کو اگرچہ انڈیا میں عارضی پناہ دی گئی ہے لیکن اس نے انگلینڈ میں پناہ کی درخواست دی ہے جو برطانیہ کی حکومت منظور کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے جب وقت مخالف ہو جائے تو کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا۔بھارت نے اگرچہ شیخ حسینہ کو اپنے ملک آنے دیا لیکن ان کی آمد پر انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا انہیں ایک ائیربیس میں عام لوگوں کی طرح رکھا گیا گویا جو لیڈر اپنے عوام کی نظروں سے گر جائیں وہ اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں شیخ حسینہ کے زوال پرخوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بعض لوگ بنگلہ دیش جیسے حالات کی پیشنگوئی کر رہے ہیں لیکن یہ تقابل درست نہیں ہے پاکستان کے لوگ اور سیاسی جماعتیں تقسیم ہیں وہ کسی ایک نکتہ پر متحد نہیں ہیں حتیٰ کہ سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف بھی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔جماعت اسلامی بھی ایسی تحریک چلانے سے گریزاں ہے جس سے حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کا خطرہ ہو۔عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر برائے نام دھرنا دے کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ صورتحال ایک تحریک شروع کرنے کے لئے ہموار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں