میثاق ابراہیم

انور ساجدی
مراکش کے عظیم شہر کاسابلانکا جہاں 50سال پہلی اسلامی کانفرنس ہوئی تھی اور اس وقت کے30سے زائد ممالک نے اس تنظیم میں شراکت کی تھی اس شہر میں 30سال پہلے جو کانفرنس ہوئی تھی اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلہ پر عرب ممالک اختلافات کا شکار تھے مصر کو اسلامی کانفرنس سے نکال دیا گیا تھا لبنان میں فلسطینیوں کے قتل عام کا المیہ وقوع پذیر ہوچکا تھا پاکستان کے ملڑی صدرجنرل ضیاء الحق نے اپنے کیریئر کا شاندار خطاب کیا تھا انہوں نے بڑی طاقتوں کے عزائم اور ساری دنیا کی سیاست کو کوزے میں بند کردیا تھا اگرکوئی اس تقریر کو سنے تو ضیاء الحق کی قابلیت انگریزی زبان پر انکی گرفت عالمی سیاست کے ادراک اور فصاحت کا قائل ہوجاتا ہے دراصل امریکہ نے ضیاء الحق کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ مصر کو تنہائی سے نکال کر دوبارہ اسلامی کانفرنس میں شامل کروائے ضیاء الحق نے مصر کے کارناموں کاایسا سماں باندھا کہ کانفرنس کے شرکاء کوسانپ سونگ گیا جس کے نتیجے میں مصر کی رکنیت بحال کردی گئی پی ایل او کے سربراہ یاسرعرفات نے بہت کوشش کی لیکن انکی ایک نہ سنی گئی حالانکہ جنرل ضیاء الحق نے انہیں نیوٹرل کرنے کیلئے تعریفوں کے بڑے پل باندھے لیکن یاسرعرفات اس تعریف سے قائل نہ ہوئے ان کا موقف تھا کہ مصر کے بعد امریکی دباؤ میں آکر دیگر مسلمان ممالک یکے بعد دیگر سے اسرائیل کو تسلیم کریں گے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کوکبھی انصاف نہیں ملے گا اور وہ دوبارہ کبھی اپنی سرزمین پر آباد نہیں ہوسکیں گے یاسرعرفات نے یہ بھی کہا کہ سوال قبلہ اول کا ہے؟ کیاسارے مسلمان اس سے دستبردار ہونے کوتیار ہیں۔
آج جب تاریخ نے کروٹ بدلی ہے تو فلسطینی عوام کے زندہ رہنے کا حق اور قبلہ اول کی آزادی کا خواب ناممکن دکھائی دینے لگا ہے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس نے یروشلم پراسرائیل کے حق ملکیت پر تصدیق کی مہر مثبت کردی ہے اس فیصلہ نے نئے اتحاد اور نئے بلاک بلانے کی راہ ہموار کردی ہے اس کا سب سے مضر اثر او آئی سی پر پڑے گا اگردیکھاجائے تو اس فیصلہ سے اوآئی سی جان بلب ہوگئی ہے مشرق وسطیٰ میں ترکی اورقطر کا اپنا بلاک بن گیا ہے لیبیا ترکی اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ جنرل ہفتار کی فوجوں کے درمیان تقسیم ہوگیا ہے کہاجارہا ہے کہ امارات کے بعد بحرین اسرائیل کوتسلیم کرنے کا اعلان کرے گا حالانکہ بحرین کی آبادی کی غالب اکثریت شیعہ اور ایرانی نژاد ہے اسکے باوجود بحرین کو خوف محسوس نہیں ہورہاہے۔
بحرین ایک چھوٹی سی ریاست ہے جو سعودی عرب کی طفیلی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امارات نے سعودی فرماں رواں کے ایماپر اسرائیل کوتسلیم کیا جبکہ بحرین بھی اسی کے مشورے پر ایسا کرے گا بحرین کے بعد جی سی سی یا عرب لیگ کے دیگر ممالک بھی صیہونی ریاست کو تسلیم کریں گے بات تسلیم کرنے کی نہیں ہے بات یہ ہے کہ اسرائیل سے دومملکتی سمجھوتے کے بغیر یک طرفہ اقدام کیاجارہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل نہ صرف الفتح اورحماس کے زیرانتظام علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرے گا بلکہ وہ اپنی سرحدوں کومزید توسیع دے گا۔تاریخی طور پر اردن ایک مصنوعی ملک ہے جو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کو توڑنے کے انعام کے طور پر شریف مکہ کے بڑے صاحبزادے کودیا تھا اور بنی اسرائیل کو قبلہ اول سمیت اردن میں شامل کردیا تھا اردن کے بغیربنی اسرائیل کی ریاست مکمل نہیں ہے یہودی روایات کے مطابق دریائے اردن کے مغربی کنارے پرکھڑے ہوکر حضرت موسیٰ علیہ سلام نے بنی اسرائیل کی سرزمین کو اپنی 10اولادوں میں تقسیم کردیا تھا یعنی تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ موجودہ اسرائیل اردن شام کا متصل حصہ بنی اسرائیل ہے قبلہ اول یہودیوں اورعیسائی کیلئے مشترکہ طور پر مقدس ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی جائے پیدائش بیت اللحم اسکے قریب واقع ہے جبکہ اسلام آنے کے بعد یروشلم کو آنحضرت ؐ نے قبلہ اول قراردیا تھا یہودیوں کاتو یہ بھی دعویٰ ہے کہ مصرجہاں سے حضرت موسیٰؑ ہجرت کرگئے تھے یہودیوں کی ملکیت ہے اسی طرح بابل (عراق) جہاں سے حضرت ابراہیمؑ نے فلسطین کی طرف کوچ کیا تھا بنی اسرائیل کی سرزمین ہے اسی تاریخی تناظر میں صدرڈونلڈٹرمپ نے اس ممکنہ معاہدہ کانام ”میثاق ابراہام“ رکھاہے جس پرمتحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو واشنگٹن میں دستخط کریں گے۔معاہدے کا نام حضرت ابراہیم ؑ کے نام پر اس لئے رکھا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے مطابق وہ یہودیوں،عیسائیوں اور عربوں کے جدامجدتھے۔میں نے 1969ء میں راسخ العقیدہ سعودی فرماں روا شاہ فیصل کا ایک انٹرویو پڑھا۔جس میں انہوں نے فرمایا کہ ہمیں یہودیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ عربوں کے کزن ہیں ہمیں انکے زندہ رہنے کے حق پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہمیں فلسطین کے مسئلہ اور قبلہ اول کے معاملہ پر اعتراض ہے اگریہ مسئلے حل ہوجائیں تو ہم یہودی ریاست کوتسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
شاہ فیصل کے ان افکار کو سب سے پہلے مصر اسکے بعد اردن اور اب امارات نے عملی جامہ پہنایا ہے لیکن قبلہ اول اورفلسطین کامسئلہ نہ صرف اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ انکی ہئیت مزید بگڑگئی ہے جو نئے بلاک بن رہے ہیں ان میں ایران حماس حزب اللہ اخوان المسلمون سرفہرست ہے۔یمن،شام اورعراق بھی بالآخر اس بلاک کا حصہ بنیں گے اگرچہ پروپیگنڈہ کیاجائے گا یہ شیعہ بلاک ہے لیکن حماس اور اخوان تو کٹرسنی ہیں وہ نئے علاقائی اونچ نیچ کو دیکھ رہے ہیں فرقہ واریت میں نہیں الجھ رہے ہیں اگرعرب فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑدیں گے اور وہ اسرائیل کے رحم وکرم پر ہونگے تو انکے لئے ایران کی حمایت لینے کے سوا اورکیا چارہ باقی رہ جاتاہے۔
سعودی عرب امارات بحرین اردن اوردیگرممالک کے بلاک کا مقصد ایران کے اثرورسوخ کوروکنا ہے جو امریکہ کا بھی اولین مقصد ہے لیکن کویت کافی عرصہ تک اس فیصلے کا ساتھ نہیں دے گا کیونکہ اسکی آدھی آبادی فلسطینیوں پرمشتمل ہے البتہ اومان ساتھ دے گا کیونکہ سلطان قابوس نے مرنے سے قبل اسرائیل کو غیرسرکاری طور پر تسلیم کیاتھا۔
متحدہ عرب امارات کے فیصلہ کو لیکر پاکستانی حکمرانوں نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث چھیڑ دی۔فوادچوہدری پہلے وفاقی وزیرتھے جنہوں نے ایک سال پہلے کہا تھاکہ اسرائیل کوتسلیم کرنے کے معاملہ پر بحث ہونی چاہئے پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کے مطابق جنرل مشرف نے یاسرعرفات سے کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کئے بغیر ہم آپ کی مدد نہیں کرسکتے جس پرعرفات زاروقطار روئے تھے اور کہاتھا کہ ہماراآخری سہارا پاکستان ہے اگر اس نے بھی صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تو ہم کہاں جائیں گے۔انکے بقول عرفات نے روتے ہوئے کہا تھا کہ کاش بھٹوزندہ ہوتا؟
عمران خان کی حکومت نے ٹی وی کے طوطوں یعنی اینکر حضرات اور سوشل میڈیا پر اپنے شہ سواروں کے ذریعے اسرائیل کوتسلیم کرنے کی بحث چھیڑ دی ہے تاکہ عوامی ردعمل معلوم کیاجاسکے۔لیکن میرے خیال میں یہ فیصلہ بعداز وقت ہے اگر جنرل مشرف تسلیم کرے تو وہ صحیح وقت تھا حالانکہ اس وقت اس بارے میں خفیہ مذاکرات بھی ہوئے تھے اور وزیرخارجہ خورشید قصوری نے انقرہ میں اسرائیل کے وزیرخارجہ سے باقاعدہ ملاقات بھی کی تھی پاکستان کے ارادے کادفترخارجہ کے بیان سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے جو مبہم ذومعنی اور اور ایک طرح سے دوغلی ہے بیان میں مشرق وسطی میں قیام امن کی حمایت دراصل امارات کے فیصلہ کی حمایت ہے فیصلہ پرخاموشی بھی اسکی تائید ہے۔وزیراعظم عمران خان اس وقت تک خفیہ سرگرمیاں جاری رکھیں گے اور انتظار کریں گے کہ کب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے گا؟
پاکستانی حکمرانوں کو عوامی غیض وغضب کاخوف بھی ہے حالانکہ جب مسئلہ فلسطین کے فریقین نے خود اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو پاکستان کا اس سے براہ راست کیا تعلق ہے وہ تو نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر لکھا ہے اسرائیل کے سوا ساری دنیا کیلئے پاکستان کی موجودہ حکومت کو اس بات کا دکھ ہے کہ عرب ممالک مسئلہ کشمیر پر انڈیا کا ساتھ دے رہے ہیں تو وہ بلاوجہ ہر مسئلہ پر انکی حمایت اورتقلید کیوں کرے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان کے لوگ بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں وہ اسرائیل کا نام بھی سننا نہیں چاہتے ان کے خیال میں یہ مسلمانوں کا سب سے بڑادشمن ہے اور اسے زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں۔حالانکہ یہ غلط سوچ ہے فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کوجینے کا حق حاصل ہے اگرفلسطینی ریاست قائم ہوجائے تو اسکے بعد اسرائیل کو دشمن سمجھنا غلط ہوگا پاکستان کیلئے اسرائیل کو ماننا اس لئے ضروری ہے کہ یہ دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں ان میں پڑوسی نہ ہونے کے باوجود کئی اقدار مشترک ہیں پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل کو مکمل طور پر انڈیا کی گود میں جانے سے روکے جلد یا بدیر اسے اسرائیل کی حقیقت کوتسلیم کرنا پڑے گا۔
ایک عجیب موقف طیب اردگان کا ہے انہوں نے عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی ہے حالانکہ انہیں پہلے اسرائیل سے سفارتی تعلق ختم کرنے چائیں ترکی پہلا اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کوتسلیم کررکھا ہے اپنے تعلقات تو برقرارہیں لیکن وہ امارات کو دھمکی دے رہے ہیں اسے کہتے ہیں کہ امت کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں