دل کے بہلانے کویہ خیال اچھاہے

انورساجدی
لگتاہے کہ موجودہ حکومت کے پاس بیچنے کوکچھ خاص سودانہیں ہے اس لئے وہ مختلف ناٹک رچاکر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگارہی ہے 2سال پورے ہونے کے بعد حالات 10گنا بدترہیں عوام سستے آٹا اور چینی سے محروم ہیں جو زندہ رہنے کیلئے ضروری ہیں لیکن حکومت ان مسائل سے بھی جو اسکے اپنے پیداکردہ ہیں بلیم گیم کے ذریعے خود کو بری الزمہ قراردینے کی کوشش کررہی ہے اس کا سارا زورسوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے پر ہے اس پروپیگنڈے کو بڑھانے کیلئے وزارت اطلاعات میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل میڈیا ونگ قائم کردیا گیاہے لطف کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے پانچ چیدہ چیدہ افراد کو اس ونگ میں سرکاری ملازمت سے نوازدیا گیا ہے تنخواہ بھی انفارمیشن کیڈر کے افسران سے زیادہ رکھی گئی ہے روزنامہ ڈان کے مطابق پی ٹی آئی سوشل میڈیا ونگ کے ”گرو“ عمران غزالی کو محکمہ اطلاعات کے ڈیجیٹل ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے یعنی پہلے جو پروپیگنڈہ پارٹی سطح پر ہوتا تھا وہ اب سرکاری طور پر ہوگا ڈیجیٹل ونگ کی خاصیت یہ ہوگی کہ یہ پروپیگنڈے کا مواد خود تلاش کرے گا مواد کیا ہوگا گزشتہ حکومت کی خرابیاں اور اپوزیشن کی کردارکشی حالانکہ اپوزیشن اس قابل نہیں کہ اسکی کردارکشی کی جائے حکومت نے ڈرادھمکا کر قومی اسمبلی سے دوبل منظور کروالئے اور نیب کے بارے میں نہ صرف اپوزیشن کی تجاویز مسترد کردیں بلکہ وزیراعظم نے انہیں بلیک میلنگ سے تعبیر کیا اور کہا کہ اپوزیشن نیب قوانین میں ترمیم کے بدلے میں این آر او لینا چاہتی ہے گزشتہ چند دنوں میں یا جب سے رحمن ملک نے اہم ملاقات کی ہے منتشر اپوزیشن کی صفوں میں مزید دراڑیں پڑگئی ہیں بلاول اتنے سادہ ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ رحمن ملک نے کیوں ملاقات کی ہے انہوں نے سوالات سے بچنے کیلئے یہ کہا ہے کہ وہ یہ دریافت کریں گے کہ رحمن ملک نے کیوں کس لئے اور کس کی اجازت سے ملاقات کی ہے حالانکہ وہ اس بارے میں زرداری صاحب سے پوچھ لیتے تو خفت سے بچ سکتے تھے پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ ن تقسیم ہے شہبازشریف مجوزہ اے پی سی سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے گزشتہ ملاقات میں بلاول کی پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے صاف طور پر کہا کہ آئندہ قیادت نوجوان کریں گے۔وہ اے پی سی کی صدارت سے بھی گریز کریں گے وجہ صاف ہے کہ شہبازشریف درپردہ رابطے میں ہیں اب بھی امید ہے کہ حکومت ہاتھ ہلکا رکھے گی نیب کے تابڑ توڑ حملوں اور منی لانڈرنگ کے رسوا کن الزامات کے باوجود شہبازشریف نے امید کا دامن سنبھالے رکھا ہے صرف ایک مولانا ہیں جنکے ذریعے اپوزیشن کی دونوں نام نہاد سرخیل جماعتیں اپنا الوسیدھا کررہی ہیں اگرمولانا گزشتہ سال آزادی مارچ نہ کرتے تو بلاول اس وقت جیل میں ہوتے اور نوازشریف لاہور میں ہی اپنے پلیٹ لیٹ گن رہے ہوتے اس دھوکہ بازی کے باوجود دونوں جماعتیں مولانا پر زور دے رہی ہیں کہ وہ مجوزہ اے پی سی میں شرکت کریں حالانکہ اے پی سی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے حکومت کیخلاف عوام کوسڑکوں پر لانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اگرکوئی مقصد ہی نہیں ہے تو اے پی سی بلانے کا کیا فائدہ؟دونوں بڑی جماعتوں کے زعماء بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ غیر آئینی طریقے سے حکومت کو ہٹانے کی کوششوں کاحصہ نہیں بنیں گی اگرحکومت کو ہٹانا مقصود نہیں تو تمام جماعتوں کو چاہئے کہ وہ حکومت کے ذریعے زبانی کلامی گولہ باری بند کردیں اور حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع دیدیں انکے حق میں یہی بہترہوگا۔
موجودہ کرونا زدہ اپوزیشن اتنی قوت حاصل نہیں کرسکی ہے کہ وہ کوئی عوامی تحریک چلاسکے ابھی تک اس کا جو عمل رہا ہے وہ ”فِددیانہ“ منافقانہ اور حکومت فرینڈلی رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سیاسی گیم چل رہی ہے اس کا ایمپائر ایک ہے وہ دونوں ٹیموں کو مختلف حکمت عملی اختیارکرنے کی ہدایات دیتا ہے جب دونوں ٹیمیں گھتم گھتا ہوجاتی ہیں تو ایمپائر مزے اٹھاتا ہے اور انکی بے بسی مجبوری اور تابعداری پرہنستا ہے ایمپائر نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں ”لاٹ صاحب کی بگھی“ کھینچنے پر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور بازی لے جانے کی کوششوں میں جھتی ہوئی ہیں گوکہ وزیراعظم پارلیمنٹ کوماننے کیلئے تیار نہیں لیکن اپوزیشن نے بھی اسے ربڑاسٹیمپ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جمہوریت کب کی رخصت ہوچکی لیکن یہ جماعتیں روز جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کبھی صحیح معنوں میں جمہوری ریاست نہیں بن سکتا کیونکہ چلانے والوں کی اپنی مجبوریاں ہیں وہ ایک ایسے نظریئے اور بیانیہ پرعمل پیرا ہیں جوقطعاً جمہوری نہیں ہے اس ریاست میں آئین جمہوریت پارلیمنٹ سب اصطلاحوں کی حد تک موجود ہیں لیکن یہ طاقت کاسرچشمہ نہیں ہیں یہاں پر تمام سیارے ایک ہی محور کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں جبکہ باقی تمام جزئیات کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتیں ریاست کا یہ نظریہ جنرل محمدضیاء الحق مدظلہ طے کرکے گئے ہیں جس پر کامیابی کے ساتھ عمل جاری ہے حالانکہ ضیاء الحق ترک قادیانیت کے بعد ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے جو دین اسلام کوریاست کا بنیادی ستون مانتے تھے انکے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں تھی انکے جانشین پرویز مشرف ایک سیکولر بلکہ لادین شخص تھے وہ غیرشرعی عیوب کوکبھی نہیں چھپاتے تھے وہ نہ صرف محفلوں میں خوشی خوشی شرکت فرماتے تھے بلکہ کلاسیکی موسیقی خود گاکر اور ناؤ نوش میں مصروف رہنے میں خوشی محسوس کرتے تھے لیکن انہوں نے بھی وہی بیانیہ اور نظریہ برقراررکھا جو ضیاء الحق نے طے کیا تھا جس طرح ضیاء الحق اپنے مخصوص دینی برانڈ کی کامیابی کے خواب دیکھتے تھے وہی خواب جنرل پرویز مشرف کو بھی نظرآتے تھے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جو بالآخر حقیقت بن گیا کوئی نہیں بتاتا کہ علامہ صاحب نے یہ خواب کب دیکھا تھا پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نے گزشتہ روز تقریر کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی ایک خواب ہے انکے خیال میں پہلے خواب دیکھاجاتا ہے اسکے بعد ہی اسے حقیقت میں بدلنے کیلئے کاوش کی جاتی ہے اس حکومت کے بیانیہ کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسکے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک دن پہلے اعلان کیا کہ ہماری اگلی منزل سری نگر ہے ایک دن بعد حکومت نے اسلام آباد میں واقع کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھ دیا اور شاہ محمود کو فوری طور پر منزل مل گئی اس طرح حقیقت اور موجودہ حکمرانوں کاایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے حکومت نے زوردار طریقے سے یوم استحصال کشمیر مناکر ساری دنیا کو بھارتی مظالم کی طرف متوجہ کیا اچھی بات ہے لیکن اس سے مقبوضہ کشمیر کی صحت پر کیا اثر پڑے گا سقوط سری نگر کو ایک سال پورا ہوگیا ہے مودی نے اسے ہڑپ کرکے بھارت کا حصہ بنالیا ہے مقبوضہ وادی کوسارے ہندوستان کیلئے کھول دیا ہے اسکی خصوصی حیثیت آئین سے نکال دی ہے صرف اسے نقشہ میں شامل کرنے سے تویہ نہیں مل سکتا اسی طرح مودی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں جواب میں پاکستان اپنے کشمیر اور گلگت بلتستان اپناحصہ بناکر ہمیشہ کیلئے اسے اپنے میں شامل کرسکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ہمیشہ کیلئے فیصلہ ہوگیا گویا آئندہ یہ معاملہ نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل ہوگا اور نہ ہی جنگ کے ذریعے فیصلہ ہوگا اس کا فیصلہ ادھر ہم ادھر تم کے فارمولے کے تحت ہوگیا ہے۔تمام قضیہ میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر آئندہ جنگ نہیں ہوگی کیونکہ دونوں پڑوسی جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں عمران خان کی حکومت کا یہ فیصلہ اچھا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے کوششیں کی جائیں یہ جلسہ،جلوس،ریلیاں اوراجتماعات اسی پالیسی کا مظہر ہیں عمران خان اور باقی قیادت جانتی ہے کہ جنگ کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ورنہ وہ کشمیر کی آزادی کیلئے پرامن طریقے استعمال نہیں کرتے نہ آؤ دیکھتے نہ تاؤ دیکھتے ایل او سی کراس کرتے اور سری نگر کی طرف مارچ کرتے عمران خان نے تو گزشتہ سال پاکستانی کشمیری عوام کو سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ وہ ایل او سی کراس کرنے کی کوشش نہ کریں وہ جانتے تھے کہ اس کا نتیجہ لازی طور پر جنگ کی صورت میں نکلے گا عمران خان نے یہ کہاتھا کہ جب وہ فیصلہ کریں گے تب لوگ ایل او سی کی طرف مارچ کریں لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ وقت کبھی نہیں آئیگا۔مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں حالیہ مہم کا مقصد عوام کو مصروف رکھنا روزانہ کے مسائل سے توجہ ہٹانا ہے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بہت جلد وہ اپنی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے بارے میں ایک زبردست مہم چلائے گی جس کے ذریعے اپوزیشن کو بھی کنڈم کیاجائے گا حالانکہ موجودہ حکومت کے دامن میں ابھی تک کوئی کامیابی اور کامرانی نہیں ہے لیکن عوام کو خواب دکھانے اور اپنی کامیابیوں کے دعوے کرنے میں کیاحرج ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں