زخموں پر نمک پاشی

انور ساجدی
2015ء میں جب پاکستانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ سعودی عرب کی مدد کیلئے فوج یمن نہیں بھیجنا ہے تو سعودی عرب اور یو اے ای نوازشریف سے سخت ناراض ہوگئے تھے کہاجاتا ہے کہ جب سعودی عرب نے نوازشریف سے درخواست کی تھی تو انہوں نے حامی بھری تھی اور یس کہا تھا۔لیکن جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کی سرزنش کی اورفرمایا کہ ہمیں سعودی عرب اور ایران کی جنگ میں کسی کا فریق نہیں بننا چاہئے اور نہ ہی یمن کی خانہ جنگی میں حصہ لینا چاہئے۔انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا جائے تاکہ سعودی فرمانروا سے یہ عذر پیش کیاجاسکے کہ پارلیمنٹ نے فوج بھیجنے کی مخالفت کی ہے مشورہ تو راحیل شریف کا اچھا تھا لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سیدھے ریاض گئے اور سعودی عرب کی ملازمت اختیار کرلی کہنے کو تو وہ اسلامی اتحاد فورسز کے کمانڈر انچیف ہیں لیکن سعودی عرب جیسے ملک میں کوئی عہدہ معنیٰ نہیں رکھتا سارے بادشاہ کے ملازم ہوتے ہیں سعودی عرب جو اس وقت سے نوازشریف سے ناراض ہے آج تک خوش نہیں ہوا فوج بھیجنے سے انکار پر متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ قرقاش نے ایک طویل مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ عرب روایات میں وعدہ خلافی اور بدعہدی بہت براعمل تصور کیاجاتا ہے انہوں نے نوازشریف کے عمل کو بدعہدی اور دھوکے سے تعبیر کیاتھا یہی وجہ ہے کہ جب نوازشریف کیخلاف پانامہ کیس چلنا شروع ہوا تو یواے ای نے اقامہ کی تصدیق شدہ کاپی دینے میں دیر نہیں کی۔
2018ء کو جب عمران خان برسراقتدار آئے تو سعودی بادشاہ شاہ سلمان اور ولی عہد ایم بی ایس بڑے خوش ہوئے تاہم عمران خان نے جب چارج سنبھالا تو معیشت کی بہت بری حالت تھی۔آئی ایم ایف سے رجوع کیاگیا لیکن اس میں تاخیر کاامکان تھا چنانچہ عمران خان سعودی عرب گئے اور مالی امداد کی درخواست کی سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات سے مشورہ کرکے 8ارب ڈالرکے پیکیج کی منظوری دی جن میں سے3ارب ڈالر سعودی عرب اور 2ارب ڈالر یواے ای نے دیئے جبکہ سعودی عرب نے3.2ارب ڈالر کا تیل بھی ادھار پر دینے کی منظوری دی ایم بی ایس نے اسلام آباد کا دورہ بھی کیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے کام کریں گے تعلقات کافی اچھے تھے کہ حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف سخت کرنے کا فیصلہ کیا اسی پالیسی کے تحت عمران خان نے ایک پرجوش اورجذباتی خطاب سے جنرل اسمبلی کو سرپراٹھالیا حالانکہ ولی عہد نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا انہوں نے اپنے خصوصی طیارے میں پاکستانی وزیراعظم کو نیویارک بھیجا تھا لیکن خطاب کے بعد انہوں نے اپنا جہاز واپس بلالیا یعنی دوگھنٹے کے سفر کے بعد انہیں واپس اتاردیا اس خطاب کے بعد عمران خان کو عالم اسلام کا لیڈر بننے کا خیال آیا انہوں نے طیب اردگان اور مہاتیر محمد کو امہ کے مسائل پر ایک کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی لیکن سعودی عرب کے منع کرنے پر وہ خود شرکت کیلئے نہیں گئے اور بعدازاں بتایا کہ وہ ولی عہد کی بلیک میلنگ کی وجہ سے کوالالمپور کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے تھے اس سے سعودی عرب سے تعلقات مزید خراب ہوگئے اسی دوران وزیراعظم کے حکم پر پی ٹی وی پر ارطغرل ڈرامہ دکھایاجانے لگا یہ ڈرامہ کیا ہے؟بظاہر تو سلطنت عثمانیہ کی تشکیل کی کہانی ہے لیکن یہ عربوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ سارے عرب عثمانیہ سلطنت کے غلام تھے عربوں نے انگریزوں سے مل کر اس سلطنت کا خاتمہ کردیا اس کا نام سن کر انہیں خوف آتا ہے لیکن عمران خان اس سلطنت کے بانیوں کو ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں ممکن ہے انکے ذہن کے کسی گوشے میں سلطان بننے کی خواہش چھپی بیٹھی ہو کیونکہ موصوف جمہوریت آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کے طرفدار نہیں بلکہ وہ قرون وسطیٰ کے نظام کے حامی ہیں اور اسی طرح کانظام پاکستان میں بھی قائم کرنا چاہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ آکسفورڈ میں انکی جگہ کسی اور نے تعلیم حاصل کی ہے اور انکے امتحانی پرچے کسی اور نے حل کرکے دیئے ہونگے یہی وجہ ہے کہ انکے سرٹیفکیٹ پر تھرڈ گریڈ لکھا ہوا ہے یورپ میں ایسے کسی ڈگری ہولڈر کو ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی لیکن تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں وزیراعظم بننا بھی ممکن ہے حالات ثابت کررہے ہیں کہ وزیراعظم کواپنی عمر کا احساس بھی نہیں ہے وہ ابھی تک اپنے کو یوتھ سمجھتے ہیں۔انکی سوشل میڈیا ٹیم لوگوں سے یہ رائے پوچھ رہی ہے کہ2023ء کے بعد بھی آپ عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں یعنی وہ75سال یا اسکے بعد بھی وزیراعظم یا صدر رہناچاہتے ہیں خارجہ پالیسی اور اسکی باریکیوں سے نابلد وزیراعظم نے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سری نگری کا سقوط ہوگیا لیکن کسی ملک نے بھارت کو کنڈم نہیں کیا سری نگر میں بچوں کا خون بہہ رہا ہے لیکن وزیراعظم میڈیا کے ذریعے سخت بیانات کے سوا اور کچھ نہیں کررہے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے انہوں نے سعودی عرب کو ناراض کردیا۔
پاکستان کی حکومت کے رویہ کو لیکر پاکستان میں 8سال تک سعودی سفیر رہنے والے العسیری نے عرب نیوز میں ایک طویل مضمون لکھا انہوں نے گنوایا کہ سعودی عرب پاکستان کی کیا کیا مدد کرتا رہا ہے جواب میں پاکستان نے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ خطے میں سعودی عرب کے دشمنوں سے پینگیں بڑھائیں بھارت سے تعلقات پر اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے سعودی سفارت کار نے واضح طور پر کہا کہ سعودی عرب تیل کی آمدنی کم ہونے کے بعد آمدنی کے نئے ذرائع ڈھونڈ رہا ہے اس مقصد کیلئے وہ انڈیا میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے سابق سفیر کا بیان دراصل سعودی عرب کا سرکاری موقف ہے چنانچہ ان حالات میں جو مشن ریاض گیا اسے ناکام ہی ہونا تھا ولی عہد نے ملاقات نہیں کی اور معاملہ اپنے چھوٹے بھائی خالد کے سپرد کردیا جو نائب وزیردفاع ہیں ہوسکتا ہے کہ طویل سفارت کاری کے باعث غصہ کچھ کم ہوجائے لیکن ایم بی ایس ایک ضدی انسان ہیں وہ جو ٹھان لیتے ہیں کرلیتے ہیں اور پھر اڑجاتے ہیں ایم بی ایس کے نزدیک یا تو آپ دوست ہیں یا دشمن یہ قدیم عرب روایات کاایک لازمی جز ہے۔عمران خان جب تک کئی کشتیوں میں سوار رہیں گے تعلقات بہترنہیں ہونگے وہ کشمیر کو لیکر جذباتی ہورہے ہیں حالانکہ انکی حکومت اس سلسلے میں کیا عملی اقدامات کررہی ہے۔
زبانی کلامی اقدامات کے سوا کوئی ٹھوس قدم نظرنہیں آتا اسکے باوجود وہ دوستوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ انڈیا سے تعلقات خراب کریں عمران خان کے اپنے پلے کیا ہے ایک کاسہ گدائی وہ ملک ملک جاکر امداد اور قرضے مانگتے ہیں فی زمانہ ان ممالک کی قدر ہوتی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہوں بھیک مانگنے والوں کی کیاعزت ہوتی ہے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسیاں تبدیل کریں ہرطرح کے اخراجات کو نصف کم کریں خود بھی آدھی روٹی کھائیں حکومت کا شاہانہ طرز عمل ختم کریں دیگرممالک ان کی شاہ خرچیاں کب تک برداشت کریں گے۔عمران خان کے وزیرخارجہ کا یہ حال ہے کہ وہ افسروں سے الجھتے ہیں اورہاتھا پائی کرتے ہیں جو وزیرخارجہ وزیراعظم کے پرنسل سیکریٹری کے تھپڑکھائے وہ خاک خارجہ پالیسی چلائیگا۔جس دن آرمی چیف سعودی عرب میں تھے شاہ محمود نے قطر کے سفیر کو اپنے دفتر بلایا ہوا تھا یہ سعودی عرب کو جان بوجھ کر اشتعال دلانے کی کوشش تھی جس کا نتیجہ اگلے ہی روز سامنے آیا اپنی سابقہ جماعتوں سے بے وفائی کرنے والے ملتان کے گدی نشین ایک معززوزیرخارجہ کی بجائے ایک مسخرہ بن گئے ہیں اگرانکی جگہ اورنہیں شیخ رشید بھی وزیرخارجہ ہوتے تو خارجہ پالیسی کو زیادہ بہتر طریقہ سے چلاتے۔
گزشتہ دوکالموں میں کمپوزنگ کی دوفاش غلطیاں ہوگئی ہیں میرے یار غار حاجی خلیل الرحمان نے نشاندہی کی کہ پدی کی جگہ کوئی غلط لفظ لکھا ہے لہٰذا اسے پدی پڑھا جائے گزشتہ روز کے کالم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم گرانے کا مہینہ اگست ہے جو غلطی سے ستمبر لکھا گیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں