تین عظیم شہر ایک ہی شخص کے ہاتھوں تباہ
انور ساجدی
1970ء کی دہائی تک ایشیاء میں چارعظیم شہر تھے جن میں لبنان کادارالحکومت بیروت سرفہرست تھااسے مشرق کاپیرس بھی کہاجاتا تھا ہر سال کروڑوں سیاح آرام کرنے دکھ اور مسائل سے پرے بیروت کے عشرت کدوں میں وقتی پناہ تلاش کرتے تھے بلاشبہ بیروت بحیرہ روم کے ماتھے کاجھومر تھا بیروت کے بعد کراچی کا نمبر تھا جنوبی ایشیاء کے خطے میں کراچی کے مقابلے کا کوئی شہر نہیں تھا کراچی کا موسم روزگار کی فراوانی اسکی کشادگی اور کشادہ دلی کاجواب نہیں تھا اس زمانے میں کراچی کی شبینہ زندگی یانائٹ لائف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا نصف درجن سے زائد نائٹ کلبز تھے جہاں مصراور یورپی بیلے ڈانسرز مداحوں کے ذوق کی تسکین کرتی تھی کراچی کے بعد چین سے زبردستی چھینا گیا برطانوی کالونی ہانگ کانگ کا نمبر تھا یہ دنیا بھر کے انواع واقسام کی اشیاء کا مرکز تھا ہانگ کانگ کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل کا درجہ آتا تھا جو ایک بھرپور شہر تھا جہاں ہر وقت زندگی رواں دواں رہتی تھی کابل کے جشن نوروز میں ہزاروں لوگ شرکت کرنے جاتے تھے جبکہ کابل کو تجارت کے ایک بڑے مرکز کی حیثیت بھی حاصل تھی کیونکہ یہ ساری دنیا سے اشیائے تعیش منگواتاتھا اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے لوگ وہاں خریداری کرنے جاتے تھے یہ شہر آدھے سے زیادہ مغربی تہذیب میں رنگا ہوا تھا اس میں کئی درجن سینما گھر بھی تھے جہاں انڈیا اور ہالی ووڈ کی فلمیں چلتی تھیں رات کے شو12بجے سے شروع ہوتے تھے لیکن پھر کیا ہوا اور شائد نئی نسل کو معلوم نہ ہو لیکن یہ امرواقعہ اور سوفیصد حقیقت ہے کہ بیروت کراچی اورکابل کو پاکستانی آمر جنرل ضیاء الحق کی نظرلگ گئی اور تینوں شہر اسی کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوگئے ہوایوں کہ جب جنرل یحییٰ خان برسراقتدار آئے تو اس وقت ضیاء الحق بریگیڈیئر تھے یہ وہ زمانہ تھا جب1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایک ملین فلسطینی مہاجرین اردن میں داخل ہوگئے تھے شاہ حسین کو خطرہ پیدا ہوا کہ فلسطینی اس کا تختہ الٹ دیں گے یا انقلاب لائیں گے اس لئے انہوں نے یحییٰ خان سے مدد طلب کرلی پاکستانی ملٹری حکمران نے ضیاء الحق کی قیادت میں فوجی ماہرین کی ایک ٹیم اردن بھیجی جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی بھی شامل تھے جو پاکستانی ایئرفورس کے افسر تھے انہوں نے فلسطینی کیمپوں میں تاریخ انسانی کا بدترین آپریشن کیا خاقان عباسی نے ان کیمپوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 20ہزار فلسطینی شہید ہوگئے جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی اس آپریشن جسے بلیک ستمبر کا نام دیا جاتا ہے کے نتیجے میں فلسطینی مہاجرین لبنان جانے پر مجبور ہوگئے جہاں انہوں نے بیروت کے جنوبی حصے میں اپنے کیمپ قائم کرلئے جنوبی بیروت میں مسلمان آبادی زیادہ تھی اس لئے فلسطینی وہاں پر گھس گئے بہت جلد انکی وجہ سے بیروت میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جبکہ شام کے صدر حافظ اسد نے اپنی فوجیں بھیج کرپورے لبنان پر قبضہ کرلیا انہوں نے فلسطینی مہاجرین کی حمایت کرکے انہیں بیروت سے نکلنے نہیں دیا خانہ جنگی بڑھتی گئی دنیا کے کئی ممالک نے عیسائی آبادی کا ساتھ دیا جبکہ روس،شام اورمصر نے فلسطینیوں کی مدد کی دروز عیسائی ملیشیا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ گروپ بھی شامل ہوگئے اس خانہ جنگی کے نتیجے میں عروس البلاد بیروت ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا عیسائی اور مسلمان آبادی کے درمیان سبز لکیر کھینچی گئی اس سے پہلے کہ شیعہ ملیشیا دروز اور فلسطینی مل کر بیروت پر مکمل قبضہ کرلیتے اس دور کے اسرائیل کے وزیردفاع اسرائیل شیرون نے فلسطینیوں کے قتل عام کامنصوبہ بنایا 16 ستمبر 1982ء کی رات کو اسرائیل فوج کی حمایت یافتہ عیسائی فلانجی ملیشیا نے رات کی تاریکی میں صبرہ اور شتیسلہ کے کیمپوں میں داخل ہوکر قتل عام شروع کردیا صبح تک پانچ ہزار بچے خواتین اور نوجوان لقمہ اجل بن گئے تھے دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تاریخ انسانی کا بدترین اور بہیمانہ واقعہ تھا جس نے دنیا کا ضمیر جھنجھوڑا لیکن صیہونیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ کچھ عرصہ بعد شیرون کووزیراعظم منتخب کیا گیا لبنان جس طرح خانہ جنگی کاشکار ہوا بیروت جس طرح اجڑا ایک طرح سے اس کی ذمہ داری جنرل ضیاء الحق پر عائد ہوتی ہے اگر وہ فلسطینی مہاجرین کو اردن سے نکال باہر نہ کرتے تو بیروت کبھی نہیں اجڑتا شاہ حسین نے ضیاء الحق کی کارکردگی سے خوش ہوکرانہیں 20لاکھ ڈالر انعام میں دیا تھا جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی بعض ذرائع کہتے ہیں کہ انعامی رقم اس سے زیادہ تھی اسی طرح خاقان عباسی کو بھی شاہ حسین نے بھاری انعام دیا اردن سے واپسی پر مرحوم ایک بڑے کاروباری شخص بن گئے حتیٰ کہ انکے صاحبزادہ شاہدخاقان نے ایئربلو قائم کردی جس کیلئے اربوں کا سرمایہ لگایا قیاس ہے یہ وہی سرمایہ تھا جو اردن کے بادشاہ نے بطور بخشش دیا تھا مظلوم فلسطینی عوام کے قتل عام کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا خاقان عباسی 10اپریل1988ء کوراولپنڈی کے اوجھڑی کیمپ سانحہ میں میزائل لگنے سے فوت ہوگئے انکے دونون صاحبزادے زخمی ہوگئے ان میں سے ایک طویل معذوری کے بعد انتقال کرگئے جنرل ضیاء الحق 17اگست 1988ء کو ایک فوجی طیارہ کے حادثہ میں عبرتناک موت مرگئے اسرائیلی وزیراعظم اسرائیل شیرون طویل بے ہوشی کے بعد لقمہ اجل بن گئے۔
جنرل ضیاء الحق نے1977ء کو جب بھٹو کاتختہ الٹا تو اس وقت کراچی جنوبی ایشیاء کا عظیم شہر تھا جو دن رات ترقی کررہا تھا ضیاء الحق نے بھٹو کی پھانسی کے اثرات کم کرنے کیلئے کراچی میں لسانی تفرقہ کا کھیل کھیلا انکی آشیرباد سے کراچی کے اردوبولنے والے مہاجرین نے ایم کیوایم قائم کرکے سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کردیا اس کے نتیجے میں کراچی شدید لسانی فسادات کا شکار ہوا اور40سال کے عرصہ میں بری طرح اجڑ گیا ضیاء الحق نے لسانی تعصب کا جوبیج بویا تھا اس نے کراچی کو ایشیاء کابدترین شہر میں تبدیل کردیا۔ضیاء الحق کی پالیسیوں کی وجہ سے کراچی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بن گیا کیونکہ افغان جنگ کی وجہ سے لاکھوں مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے1980ء میں افغانستان میں نام نہاد جہاد چھیڑ کر وسط ایشیاء کے عظیم شہر کابل کو تاراج کردیاضیاء الحق کے جہادیوں نے بعدمیں تقسیم ہوکر شدید خانہ جنگی شروع کردی جس کی وجہ سے کابل کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔مجاہدین القاعدہ اوردیگرگروپ ضیاء الحق نے بنائے انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز اور جہادی گروپوں کاٹریننگ کیمپ بنایا ضیاء الحق کے اثرات بہت عرصہ تک قائم رہیں گے کیونکہ انکے حامی آج بھی برسراقتدار ہیں انکے سیاسی وعسکری فلسفہ کوغلبہ حاصل ہے انکے حامیوں کو 1973ء کاآئین اور ملک کی فیڈرل ساخت بہت کھٹکتی ہے وہ اس آئین کو تبدیل کرکے پاکستان کو دوبارہ وحدانی سیاست بنانا چاہتے ہیں غالباً اسی کی خاطر عمران خان کو برسراقتدار لایا گیا ہے موجودہ حکمرانوں کی کوشش ہوگی کہ کراچی اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو وفاقی تحریل میں لیاجائے کیونکہ انکے خیال میں کراچی کی آمدنی کے بغیر اس ریاست کا چلنا مشکل ہے وہ صوبوں اوروفاقیت کے بھی بہت خلاف ہے اپنے عزائم کی تکمیل کی خاطر وہ کراچی کودوبارہ لسانی عصیبت کی نذر کرنا چاہتے ہیں موجودہ ایم کیو ایم نے اوپر کے اشارے پر کراچی کو علیحدہ کرنے کا نعرہ لگایا ہے اس کاخیال ہے کہ کراچی جب وفاقی علاقہ ہوگا تو اردو بولنے والوں کوغلبہ حاصل ہوجائیگا اور وہ بلاشرکت غیر سے کراچی کے وسائل کے مالک اور مختار ہونگے دیکھیں آگے چل کر کیا ہوتا ہے کہیں کراچی دوبارہ بیروت نہ بن جائے صرف ایک دھماکہ نے آدھا بیروت اجاڑ دیا۔
٭٭٭