روٹی اور سیاسی شعور

جمشید حسنی
ٹی وی پر دکھاتے ہیں پچاس لاکھ کا 50 من وزنی بیل مطلب یہ ہوا گوشت 2500 روپیہ کلو ایک زمانہ تھا طرز زندگی خانہ بدوش تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تمام پیغمبربکریاں چرائی ہیں میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا مال مویشی ترکہ تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سات سال حضرت شعیب کی بکریاں چرائیں رواج یہ تھا کہ شادی غمی دوست رشتہ دار دنبہ لاتے اب یہ رواج ختم ہوگیا زندگی شہری ہوگئی اور آج مال مویشی پال کر ضروریات زندگی پوری کرنا آسان نہیں کاشتکاری کی بجائے لوگ کھلی مزدوری کو ترجیح دیتے ہیں کراچی ڈیڑھ کروڑ کے قریب آبادی حکومتیں شہریوں کو گیس بجلی پانی تعلیم صحت سڑک ذرائع آمد و رفت نجی سہولیات دینے سے عاری ہیں۔کراچی میں حالیہ بارشوں سے بد نظمی اس کی واضح مثال ہے۔ کچی آبادیاں بڑھ رہی ہیں معیار زندگی ابتر ہے۔ مفلسی بے روزگاری جرائم بڑھ رہے ہیں عید گزر جائی گی عید کے بعد سیاسی پہلوان دنگل سجانا چاہتے ہیں مقصد حکومت کو گرانا ہے حکومت گر ہی جائے ان لوگوں نے ووٹوں کیلئے عوام کے پاس جانا ہوگا عوام کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں دوبارہ یہی لوگ ہوں گے قانون سازی عام آدمی کیلئے نہیں انہی کے مفادات کے آڑ میں ہوتی ہے کچھ دو کچھ لو نیب ختم کرو قوانین میں ترمیم کرو۔ فائدہ پھر بھی ان کو پیپلز مسلم لیگ ن ق جمعیت ایم کیو ایم باپ سب کا نام نیب کے کسی نہ کسی فائل میں ضرور ہے زرداری جیل سے نکلا ایوان صدرپہنچ گئے یوسف رضا گیلانی جیل میں رہے وزیر اعظم بن گئے نواز شریف جدہ گئے تیسری بار وزیر اعظم بنے کوئی نہیں پوچھتا طیب اردوان کیبیوی کے ہارکا کیا معاملہ تھا۔ بی بی کے ایک کروڑ کا ہارکہاں ہے پاکستان یا کسی سوئس بینک میں شاہ محمود قریشی پھر عرس کے موقعطرح دار پگڑی پہن کرایک ہاتھ تکیہ پر لمبا کرکے مریدلائن میں گزارتے ہوئے تبرک کے لئے چومتے ہیں صدر الدین آغا جان کی سوانح حیات میں ہے کہ ایک انگریز دوست نے پوچھا آپ روحانی پیشوا ہیں شراب پیتے ہیں آغا خان نے کہا میں اتنا تبرک ہوں کہ اگر شراب کے جام میں انگلی ڈبو کرکہوں یہ متبرک پانی ہے تو مرید غٹاغٹ پی جائیں گے ان کی تین نسلوں کی شادی ہالی وڈ یورپ کی مشہور ایکٹر یسوں سے ہوئی۔ پرنس کریم آغا خان کے والد عیاش تھے آغا خان نے اپنے جانشینی نہ دی بلکہ ان کے بیٹے اور اپنے پوتے کریم آغا خان کو مستثنیٰ بنایا پرنس علی خان والد کی زندگی میں پیرس میں کار کے ایک حادثے میں فوت ہوئے۔ بات یہ ہے کہ مذہبی طور پر معاشرتی طور معاشی طور ہمارے لئے بندھن ہیں یہاں کی سیاست جاگیر دارون پیروں سرمایہ کاروں قبائلی سردارون کی ہے۔ عام آدمی کیلئے کوئی چارہ نہیں
گیشتوموسکا اور البرٹواٹلی کے دانشور ہیں، دونون سینیٹر تھے ایک نے دی رائز اینڈ ہال آف اییکسیلینس اور دوسرے نے دی رولنگ کلاس لکھی اٹلی جاگیر دارانہ معاشرہ تھا۔ عیسائیت نے پوری دنیا کی دولت روم میں اکھٹی کردی یہ سبب ہے کہ آج اسپین اٹلی پرتگال یورپ میں کم خوشحال ہیں ایک بار سینیٹر منتخب ہونے والا تاحیات سینیٹر رہتا۔
چرچ خود سب سے بڑا جاگیر دار تھا جو غلاموں سے کاشتکاری کرواتا غلاموں کے تجارت کی آزادی تھی یہ تو ابراہم لنکن نے غلامی کے خلاف جدوجہد کا قانون سازی کروائی اور خود ہی قتل ہوا آج بھی امریکہ میں امریکن کالوں کو گوروں کی نسبت کم معاشرتی مواقع حا صل نہیں لوتھر کنگ نے جرمنی میں آواز اٹھائی اورپروٹسٹ ازم قائم کی۔ ادھر قسطنطنیہ میں حشرتی آرتھوڈ کس چرچ روم سے علیحدہ ہوا آخر کار ایک کالے امریکن اوباما صدر بنا ہمارے یہاں تعلیم کی کمی ہے ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے غربت نے یہاں قبائلی مذہبی سرمایہ دار جاگیر دارقیادت حاوی رہے گی نا تجربہ کار بلاول تعلیم کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا سربراہ بن جائیگا حکومت کوزراعت کاشتکاری سے دلچسپی نہیں دولت صنعتکاروں اور کرمین جاگیرداروں کے پاس ہے ان کی مرضی منڈی مین آٹا چینی گھی کی جو قیمت مقرر کروائیں آج بھی سندھ میں غریب آدمی قرض لے کر گروی ہوجاتا ہے بات پچاس لاکھ قربانی کے جانور سے چلی تھی معاشرہ کا تضاد ہے ایک آدمی پچاس لاکھ روپیہ مین قربانی کا جانورخریدتا دوسری طرف پچاسی فیصد آبادی غریب یا جہازوں کے مالک خاقان عباسی، جہانگیر ترین ہیں یاپھر عمران کان یا سرکاری خیراتی دستر خوان سے روٹی کے محتاج بے روزگار افراد نظام تعلیم طبقاتی ہے ایک طرف ایچی سن کالج،لارنس کالج صادق پبلکسکول اور دوسرے کیڈٹ کالج میں دوسری طرف دیہاتی پرائمری سکول جہاں ٹاٹ،پینے کا پانی،مفت تقسیم کیلئے چھپنے والے درسی کتب کروڑوں روپوں میں صوبہ پختونخوا میں پکڑی جاتی ہیں بلوچستان کی آٹھ فیصد آبادی یرقان میں مبتلا ہے دو سال میں حکومت نے 29ارب ڈالر سے زیادہ قرضہ لیا اور سبسڈی میں 29 ارب روپیہ چینی کے کارخانہ داروں کو دیا وزیر لگا ؤ،وزیر نکالو۔ دو وزیر اطلاعات نے اشتہاروں میں کمیشن مانگا اب ثانیہ نے ڈیجیٹل این جی او بنا کر ٹھیکے حاصل کئے سبسڈی دینا مہنگائی کا علاج نہیں پہلے چینی درآمد ہوئی اب تیس لاکھ ٹن درآمد ہورہی ہے نقد رقمغریبوں میں تقسیم ہوئی کب تک چلے گی۔ لوگوں کو روزگار چاہئے مایوسی نہیں پھیلاؤ معروضی حالات سے انکار نہیں ہوسکتا عام آصدمی اگر زیادہ نہیں جانتا تو کم از کم غربت بھوک مہنگائی بے روزگاری جانتا ہے
اے سیاسیشعبدہ سے زیادہ بچوں کی روٹی چاہئے
تو عادل و قادر ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تنگ بہت بندہ مزدور کے اوقات
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں