بیرونی امداد اور آزادنہ خارجہ پالیسی؟

جیند ساجدی
انگریزی میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”Beggars can’t be Choosers“جس کے معنی ہیں کہ بھکاریوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا بلکہ جو بھی خیرات انہیں ملے وہ انہیں قبول کرنی پڑتی ہے۔یہ کہاوت ریاستوں کی آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے پر بھی پورا اترتی ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا جب تک وہ معاشی طور پر آزاد اور مستحکم نہ ہو۔ پاکستانی حکمرانوں کو روز اول سے ہی بیرونی امداد کی لت لگی تھی اس لئے یہ ملک کبھی بھی اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی جو اس کے قومی مفاد کے مطابق ہونہیں بناسکا بلکہ بین الاقوامی طاقتوں سے امداد لے کر اپنی خارجہ پالیسی ان کے قومی مفاد کے مطابق بناتا رہا۔اس کی واضح مثال سرد جنگ کے وقت امریکہ کا اتحادی بننا، Seatoاور Cento جیسے دفاعی معاہدوں پر دستخط کئے، افغان جہاد میں بھرپور حصہ لیااور امریکی War on Terror میں اہم اتحادی بننا۔
امریکہ کے علاوہ سعودی عرب ایسا ملک ہے جس سے پاکستان نے ہمیشہ معاشی مدد حاصل کی ہے اور سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کا استعمال جنوبی اور مغربی ایشیاء میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے کیا ہے۔ایران کے بعد دنیا کی سب سے بڑی شیعہ آبادی پاکستان میں رہتی ہے اور ملک کی لگ بھگ 20فیصد آبادی شیعہ فرقہ سے تعلق رکھتی ہے لیکن جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار میں ایسی مذہبی پالیسیاں بنائیں جو سعودی عرب کے بادشاہ کی خارجی پالیسیوں کے مطابق تھیں۔ اس سے ملک میں انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ ملا اور ملک کی 20 فیصد آبادی(شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے) دوسرے درجے کے شہری بن گئے۔ لہذا اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امداد پر چلنے والے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانا تو دور کی بات ہے بلکہ اپنی اندرونی پالیسی بنانے میں بھی آزاد نہیں ہوتے۔حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے چوہدری پرویز الٰہی کی قیادت میں تحفظ بنیاد اسلام بل پاس کرانے کی تجویز پیش کی ہے جس پر شیعہ علماء کے تحفظات ہیں اور مجلس وحدت المسلمین نے اس بل کے پاس ہو جانے کی صورت میں ملک گیر احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے۔غالباً یہ بل بھی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے مطابق اور پاکستان کے قومی مفاد کے برعکس ہے کیونکہ اس سے ملک میں فرقہ واریت مزید پھیلے گی۔
سعودی عرب کے علاوہ پاکستان نے اپنے ابتدائی دنوں میں ایران سے بھی معاشی امداد لی تھی جس کی وجہ سے شاہ آف ایران پاکستان کے اندرونی پالیسیوں میں مداخلت کرتے تھے سابقہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے 1973ء میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کے احکامات جاری کئے تھے ان کی پوتی فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب”Songs of Blood and Sword“میں لکھتی ہیں کہ ”بلوچستان میں آپریشن کی اصل وجہ یہ تھی کہ شاہ ایران کو خدشہ تھا کہ ایرانی بلوچستان میں بغاوت ہونے والی ہے اور نیپ کے لیڈران جن کی پاکستانی صوبہ بلوچستان میں حکومت تھی وہ ایرانی بلوچ باغیوں کی مدد کریں گے۔ اس لئے انہوں نے پاکستانی سرکار سے اپیل کی کہ وہ نیپ کی حکومت کو برطرف کریں“ بھٹو کے اس غیر جمہوری اقدام کی وجہ سے بلوچستان میں تیسری شورش نے جنم لیا لہذا ایرانی امداد کے بدلے پاکستانی حکمرانوں نے مثبت اندرونی پالیسی کی قربانی دی۔ایران نے اس شورش کو کچلنے کیلئے اپنے جنگی جہاز بھی پاکستان کو فراہم کئے تھے جس سے یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان کی شورش میں ایران ایک اہم فریق تھا اور نیپ کی حکومت ختم کرنے کی تجویز ایران سے آئی تھی۔ایران کیلئے اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد جلد ہی پاکستانی حکمرانوں نے انقلاب ایران (1979) کے بعد یوٹرن لیا اور انقلاب ایران کے بعد پاکستان ایران تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی شاہ ایران اور سعودی عرب کے اچھے تعلقات تھے لیکن انقلاب ایران کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوئے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اصول رہا ہے کہ اس نے سعودی عرب کی ہر بات پر لبیک کہا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ایران کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے بلکہ شاہ ایران امریکہ اور مغرب کی کٹھ پتلی تھے۔ لہذا امریکہ‘ سعودی عرب اور مغرب کو خوش کرنے کیلئے پاکستان نے اپنے ہمسایہ ملک سے تعلقات خراب کئے۔اس کی وضاحت اس وقت کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان نے ان الفاظ میں کیا تھا کہ ”یہ ممکن نہیں ہے بیک وقت امریکہ‘ سعودی عرب‘ یورپ اور ایران کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھے جاسکیں۔“ ان کی بات کا غالباً مطلب یہ تھا کہ ایرانی امداد لے لی تو امریکہ اور سعودی کی بیرونی امداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ماضی کے حکمرانوں میں یہ فرق ہے کہ ان کی نسبت عمران خان بیرونی امداد کے ساتھ ساتھ اندرونی امداد کے بھی بڑے ہی شوقین ہیں انہوں نے اپنے دور کا زیادہ حصہ بیرونی اور ملکی امداد کی اپیلوں میں گزار ہے شائد اسی وجہ نواب اسلم رئیسانی نے بیان جاری کیا تھا کہ ملک میں دو وزیراعظم ہونے چاہیے ایک ملک چلانے کے لئے دوسرا امداد مانگنے کے لئے۔انہوں نے اپنا پہلا دورہ بطور وزیراعظم سعودی عرب کاکیا تھا اور جلد ہی سعودی عرب سے 6.2بلین ڈالر کا پیکیج لینے میں کامیاب ہوئے تھے سعودی عرب کی امداد کی وجہ سے انہوں نے ملیشیاء سمٹ میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ صحافی جمال خشوگی کے مبینہ قتل کی وجہ سے شہزادہ محمد بن سلمان پر بین الاقوامی دباؤ تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے محمد بن سلمان کو پاکستان مدعو کیا تھا اور ریڈ کارپٹ پروٹوکول بھی دیا تھا۔
مشہور کہاوت ہے کہ دوستی دو برابر کے لوگوں میں ہوتی ہے لینے اور دینے والے کے درمیان تعلق دوستی کا نہیں بلکہ آقا اور غلام کا ہوتا ہے۔اپنی سفارتی مدد کے بدلے عمران خان سعودی عرب سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ سعودی عرب ان کے کہنے پر آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (OIC) کا سیشن طلب کروائیں گے جس کے ذریعے وہ بھارت پر کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالیں گے۔ عمران خان کو ہمیشہ کی طرح زمینی حقائق کا کوئی علم نہیں تھا اولین تو سعودی عرب کبھی بھی بھارت جیسے دفاعی اور معاشی طاقت کو کشمیر کیلئے ناراض نہیں کر سکتا یہ اس کے قومی مفاد میں نہیں کیونکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھارت سعودی عرب کی تیل کا بڑا خریدار ہے۔عمران خان او آئی سی جیسی کمزور تنظیم کی تاریخ سے بھی ناواقف ہیں اپنے قیام سے لے کر اب تک او آئی سی نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور بھارت جیسی طاقت پر دباؤ ڈالنے کی او آئی سی میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ ایک ماہر تعلیم او آئی سی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ او آئی سی انگریزی کے تین الفاظ پر مشتمل ہے جس کے معنی ہیں "OH I SEE” اس کا اردو ترجمہ یہ ہوتا ہے چلیں دیکھتے ہیں یعنی اس تنظیم میں کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔غالباً عمران خان کا علم او آئی سی کے حوالے سے اتنا ہے جتنا جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کے حوالے سے تھا خان صاحب کو بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی کم علم ہوگا کہ بیرونی قرضوں پر چلنے والا ملک اپنی خارجہ اور اندرونی پالیسی نہیں بنا سکتا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسرے ملک کو اس کی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفاد کے مطابق بنانے پر قائل کرے۔ شاہ محمود قریشی کے سعودی سے متعلق بیان پر ایسا لگا کہ وہ اور عمران خان بہت بڑی غلط فہمی کا شکار تھے لیکن محمد بن سلمان نے اپنا قرضہ واپس مانگ کر جلدہی ان کی غلط فہمیاں دور کر دیں۔پاکستان کا قرضہ ادا کرنے والا چین بھی یقینا اپنی Debt Trap Diplomacy کے ذریعے پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی بنانے کیلئے مجبور کرے گا جو چین کے قومی مفاد میں ہو۔
صاحبزادہ یعقوب خان کی طرح عمران خان کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ بیک وقت چین اور اس کے حریف امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہو سکتے بہت جلد ان دونوں میں سے ایک کی قربانی دینی پڑے گی اور بیک وقت ترکی اور اس کے حریف سعودی عرب سے بھی تعلقات ٹھیک نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں اسلامی ممالک کی لیڈر شپ کے امیدوار ہیں پاکستان سے ایک اہم شخصیت جلد سعودی عرب کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد آثار یہی معلوم ہو رہے ہیں کہ ترکوں کے بڑے مدعا عمران خان سعودی عرب کی خاطر ترکی سے ذرا سی دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوجائینگے اور ممکن ہے کہ ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی کی نشریات بھی روک سکتے کیونکہ آزادانہ خارجہ پالیسی اور بیرونی امداد ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔شاہ صاحب کی نوکری رہے گی یہ نہیں آنے والے چند دنوں میں پتہ لگ جائے گا۔اس سے قبل وہ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ کی وجہ سے اپنی نوکری کھو چکے ہیں۔