جام کمال مستحکم ہے۔۔۔۔۔

رشید بلوچ
جب سے جام حکوت وجود میں آئی ہے ہر دو تین ماہ بعد انکی اپنی جماعت اور اپوزیشن پارٹیاں حکومت گرانے کا عندیہ دیتی رہی ہے لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر سے آگے نہیں بڑھا ہے،جام کمال کے وزارت اعلی کا منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر قدوس بزنجو نے باقاعدہ حکومت گرانے کی مہم شروع کردی تھی لیکن یہ مہم بہت جلد خاموش کرا دی گئی، بلوچستان عوامی پارٹی کے جو لوگ اس مہم جوئی میں شریک رہے تھے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہوگئے اسکے بعد میر قدوس بزنجو کے آس پاس صرف میر سرفراز ڈومکی نظر آرہے تھے لیکن انہیں بھی اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا،وزارت سے نکل جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے میں کسی کو دیکھائی نہیں دے رہے حالانکہ میر قدوس بزنجو کا ہمیشہ سے دعوی رہا ہے کہ اکثریت انکے ساتھ ہے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اکثریتی اراکین اتنے کمزور نکلے کہ اپنے ساتھی کی وزارت بھی نہ بچا سکے،جب سے وزیر اعلی انسپیکشن ٹیم نے آوران سے 10 سالوں کی ترقیاتی اسکیموں کا پنڈورا بکس اٹھا لائے ہیں اسپیکر بلوچستان اسمبلی سہمے ہوئے لگتے ہیں،یہ پنڈورا بکس نیب کے زریعہ کھولا جا سکتا تھا اگر چیئرمن سینٹ کو ثالثی کیلئے بہ زبان خود بلا کر جام کمال سے صلح صفائی نہ کرائی جاتی،سی ایم آئی ٹی کی آوران میں پھرتیاں دیکھ کر باقی لوگ بھی سمجھ گئے کہ اس ٹیم کیلئے دریجی سے لیکر نصیرآ باد،جعفر آباد تک“مواد”جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں اس لیئے سب نے خاموشی میں عافیت جانی،نہ جانے کس نے جام کمال خان کو سی ایم آئی ٹی“ایکٹیو”کرنے کا مشورہ دیا ہے؟ مشورہ دینے والا جو کوئی بھی ہو لیکن وہ وزیر اعلی کا نہ صرف خیر خواہ ہے بلکہ اسکے پشت پر بھی کھڑا ہے، جس کی پشت پر“خیر خواہ“الرٹ ہوں اسے کسی بھی مہم جوسے کیا خوف؟
جام کمال کو ہٹانے کا دعوی نہ صرف انکی اپنی پارٹی کے لوگ کر رہے تھے بلکہ اپوزیشن کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً ایسے دعوے کیئے جاتے رہے ہیں،بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل،جمعیت مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا عبدالواسع کئی بار علی الاعلان بلوچستان حکومت گرانے کا اشارہ دے چکے ہیں لیکن فل وقت انہیں کامیابی ملنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے،بظاہر تو جام کمال معمولی اکثریت میں وزیر اعلی ہیں،جس طرح کے دعوے کیئے جارہے ہیں اب تک تحریک عدم اعتماد آجانی چاہیے تھی،مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی اور حکمران جماعت بی اے پی کی ناراضگی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی بلکہ وزیر خزانہ ظہور بلیدی کھلم کھلا اے این پی کو حکومت سے الگ ہونے کا بھی کہہ چکے ہیں ایک اور اتحادی جماعت ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی بھی جام کمال سے زیادہ خوش نہیں ہے،مزے کی بات تو یہ ہے کہ 25جولائی 2019کو ایوب اسٹیڈیم میں مریم نواز کے جلسے میں میاں افتخار نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جب بھی اپوزیشن چاہے گی عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان حکومت سے علیحدہ ہوجائے گی،یہ دو جماعتیں آسانی سے اپوزیشن کا ساتھ دے سکتی ہیں اور اگر ایسا ہواتو جام حکومت اپنی عددی اکثریت کھو دے گی، ایک حساب سے عوامی نیشنل پارٹی اپوزیشن کی گود میں پڑی ہے، اسکے باوجود بلوچستان کی دو بڑی اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے میں ہچکچا کیوں رہی ہیں؟ اپوزیشن کی ہچکچا نے کی پس پردہ تحریک کی ناکامی کا ڈر چھپا ہوا ہے،کہیں نہ کہیں اپوزیشن کو یہ خوف ضرور ہے کہ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حال چیئرمن سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جیسا ہوسکتا ہے، یہ ایک ایسا خوف ہے جو ثابت شدہ ہے، کہنے کو تو جام کمال انتہائی کمزور پوزیشن میں کھڑے ہیں لیکن جام کمال کو بخوبی اندازہ ہے ڈری سہمی ہوئی اپوزیشن اسکا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے،نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتمادلاتے وقت نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک دو پرزے اڑ گئے تھے،یہاں بھی اپوزیشن نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی تو خدشہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے چند پرزے الگ ہوسکتے ہیں اگر ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تو اپوزیشن کولینے کے دینے پڑ جائیں گے،بہت ساری نازک تاریں اپوزیشن کے اندر جڑی ہوئے ہیں جس کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا خوف بہرحال اپوزیشن کو ہے،
اب ایک بار پھر اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے خلاف سر گرم ہوگئی ہیں،گیلی لکڑیوں میں آگ جلانے کیلئے تیل کا بندوبست کیسے ہوگا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا،لگ ایسا رہا ہے کہ یہ سرگرمیاں ماضی کی سرگرمیوں کی طرح وقت کے ساتھ ماند پڑ جائیں گی، ،جام کمال کی حکومت جتنا کمزور دیکھ رہی ہے اندر سے کئی گنا مضبوط ہے، ویسے بھی جام کمال کو ہٹائے جانے کا کوئی منطق نظر نہیں آرہا ہے لیکن منطق تو نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت گرانے کا بھی کچھ خاص نہیں تھا لیکن پھر بھی ان کی حکومت کو گرا یا گیا ادھر جام کمال کو بوجہ ہٹانے کا منطق تراشنا بھی بیوقوفی ہوگی، اگر بل فرض جام کمال کو رخصت کرنے کا چمتکار وقوع پزیر ہو ا بھی،تب بھی تو یہ کام اپوزیشن کے بجائے بی اے پی کے اندر سے ہوگا اور نئی قیادت باپ کے اندر سے منتخب ہوگی، جام آف لسبیلہ کو ہٹا کر اسکی جگہ کسی سردار یا نواب کو وزیر اعلی نہیں بنا یا جائے گا بلکہ کسی مڈل کلاس بندے کو ترجیح دی جائیگی ،وہ بھی ایسے بندے کو جو پڑھا لکھا ہو جس میں بولنے اور مخالفین کو جواب دینے کی صلاحیت موجود ہو اور اسکا تعلق بھی مغربی بلوچستان سے ہو،ایسے میں دو نام زیر غور آسکتے ہیں،میر قدوس بزنجو یا ظہور بلیدی، ان دونوں میں سے ایک کو ممکنہ طور پر آگے لایا جاسکتا ہے،میر قدوس بزنجو کو گزشتہ دور میں مختصر مدت کیلئے قیادت سونپی گئی تھی لیکن وہ متاثر کن کردار ادا نہیں کر سکے یا ان میں قائدانہ تاثر قائم کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی،ایسی صورت میں ایک آزمودہ نسخے کو دوبارہ آزمائے جانے کے چانسز بہت ہی کم ہیں،پھر لامحالہ ظہور بلیدی بہتر آپشن ہوسکتے ہیں، میر قدوس بزنجو کے مقابلے میں ظہور بلیدی زیادہ پڑھا لکھا اور بولنے والا بندہ ہے،اس سے قبل چند حلقوں میں ڈاکٹر مالک بلوچ مکران سے تعلق اور مڈل کلاس ہونے کا بہتر چھاپ چھوڑ چکے ہیں،ظہور بلیدی کو ڈاکٹر مالک بلوچ کے متبادل کے طور دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے،یہاں ہر دو صورت ظہور بلیدی کو فوقیت حاصل ہے، لیکن ظہور بلیدی کو گردشی حالات، بدلتے ہوئے معاملات دیکھ کرواسکٹسلوانی چاہئے،۔۔۔
بلوچستان میں وزیر اعلی جام کمال سے متعلق ایک عمومی یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ بطور وزیر اعلی جام کمال کافی بہتر شخصیت ہیں انکے خلاف ان دو سالوں میں کسی قسم کی مالی بے قاعدگی،کرپشن،کمیشن کا الزام انکے مخالفین بھی نہیں لگا سکے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان دو سالوں میں جام کمال خان کوئی اہم کارنامہ بھی سر انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوئے،دوسری جانب یہ بھی ایک حقیت ہے کہ جام کمال کی ٹیم پر جام کمال کے برعکس کرپشن،کمیشن کے الزمات لگ رہے ہیں،مختلف وزارتوں میں چھوٹی موٹی نوکریاں بیچنے کے الزمات وزراء پر لگ رہے ہیں،سابق وزیر صحت کو بھی بوجہ مالی بے قاعدگیوں وزارت سے سبکدوش کیا گیا لیکن پھر بھی معاملات ٹھیک ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے، اب کچھ دن پہلے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے نے پیسوں سے بھرے بوری اٹھا کر وزیر اعلی سیکرٹریٹ پہنچے انکا موقف یہ تھا کہ اگر نوکریاں بیچنی ہیں تو ان کے حلقے کے تمام نوکریاں پیسے کے عوض انہیں دی جائیں تاکہ وہ تمام محکموں کی آسامیاں یک مشت خرید کر اپنے لوگوں کو بھرتی کر سکے،جب گڈ گورننس کی ایسی حالت ہو جہاں ایک ایم پی اے نوکریاں خریدنے کی دہائی دے رہا ہو تو پھر سربراہ کے اچھے ہونے کا تاثر بھی زائل ہوجاتا ہے،بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جام حکومت کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے،اس پہلے کہ گڈ گورننس کی صورتحال مزید بگڑتی چلی جائے وزیر اعلی جام کمال کو اپنی ٹیم پر گرفت کھسنی ہوگی

اپنا تبصرہ بھیجیں