فریادیں کب تک

ڈاکٹر محمد اسماعیل
کچھ چیزیں نوشتہ دیوار ہوتی ہیں مگر ہم انہیں پڑھ نہیں سکتے یا پھر پڑھنا ہی نہیں چاہتے آج امریکہ کے ماہر سائنسدانوں نے نظام شمسی میں دسویں سیارے کو تلاش کرلیا ہے ہمیں اپنے ملک میں ان دیہاتوں کا جنگل ملتا ہے جہاں ملک کی بہت بڑی اکثریت اب بھی سترھویں اور اور اٹھارھویں صدیوں جیسی زندگی گزار رہی ہے پاکستان کے حکمرانوں علماء سائنسدانوں نے اس پہلو سے معاملہ نہیں کیا جہاں خیالات کی توڑ پھوڑ جاری رہتی ہے اس کے نتیجے میں نیا ذہن تخلیق ہوتا ہے سائنس ٹیکنالوجی ادب معیشت میں اضافے ہوتے ہیں اگر معاشرہ قدامت پسندی اور قدیم روایات کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک جگہ ٹھہر جائے تو اسکا مطلب ہے کہ اس معاشرے کی سوچ اور فکر ٹھہر کر رہ گئی ہے معاملات جوں کے توں status quo رہتے ہیں بلوچستان حکومت بھی ایک عجوبہ ہے جہاں وزراء انتظامیہ پولیس بیورو کریسی عدالتوں سے ضمانیتیں لے کر حکم امتناعی کے سہارے حکومتیں چلاتے رہتے ہیں قانون کا خوف دم توڑ چکا ہے یہاں قاتل اشتہاری بھی ضمانتیں لیکر دھندناتے پھرتے ہیں پچھلے دور مں بلوچستیان ایک پسماندہ صوبہ ہونیکی وجہ سے آدھے آدھے وزیر اعلیٰ پر ڈھائی ڈھائی سال معاہدہ کے تحت چلا ٹرکوں بسوں ٹرینوں عمارات اسکولز بلڈنگر ٹھیکے پرمٹ کمیشنوں کا بازار گرم تھا وزارت داخلہ کی چھتری تیز تھی بگٹی صاحب نے خوب وفاداری نبھائی بلوچستان کے غریب عوام کا گوشت اتار دیا صرف ہڈیاں بچ گئی تھیں سہولیتں صرف کاغذوں پر میسر تھیں کیونکہ ایک قوم پرست وزیر اعلیٰ کا دور تھا وہ بھی ہمارا بلوچ آج پھر بلوچستان لاقانونیت کی روایتی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلوچستان اسمبلی میں صرف نمائشی اقدامات ہوتے ہیں آج پورے صوبے میں صوبائی سطح کا کوئی نمائندہ بھی دستیاب نہیں ہے سب علاقائی اور ضلعی سطح کے نمائندے اور سیاستدان ہیں جنکی سوچ ضلع سے با ہر ہی نہیں جاتی ہے
امن و امان کی صورت حال بھی ہے کہ صوبے کا 94فیصد علاقہ نیم مسلح اور غیر روایتی لیویز کے زیر انتظام ہے اور محض 6 فیصد علاقے میں پولیس اور ایف سی تعینات ہے لیویز کی تعلیم و تربیت کا کوئی معیار نہیں تقریبا بلوچستان لیویز کی 90 فیصد نفری ان پڑھ ہے جسکو ہم وراثتی نوکری بھی کہہ سکتے ہیں بلوچستان میں گزشتہ تین چار سالوں سے جو دیکھنے میں آرہا ہے اسے دیکھ کر عام آدمی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ صوبہ کرائم فری صوبہ کے بجائے کریمنل فری صوبہ بن گیا ہے
صوبہ کی اعلیٰ قیادت صوبائی دارالحکومت میں کم ہی نظر آتی ہے اسلام آباد اور چین کے دوروں پر رہتی ہے عزت و سیاست کے نام پر کھبی اپنا اسلام آباد کے باغی ہوتے ہیں وزیروں، وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ تسلیم نہیں کرتی۔ مگر عمران کا نام احترام سے لیتے ہیں بلوچستان چونکہ پاکستان کا سب سے مزاحمتی اور باغی صوبہ ہے اسکی سیاست کا دوسرا نام مفاہمت ہے بخشش ہے بلوچستان کے قوم پرست بھی سندھ کیطرح صرف کاغذی ہیں جو اسلام آباد کو اپنا دامن پیش کرتے ہیں
آج بلوچستان میں خوشحالی اور شادمانی کی تصویر پیش کرنے والے عوام کو مسلسل نظر انداز کررہے ہیں جسکی وجہ سے آج غریب عوام مہنگائی غربت بے روزگاری قبائلی جھگڑوں کے دکھ کے گیت گارہے ہیں بلوچسان میں آج بھی وڈیرے قاتل بدمعاش ڈکیت چور منشیات فروش اسلحہ کے سوداگر بدکاری عمارتوں اسکولز اسپتال کو جانوروں کے باندھنے کی جگہ کے لئے استعمال کرتے ہیں گو یا قوم کے معماروں کی تعلیم گودے بھوتار سردار نواب رئیس کے جانوروں سے بھی کمتر ہے عوام کندھوں پر لیڈروں کا بوجھ اٹھانے شل ہوچکے ہیں جنکے پاؤں اور قد لیڈروں کی بھاری بھرکم گاڑیوں کے گردوغبار کے مستقل طوفان میں گم ہوچکے ہیں جنکی آنکھوں میں برسوں سے ترقی کا خواب منڈلارہا ہے جنہیں لیڈران نہ دو وقت کی روٹی نہ سرپرست چھت کی ضمانت نہ بیماری نہیں یہ افتادگان خاک جن کے نام پر اسمبلی سجائی جاتی ہے جن کے نام بے نمائندگی کی آڑ میں اسمبلی اجلاسوں کا بازار چمکایا جاتا ہے
جنکے حقوق اسمبلی میں رہن رکھے جاتے ہیں جنکا مفادہر لیڈر نیلام کرتا ہے جنکے نام پر اسمبلی میں فنڈز کا بیوپار ہوتا ہے اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ اپنے اختتام کو ہے مگر بلوچستان میں امن انصاف مساوات حقوق رواداری ترقی خوشحالی روشن خیالی کو آج بھی خطرہ لاحق ہے آج اگر ہم نے ایک بہتر دنیا کیطرف قدم بڑھایا ہے تو کمزور غریب انسانوں کے مفاد کو مر کز بنانا ہوگا ہمیں آنے والی نسلوں کو خوشحالی کے قطرے پلانے ہونگے انسانی حقوق کا پاس رکھنا ہوگا
آج بلوچستان مین سرکاری ملازموں چیف سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری ایڈیشنل سیکرٹری ڈی،آئی جی، آئی جی پولیس،کمشنر ڈی جی SHO محکمہ تعلیم محکمہ صحت تمام افسروں کو ریاست کی وفاداری ترک کر کے حکمرانوں کی وفاداری کیطرف مائل کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے آج ہمارے اعلی افسران اصول کے حق میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ سیاسی لیڈر کو انکار کرنیکی جرات نہں رکھتے حالات کی ستم ظریفی کہ آج عام سرکاری محکموں میں تعیناتیاں میرٹ کی بجائے منتخب نمائندے کرتے ہیں کسی عالم کا قول ہے کہ اختلاف سچائی کی پہلی راہ ہے اختلاف ایک فطری عمل ہے آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی ہوئی ہی نہیں ہے
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو باپ کے بلوچستان کو دینے کا کوئی منصوبہ ہے نہ کرپشن کے خاتمے کا آج بلوچ پٹھان بدحال سماج کو جبر غربت بے روزگاری قبائلی جھگڑے سے نجات خوراک تعلیم زراعت سے آراستہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ تمام سیاستدان حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں عمران خان کی پارٹی مرکز میں کارپوریٹ سرمایہ دار براجمان ہے قوم پرستوں کا پروگرام بھی اس نظام کی حدود و قیود سے آزاد نہیں ہے قوم پرست پارٹیاں آج کے بلوچستان میں دولت کے اجتماع کو عین نیکی سمجھتی ہیں کبھی عوام کے مسائل کا ذکر جزوی سطح پر کرنا پڑتا ہے مگر نمائندے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کرپٹ نظام میں یہ مسائل حل ہونے والے نہیں یہ وسائل ہیں مگر تقسیم منصوبہ بندی صحیح نہیں کیا آج بلوچستان میں سیکرٹریوں محکمہ کے ڈی جی اور ہر محکمے کے سربراہ کے سپرد ہر محکمہ اپنی کارکردگی میں خسارہ نہیں دکھارہا ہے
آج یہاں جھوٹ ایک من کی حیثیت اختیار کرچکا ہے علم سے عاری نو دولتیے ہم پر مسلط کردیئے ہیں اٹلی کے معاشرے میں انہیں PARVENUکہتے ہیں بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے جس کے پاس کوئی پیداواری صلاحیت نہیں ہے جہاں کوئی صنعت نہیں ہے کوئی زراعت نہیں ہے عوام کا ذریعہ معاش چھوٹی موٹی تجارت یا گلہ بانی پر ہے مگر ہمارے نمائندوں کی جائیدادیں کمپیوٹر بھی تخمینے لگانے سے قاصر ہے ساٹھ ساٹھ کروڑ روپے تو صرف پانی کی ٹینکوں میں رہتے ہیں یہ حالت غلط پالیسوں کی پیداوار ہے ہم نے آج بلوچستان کا حق ادا نہیں کیا نہ حالات بدلے نہ وراثتی نمائندے آج تک ہم ایک چیف سیکرٹری بھی پیدا نہ کرسکے آزادی سے لے لر آج تک ہم ایک چیف سیکرٹری بھی برآمد کر رہے ہیں ہم لوگ آئی جی پولیس ڈپٹی کمشنر ڈپٹی سیکرٹری S&GAD تک برآمد کرتے ہیں ہم معمولی پراجیکٹس بھی مکمل نہیں کر پاتے ہیں لاتعداد حکومتی وزراء ہیں ان سے بڑھ کر مشیران ہیں یہاں نہ قوم پرستوں کے پاس نہ مذہبی جماعتوں کے پاس نہ آزاد امیدواروں کے پاس نہ کوئی منشور ہے نہ آئین یہاں تو 200 ووٹ لیکر بھی وزیر اعلیٰ بن جاتا ہے جان محمد روڈ کے گجر تو 55 ووٹ لیکر بھی وزیر بن جاتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں