لٹل بوائے

انور ساجدی
عقل حیران ہے دل پریشان ہے ذہن ماؤف ہے کہ کیا لکھا جائے کیا کہاجائے کیا بولاجائے جو محسوس ہورہا ہے اسے کیسے ضابطہ تحریر میں لایا جائے لوگوں نے اتنادرد اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا گیا ہوگا ایک پوری خلقت کی بے چارگی ایک نہتے نوجوان کے قتل نے گویا پوری تاریخ رقم کردی ہے یاد رکھنے کی بات ہے جنگوں میں ایسا ہوتارہا ہے آئندہ بھی ہوگا لیکن اقوام متحدہ نے قراردیا ہے کہ نہتے لوگوں پر گولی نہیں چلائی جائیگی دونوں فریقین پر لازم ہے کہ وہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ہدف نہ بنائیں لیکن بنیادی حقیقت یہی ہے کہ جنگوں کے عمومی شکار معصوم اور بے گناہ لوگ ہی بن جاتے ہیں اس سلسلے میں دنیا بھر کی بڑی مثالیں موجود ہیں فلسطین کو لیں شام کو لیں یمن کو لیں برما کو لیں کشمیر کو لیں ہر جگہ معصوم بچوں کا خون جما ہوا نظرآتا ہے لیکن ان تمام مقامات پر جارح اور ظالم قوتوں کا بول بالا ہے کیونکہ وقت کا فرعون انکے مظالم کے پیچھے ہے۔
گزرے زمانے میں اطلاعات سورج کی رفتار سے نہیں پہنچتی تھیں اس لئے لوگ بے خبر رہتے تھے مثال کے طور پر جب امریکہ نے ہیروشیما اورناگاساکی پرایٹم بم گرائے تو اس وقت کے میڈیا کو پہلے دن معلوم نہیں ہوسکا کہ روئے زمین پرپہلی مرتبہ اورلاکھوں انسانوں میں پہلی بار دنیا کا مہلک ترین بم گرایاگیاہے۔ 6ستمبراور9ستمبر1945ء کے دودن بعد امریکہ نے دنیا کو آگاہ کیا کہ اس نے جو پہلا ایٹم بم گرایا اس کا نام لٹل بوائے تھا لاکھوں انسانوں کوبھسم کرنے کے بعد ہی امریکہ نے اعلان کیا کہ روئے زمین کا فرعون وہی ہے اگراسکا مدقابل کوئی ہے توسامنے آئے امریکہ نے جب ویت نام پر قہرآلود نیپام بموں کوپہلی مرتبہ استعمال کیا تو ہر طرف آگ کے شعلے ہی دکھائی دیتے تھے ایک دن ایک سڑک پرایک بم گرا ایک کمسن بچی کالباس جل کر خاکستر ہوگیا یہ بچی بے لباس ایک سڑک پر دوڑے جارہی تھی اس تصویر نے امریکہ کے اندر نیپام بموں سے زیادہ آگ لگائی اورلاکھوں لوگ سڑکوں پرآئے اور جنگ بند کرنے کا مطالبہ کردیا تھا لیکن امریکہ پھر بھی باز نہ آیا اس نے بعد میں بھی کئی جنگیں چھیڑیں کیونکہ جنگ کے بغیر اس کا گزارہ نہیں اسکی معیشت جنگوں پر استوار ہے اس نے1991ء میں خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی کابہانہ بناکر ہزاروں معصوم عراقی باشندے قتل کردیئے عراق آج تک سنبھل نہیں سکا نائن الیون کے بعد اس نے تباہ حال افغانستان پر تاریخ انسانی کی بدترین بمباری کی اس نے دنیا کا مہلک ترین غیر ایٹمی بم افغانستان میں استعمال کیا حالانکہ امریکی جہاد اور بعدازاں خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افغان جن میں بچوں کی بڑی تعدادشامل تھی موت سے ہمکنار ہوئے تھے اسکے باوجود اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اب جبکہ امریکہ افغانستان سے راہ فرار اختیار کررہا ہے تو اس بدقسمت ملک میں ایک اور جنگ دستک دے رہی ہے انتہا پسند طالبان ایک بار پھر خون پینے کیلئے تیار نظرآرہے ہیں نہ جانے نئی جنگ میں کتنے معصوم بچے گہری نیند سوجائیں گے۔
ایک اور ہولناک جنگ ارض فلسطین میں بھی دستک دے رہی ہے کیونکہ بیشترعرب ممالک نے فلسطین کو بے یارومددگار چھوڑ کر اسرائیل کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے فلسطینی بچے غلیل اور ”پیرانپ“ لیکر لڑیں گے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے کیونکہ ان کے پاس ہتھیار نہیں ہے وہ صرف جسم وجان لڑاکراپنی لڑائی لڑیں اس خطے میں ایک اور گوریلا جنگ شروع ہونے کا امکان ہے یہ خدشہ بھی ہے کہ ملوکی عرب حکمرانوں کو سبق سکھانے کیلئے تمام عرب دنیامیں ایک ردعمل ہوگا جس دن سعودی عرب نے فلسطینی حقوق اور قبلہ اول کونظرانداز کرکے اسرائیل کوتسلیم کرلیا تو عرب ممالک کے اندر زبردست انتفادہ شروع ہوگا اسکے نتیجے میں جلد یا بدیر ملوکی حکمرانوں نام نہاد بادشاہوں فوجی حکمرانوں اور خودساختہ امیروں کا دورختم ہوگا ہاں بچے ضرور مریں گے خواتین ضرور کام آئیں گی اورحیات بلوچ جیسے معصوم نوجوان بھی گولیوں کی زد میں آجائیں گے جو بھی ہو ایک فیصلہ کن جنگ عالم اسلام میں ہونا ناگزیر ہے کب تک امریکہ اور اسکے حواری انسانی ارتقاء انسان کی آزادی اور بنیادی حقوق کو روکے رکھیں گے ظلم جب انتہا کو پہنچ جائے تو اس کا خاتمہ لازمی ہوتا ہے گزشتہ صدی میں بہت خون بہاہے لاکھوں معصوم جانیں بھلی چڑھ گئی ہیں لیکن یہ آزادی کی صدی ہے جہاں جہاں سامراج نے آزادی کی تحریکوں کو روک رکھا ہے وہ کامیابی سے ضرور ہمکنار ہونگی چاہے یہ کشمیر ہوفلسطین ہو یاکردستان ہو طویل عرصہ سے جاری انکی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔
دنیا کے جن جن علاقوں میں بنیادی حقوق اورشہری آزادیوں کی تحریک چل رہی ہیں چاہے وہ چینی ترکستان ہو یاداغستان انکو صرف طاقت کے ذریعے روکنا ممکن نہیں ہے۔
ایک اہم گزارش پاکستانی حکمرانوں سے بھی حیات بلوچ گوریلا نہیں تھے وہ بندوق اٹھاکر پہاڑوں پرنہیں گئے تھے انہوں نے قلم اٹھایا تھا لیکن حکومتی رٹ کے نام پر اس قلم کو خون میں غلطاں کردیا گیا اس واقعہ کے بعد کافی سارے نوجوان قلم نہیں اٹھائیں گے انکو ترغیب ملی ہے کہ وہ ہتھیار اٹھائیں اپنے ہی شہریوں کیخلاف طاقت کا بے رحمانہ استعمال کسی بھی حکومت کو زیب نہیں دیتی ایوب خان نے6بلوچوں کو تختہ دار پرلٹکادیا تھا اور 90سالہ نواب نوروزخان کو حیدرآباد جیل میں ماردیا تھا اس کا نتیجہ کیا نکلا جنرل مشرف نے نواب اکبر خان بگٹی کو بمباری کرکے شہید کردیاکیا اس سے حکومتی رٹ مضبوط ہوئی؟
کیا واجہ غلام محمد لالہ منیر اور شیر جان کے قتل نے کوئی آسانی پیدا کی کوئی بھی تحریک ہو اسے صبروتحمل اوربہترحکمت عملی کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔حیات بلوچ کے قتل نے وہ کام کردیا جو ہزاروں گوریلے مل کر نہیں کرسکتے انکے قتل نے ساری دنیا کے ضمیروں کو جھنجھوڑا ہے حتیٰ عمران خان کی وزیرشیریں مزاری کو بیان دینا پڑا حیات کی موت کاراتناردعمل دیکھنے میں آرہا ہے جو آج تک کسی بھی واقعہ کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا گویا واقعات سے پردہ اٹھ گیا ہے اور بلوچستان کی ایک اور تصویر لوگوں کے سامنے آگئی ہے لوگ مشرقی پاکستان کی مثالیں دے رہے ہیں جب وہاں طاقت کااستعمال ہوا تو حکومتی رٹ قائم ہوسکی؟کیا کچھ کھونا پڑا یہ سوچنے کی بات ہے کیا وزیرستان میں طاقت کے استعمال سے وہاں پرامن قائم ہوگا؟یاغداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سے حالات میں کوئی بہتری آئیگی۔
حکمرانوں کوسوچنا چاہئے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے بہتری کس طرح آئیگی کیا کراچی کو سندھ سے الگ کرنے یا ملک میں واحدانی طرز کا نظام قائم کرنے سے ریاست کواستحکام ملے گا جب وحدانی نظام رائج تھا تو ملک دولخت نہیں ہوا؟ملکی قیادت کو اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے کہیں حبیب جالب والی بات نہ ہو۔
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہاہے
یقین مجھ کو منزل کھورہے ہو
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں