ایلون مسک کا یو ایس ایڈ کیخلاف اعلان جنگ، مجرمانہ تنظیم قرار دے دیا
![](https://dailyintekhab.pk/wp-content/uploads/2025/02/1-20.jpg)
واشنگٹن (آئی ا ین پی ) ارب پتی ایلون مسک نے امریکہ کی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یوایس ایڈ)کو مجرمانہ تنظیم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ۔یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب مسک کی سرکاری ٹاسک فورس اور یو ایس ایڈ حکام کے درمیان واشنگٹن میں ایک تنازعہ پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں دو اعلی سیکیورٹی افسران کو معطل کر دیا گیا۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسک کو ڈیپاٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔مسک نے سوشل میڈیا پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم کو یو ایس ایڈ کے ہیڈکوارٹرز میں محفوظ مقامات تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ انہوں نے سخت الفاظ میں کہا، وقت آ گیا ہے کہ اسے ختم کر دیا جائے، ان کا یہ بیان ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی امداد میں کمی کی کوششوں کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے۔رپورٹس کے مطابق، یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر آف سیکیورٹی جان وورہیز اور ان کے نائب برائن میک گل کو اس وقت معطل کر دیا گیا جب انہوں نے ڈی او جی ای کے اہلکاروں کو سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے حساس علاقوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔ تاہم، بعد میں ان اہلکاروں کو خفیہ سیکشن تک رسائی دے دی گئی۔وائٹ ہائوس نے اس معاملے کو میڈیا کی مبالغہ آرائی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ وائٹ ہائوس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر اسٹیون چیونگ نے اسے جعلی خبر قرار دیا، جبکہ ڈی او جی ای کی ایک اہلکار کیٹی ملر نے وضاحت کی کہ کسی بھی خفیہ مواد تک بغیر کلیئرنس کے رسائی حاصل نہیں کی گئی۔یہ تنازعہ یو ایس ایڈ کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے، کیونکہ ٹرمپ پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ یا تو اس ایجنسی کے بجٹ میں زبردست کٹوتی ہوگی یا اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔اسی دوران، یو ایس ایڈ کی سرکاری ویب سائٹ بھی آف لائن ہو گئی، جس سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ شاید اس ادارے کو محکمہ خارجہ میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر کرس کونز نے ٹرمپ انتظامیہ پر یو ایس ایڈ کے خلاف اقدامات کرنے پر شدید تنقید کی اور اسے اہم غیر ملکی امدادی منصوبوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا۔دیگر قانون سازوں، بشمول کانگریس وومن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ایلون مسک کے حکومتی اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی نجی شہری کو حساس حکومتی معلومات تک رسائی دینا قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔