مینگو ڈے

انور ساجدی
17 اگست اس ملک پر طویل حکمرانی کرنے والے جنرل ضیاء الحق کی برسی کا دن ہے 1988کو اسی روز ان کا جہاز اڑان بھرتے ہی فضائوں میں راکھ ہوگیا اور متعدد جرنیل اعلیٰ افسر اور امریکی سفیر بھی اس سانحہ کی نذر ہوگئے ضیاء الحق کی برسی نواز شریف کے پہلے دور میں منائی جاتی تھی اور ان کے مقبرے کی دیکھ بھال بھی سرکاری طور پر کی جاتی تھی جو شاہ فیصل مسجد کے پہلو میں واقع ہے لیکن نواز شریف اپنی تیسری مدت میں اپنے سب سے بڑے محسن کو بھول گئے برسی تو اپنی جگہ ان کے مقبرے کی دیکھ بھال بھی ترک کردی گئی لیکن سنا ہے کہ عمران خان نے مقبرے کی تزئین و آرائش کے احکامات جاری کردیئے ہیں کیونکہ نظریاتی طور پر عمران خان ضیاء الحق کے بہت قریب ہیںجس طرح اس ملک کی اشرافیہ ضیاء الحق کے افکار و فلسفہ اور پاکستان کے بارے میں بیانیہ کو عزیز رکھتی ہے جناب عمران خان بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں 17 اگست کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسی دن کو نجات کا دن بتایا اور کہا کہ اگست کا مہینہ اور 17 تاریخ مینگو ڈے کہلاتا ہے بلاول کا یہ خطاب بے رحمانہ اور جارحانہ تھا کیونکہ ضیاء الحق نے ان کے نانا کو تختہ دار پر لٹکادیا تھا جبکہ ان کی نانی نصرت بھٹو کو لاہور کے ناصر باغ کے قریب ضیاء الحق کے دور میں جو ڈنڈے لگے تھے اس کی وجہ سے ان کے دماغ کو لگی چوٹیں کبھی ٹھیک نہ ہوسکیں شاہنواز بھٹو بھی اسی دور میں مارے گئے تھے اتنے المیے ہونے کے بعد اگر بلاول ضیاء الحق کی موت کو جائز قرار دیں تو یہ ان کا حق ہے تاہم ضیاء الحق کے پیرو کار بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں آج ملک میں ضیاء الحق کے نظریات عملی طور پر نافذ ہیں اور ان کے افکار کا دور دورہ ہے میرا ذاتی اندازہ ہے کہ آئندہ بھی اسی نظریہ کے لوگ اقتدار پر قابض رہے تو ضیاء الحق کو جتنا کنڈم کیا جاتا رہا ہے اس میں کمی آئے گی ان کے پیروکار باقاعدہ ہر سال ان کی برسی منایا کریں گے ہوسکتا ہے کہ ان کی برسی عرس کا درجہ حاصل کرلے دوسری جانب گڑھی خدا بخش میں بھٹو کا عرس بھی منایا جاتا رہے گا لیکن ضیاء الحق کے پیروکار کوشش کریں گے کہ بھٹو سندھ اور سندھیوں تک محدود رہے وہ پنجابیوں کو باور کرائیں گے کہ بھٹو کا پنجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے جس طرح پیپلز پارٹی پنجاب میںاپنی کشش کھوچکی ہے اسی طرح بھٹو کی شہادت کا سحر بھی باقی نہیں رہے گا ویسے بھی بابا بھلے شاہ کے بعد پنجاب میں کوئی نیا پیر سامنے نہیں آیا ہے اس خلاء کو ضیاء الحق کے ذریعے پر کیا جائے گا۔
علامہ خادم حسین رضوی نے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز حسین قادری کو پیر بنانے کی کافی کوشش کی لیکن وہ کوئی سیاسی شخصیت نہیں تھے وہ ضیاء الحق کی طرح بلند قامت حکمران نہیں تھے ضیاء الحق کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ایک مخصوص وحدانی طرز کے نظریہ کو جنم دیا اور اسلام کا نام لیکر قرون وسطیٰ کا نظام دوبارہ نافذ کردیا انہوں نے سیاست صحافت عدالت غرض کہ پورے سوشل اسٹرکچر کو بدل کر رکھ دیا انہوں نے ایک ہی رات میں بھٹو کی لائی ہوئی تبدیلیوں کو بلڈوز کردیا انہوں نے سیاسی نظام کا کایا پلٹ کر آمریت کو دوام دیا یہ آمریت آج بھی قائم و دائم ہے حالانکہ کہنے کو جمہوری نظام موجود ہے پارلیمنٹ کام کررہی ہے حکمرانی کا طرز بھی پارلیمانی ہے لیکن یہ سارا نظام ہائی برڈ اور مصنوعی ہے وزیراعظم کو ملکی معاملات پر قدرت حاصل نہیں ہے انصاف پوچھ کر کیا جاتا ہے پارلیمنٹ ربڑاسٹیمپ ہے طاقت کے ناخدا جب چاہیں اپوزیشن اور حکمرانوں کو اکٹھے بٹھا کر مطلوبہ قوانین پر انگوٹھا ثبت کرواتے ہیں اقتدار کے بلند بالا ایوانوں میں ہر روز ضیاء الحق کے گن گائے جاتے ہیں ان کے کارنامے بیان کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی عظیم ترین سپرپاور جمہوریت یونین کو کس طرح شکست سے دوچار کرکے نیست و نابود کردیا ضیاء الحق کا یہ کارنامہ بھی یاد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملے کو کس طرح ناکام بنایا حالانکہ اسرائیل نے ایسا کوئی منصوبہ بنایا ہی نہیں تھا ضیاء الحق کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے بھٹو جیسے ملک دشمن کو کیفر کردار تک پہنچاکر اور اس کے نظریات کو باطل کرکے ملک کی نظریاتی سرحدوں کا کامیاب دفاع کیا نامور صحافی مجیب الرحمن شامی نے ضیاء الحق کی برسی پر ایک روزنامہ میں طویل مضمون لکھ کر ان کے صحیح پیروکار ہونے کا ثبوت دیا ہے پاکستانی میڈیا بھی ضیاء الحق کا شیدائی ہے ضیاء الحق کے سیاسی اور نظریاتی پیروکار میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں ان کاکام روشن خیال اور ترقی پسند عناصر کو نیچے دکھانا ہے جو بھی جمہوریت اعلیٰ انسانی اقتدار اور آئین اور بنیادی حقوق کی بات کرے تو اسے غدار قرار دینے میں ایک لمحے کا تامل نہیں کیا جاتا ضیاء الحق کے پیروکار کوشش کررہے ہیں کہ کس طرح 1973 کے آئین سے جان چھڑائی جائے تاکہ صوبوں کا قصہ تمام ہوجائے یہ لوگ صدارتی نظام اور وحدانی طرز حکومت کے فوائد بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے ضیاء الحق نے افغان جنگ کے دوران جس طرح اسرائیلی ماہرین کو اسلام آباد میں رہنے کی اجازت دی تھی وہ صیہونی ریاست اور پاکستان کا پہلا براہ راست رابطہ تھا یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق کے جانشین جو سیاست اور میڈیا میں موجود ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وکالت کررہے ہیںیہ لوگ بزدار شمشیر کشمیر پر قبضہ کرنے پر زور دیتے ہیں لیکن وہاں بس نہیں چلتا تو تاکید کرتے ہیں کہ بلوچستان کا قصہ ختم کرنے کیلئے اس پر بمباری کی جائے سوشل میڈیا پر اس طرح مشورے روز نظر آتے ہیں۔
بلوچستان میں طاقت کے استعمال اور تشدد کی کارروائیوں کو ضیاء الحق کے حامیوں کی حمایت حاصل ہے حالانکہ بھٹو نے بلوچستان میں طاقت استعمال کی تھی لیکن ضیاء الحق نے اس سے گریز کیا تھادراصل ضیاء الحق ایک شخص کا نام نہیں ہے یہ ایک مائنڈسیٹ کا نام ہے جو ایک خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور ہر روز بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے ہیں جب بڑی طاقتوں پر ان کا بس نہیں چلتا
تو ایک ماں کا ڈوپٹہ کھینچ کر اسی کے جوان بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھتے ہیں پھر اس مظلوم ماں کے سامنے اس کے بیٹھے کو گولیوں سے چھلنی کردیتے ہیں ضیاء الحق مائنڈسیٹ بدی کی طاقتوں کی علامت ہے جو کمزوروں کا خون بہاکر شاداں رہتا ہے یہی مائنڈسیٹ آئندہ چل کر فیصلہ کن شکل اختیار کرے گا جس کا نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے۔
٭٭٭