پاک بھارت دوستی کے امکانات

انور ساجدی
فیلڈمارشل ایوب خان نے 1965ء کی جنگ چھیڑی لیکن1966ء میں معاہدہ تاشقند کیا1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ میں اندراگاندھی کے ساتھ معاہدہ کیا جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاچن پر جنگ ہوئی لیکن موصوف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اسکے باوجود وہ کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانہ نئی دہلی پہنچ گئے اور راجیو گاندھی کے اردگرد چکر لگانے لگے۔حالانکہ انہوں نے خالصتان کی تحریک کی بنیاد بھی رکھ دی تھی نوازشریف کے دور میں جنرل پرویز مشرف کارگل کی جنگ ہارگئے لیکن مکمل اقتدار پرقبضہ کے بعد وہ واجپائی کے پاس سیدھے آگرہ پہنچ گئے وہاں پر کشمیرکے بارے میں ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا لیکن عین موقع پر اٹل بہاری واجپائی مکر گئے مسئلہ کشمیر کا یہ ایک بہترین حل تھا جس کے مطابق انڈیا اور پاکستان10سال کیلئے اس دعوے سے دستبردار ہوتے کہ کشمیر ان کا اٹوٹ انگ ہے اس عرصہ کیلئے دونوں کشمیر ملاکر اقوام متحدہ کے بندوبست میں دیئے جاتے جس کے بعد رائے شماری ہوتی کہ کشمیر کے لوگ کیاچاہتے ہیں آیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا انڈیا میں یا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں۔بدقسمتی سے یہ معاہدہ نہ ہوسکا اور یہ مسئلہ روز بروز گھمبیر ہوتا جارہاہے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے گزشتہ سال کہا تھا کہ سری نگر کی خواتین ہر صبح یہ انتظار کرتی ہیں کہ پاکستان کی فوج کب سری نگر میں داخل ہوگی لیکن ہر روز انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نریندرمودی نے گزشتہ سال کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی یونین میں ضم کردیا حالانکہ اقوام متحدہ اسے متنازعہ علاقہ قراردے چکی ہے لیکن مودی نے طاقت کے زعم میں آکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بلڈوز کردیا دوسری طرف سیاسی اعتبار سے پاکستان کا اتنا وزن نہیں کہ وہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلاکر بھارت کیخلاف کارروائی کی راہ ہموار کرے کیونکہ چین اور ترکی کے سوا کوئی بھی ملک چاہے وہ اسلامی ملک کیوں نہ ہوں پاکستان کی بجائے بھارت کا ساتھ دیتے ہیں۔
نریندرمودی نے بہت ہی چالاکی اور مہارت سے اپنے تعلقات بڑھائے ہیں گزشتہ 5سال کے عرصے میں بحرین متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کواپنے سب سے بڑے قومی اعزازات سے نوازچکے ہیں۔حتیٰ کہ یو اے ای نے ابوظہبی میں دومندربھی بناکردیئے۔ مودی نے امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن سے بھی دوستانہ تعلقات یکساں طور پر رکھے ہیں لیکن وہ پہلے بھارتی سربراہ ہیں جس نے امریکی کیمپ جوائن کرلیا ہے اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ کیا ہے اسکی وجہ چین ہے جو اس وقت روئے زمین پر امریکہ کا سب سے بڑا حریف ہے امریکہ کا خیال ہے کہ اگرایشیاء میں کوئی ملک چین کے مدمقابل آسکتا ہے تو وہ انڈیا ہے بظاہر چین اور بھارت کے درمیان صرف لداخ کے ایک حصہ پر تنازع ہے لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں انڈیا چین کا بڑاتجارتی پارٹنربن گیا ہے سرحدی تنازع کے باوجود چین سمجھتا ہے کہ اگر امریکہ سے تجارت بند ہوجائے تو یہ کمی انڈیا پوری کرسکتا ہے تاہم اگرانڈیا نے ساؤتھ چائنا سی کے تنازعہ پرفریق بن کر امریکہ کا ساتھ دیا تو چین بھارت کو سبق سکھانے کی کوشش کرے گا یہی امکانی صورت پاکستان کیلئے ممد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ چین کے تعاون سے پاکستان میں اتنی قوت آجائے گی کہ وہ طاقت یا جنگ کے ذریعے بھارتی زیرقبضہ کشمیر پرقبضہ کرسکے ابتک کی صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ طاقت کے ذریعے دونوں فریقین کیلئے کشمیر کا حصول ممکن نہیں ہے حالانکہ کسی تنازع کے حل کیلئے دو راستے ہیں جنگ یا بات چیت پانچ جنگوں کے باوجود کشمیر کے تنازع کا فیصلہ نہیں ہوسکا لہٰذا فریقین کو چاہئے تھا کہ وہ بات چیت کاراستہ اختیار کرتے اس نازک گفتگو کیلئے پہلے بیک ڈور چینل ضروری ہے جیسے کہ فلسطین کے بارے میں اوسلو میں خفیہ مذاکرات ہوئے تھے اگراوسلو ٹائپ بات چیت شروع ہوجائے تو کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے نوازشریف نے اپنے دور میں اٹل بہاری واجپائی سے دوستانہ تعلقات قائم کئے تھے حتیٰ کہ پیرانہ سالی کے باوجود واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے تھے لیکن فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف ان تعلقات سے خوش نہیں تھے وہ اس خوش فہمی میں تھے کہ وہ طاقت کے ذریعے کشمیر حاصل کرلیں گے لیکن حالات نے ثابت کیا کہ وہ میدان جنگ سے فرار ہوگئے لاہور میں جماعت اسلامی کے تھنڈر اسکواڈ نے لاہور قلعہ کی ضیافت میں جانے والی اہم شخصیات پرحملہ کردیا۔حتیٰ کہ سفارت کاروں کو بھی نہیں بخشا کارگل کی جنگ کے وقت واجپائی نے کہاکہ انہوں نے دوستی کاہاتھ بڑھایاتھا لیکن انکی پیٹھ پر خنجر گھونپا گیا جب کسی تنازع پرگفتگو مقصود ہوتو پہلے اعتماد کی فضا بحال کی جاتی ہے ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں کہ بات چیت کی راہ ہموار بدقسمتی سے نریندر مودی مسئلہ کشمیر کو بھارت کا داخلی معاملہ سمجھ کر بات چیت سے انکاری ہیں حالانکہ عمران خان کی درخواست پر صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیش کش کردی تھی خیرٹرمپ کی ثالثی بھی کیا ثالثی ہوگی وہ بلاکے غیرسنجیدہ شخص واقع ہوئے ہیں یہی حال مودی اور عمران خان کا بھی ہے اب جبکہ5اگست2019ء کے اقدامات کے بعد مودی کا پلڑا بھاری ہے تو بات چیت کیلئے فضا ہموار نہیں ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کے جذباتی خطاب کے بعد بات چیت کا کوئی امکان نظرنہیں آتا کیونکہ اسلامی کانفرنس نے بھی عمران خان کی بات سننے سے انکار کردیا ہے مودی روز لائن آف کنٹرول پرگولہ باری کرکے جتارہے ہیں کہ وہ بات چیت کے بجائے جنگ پریقین رکھتے ہیں حالانکہ وہ اتنے بہادر ہوتے جنگ چھیڑدیتے کم از کم کشمیر مسئلہ ایک کروٹ تو بیٹھتا وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے بلاوجہ کے سطحی اقدامات کررہے ہیں اگر مودی واقعی بہادر ہوتے تو چین کومنہ توڑجواب دیتے لداخ میں انہیں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا دنیا کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت دشمنی اور محاذ آرائی چھوڑ کردوستی کریں تو وہ چند سال میں تیز رفتار ترقی کرسکتے ہیں اور ان کا تجارتی حجم ایک سوارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر نے 73قیمتی سال ضائع کردیئے ہیں۔دونوں ممالک اپنے بیشتر وسائل اسلحہ جمع کرنے پر خرچ کررہے ہیں حالانکہ یہ معاہدہ امن کرلیں اور جنگ نہ کرنے کی عالمی گارنٹی حاصل کریں تو معاشی بدحالی صرف 20سال میں ختم ہوسکتی ہے خاص طور پرپاکستان کا یہ حال نہ ہو جو اس وقت ہے کشمیر کے تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک نے ایٹمی اسلحہ بنایا اور نہ جانے اور کیا کیا تجربات کررہے ہیں۔
مودی بھارت میں ایک مصنوعی اورجارحانہ نظریہ لیکر چل رہے ہیں وہ پورے ملک میں ہندومت نافذ کرکے آبادی کے باقی حصوں کوغلام رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ آئینی طور پر بھارت ایک سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے بھارت کے اتنے تضادات ہیں کہ اگر مودی اپنے نظریہ پر مصر رہے تو بھارت کی ترقی اور وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اسی طرح پاکستان کو ابھی تک یہ خوش فہمی ہے کہ وہ عالم اسلام کا واحد ایٹمی طاقت ہے اور رہنمائی کا حق اسے حاصل ہے لیکن کیا کریں اس حقیقت کے باوجود عالم اسلام پاکستان کو چھوڑ چکا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنے ایٹمی پروگرام بنارہے ہیں امارات کو فرانس نے ایٹمی پلانٹ لگاکردیئے ہیں ایٹم بم کی ٹیکنالوجی کاحصول فی زمانہ اتنا مشکل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ یو اے ای جیسا چھوٹا ملک اپنے آپ کو خطے کا تھانیدار سمجھنے لگتا ہے وہ شام،یمن اور لیبیا میں مداخلت کررہا ہے ایران کے خلاف اس نے بلاوجہ محاذ کھول دیا ہے چند سال پہلے تک وہ پاکستان کو بھی ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کررہا تھا کیا”پھدی کیاپھدی کا شوربہ“ اگر یمن خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے لیبیا تقسیم ہوسکتا ہے شام جیسے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج سکتی ہے تو یواے ای کیا بیچتا ہے اسے چاہئے تھا کہ وہ اپنی ترقی کو محفوظ بناتا لیکن وہ جنگوں میں کود پڑا ہے جس کا خمیازہ کل نہیں تو پرسوں اسے بھگتنا پڑے گا یواے ای نے سعودی عرب سے بھی پہلے انڈیا سے دوستانہ تعلقات پیدا کئے تھے شیخ زید کے بعد یو اے ای نے آہستہ آہستہ پاکستان سے کنارہ کشی شروع کردی اب تو تعلقات سردمہری کی حدتک پہنچ گئے ہیں۔
یہ سوال تیزی کے ساتھ پوچھا جارہا ہے کہ پہلے سعودی عرب اور یو اے ای نے جو فوجی اتحاد بنایا تھا اسے اسلامی اتحاد کانام دیا تھا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اس اتحاد کا نام کیا ہوگا اگر مخالفین نے اس کا نام سعودی یہودی اتحاد رکھ دیا تو کیا ہوگا؟اور راحیل شریف کس طرح اسرائیل کے حمایت یافتہ اس اتحاد کے سربراہ رہ سکتے ہیں اگر پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ارادہ کرچکا ہے تو راحیل شریف واقعی سودمند ثابت ہونگے۔
تربت میں کراچی یونیورسٹی کے طالم علم حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل نے پورے سماج کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے اس سانحہ پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب اپنے ملک کے اندر اس طرح بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو تو پاکستان کس طرح مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کامسئلہ اٹھاسکتا ہے یا فلسطین میں صیہونی فورسز کے ہاتھوں مظلوم فلسطینی بچوں کے قتل کی مذمت کرسکتاہے۔
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ جس طرح امریکہ میں سفید فام پولیس والوں نے ایک سیاہ فام شخص جارج فلائڈ کی گردن پر گھٹنے رکھ کر اسکی سانس روک دی تھی یا غزہ کے چیک پوسٹ پر اسرائیلی فورسز نے ایک کمسن فلسطینی بچے کو قتل کیا تھا یہ بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ذمہ دار اہلکار کو کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے افسوسناک واقعات کا سلسلہ رک جائے اگرچہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے لیکن انصاف کی بات کرنا تو ضروری ہے۔