چراغٍ حیات کی لومدہم تو نہیں ہوئی

راحت ملک
13اگست2020ء کے دن گیارہ اور ساڑھے بارہ بجے کے درمیان کا وقت ہے تربت کے نواحی علاقے آبسر میں سردار عبدالرحمن کے کھجور کے باغ میں مرزا بلوچ،اس کی اہلیہ اور بڑا بیٹا تپتی دھوپ اور شدید گرمی میں درختوں ں سے کھجوریں اتارنے کا کام کررہے ہیں بنیادی طور پر مرزا بلوچ کولواہ کے رہنے والے تھے لیکن عرصہ ہوا تربت منتقل ہوچکے تھے۔انتہائی غریب محنت کش اور مفلس مرزا بلوچ کے چار بچے ہیں۔تین بیٹے ایک بیٹی،مراز بلوچ اور اس کی اہلیہ ہر سال کھجوروں کی فصل تیار ہونے پر اس باغ میں اجرت پر کھجوریں اتارنے کا کام کرتے آرہے ہیں۔یہ انتہائی دقت طلب کام ہے جو مکران جیسے گرم علاقے میں جہاں شدید گرمی ہوتی ہے انجام دیا جاتا ہے اسی اجرت اور دیگر محنت کشی کے ذریعے مرزا بلوچ اپنے کنبے کو پال رہا ہے۔13اگست کو دوپہر کے وقت مرزا بلوچ کو دھماکے کی آواز سنائی دیتی ہے جو سردار عبدالرحمن کے باغ سے متصل سڑک کی دوسری جانب ہوا تھا۔دھماکے کی آواز سن کر مرزا بلوچ کا بیٹا اپنی ماں کی جانب بھاگتا ہے۔باغ کے نزدیک ایف سی کی چیک پوسٹ ہے جس کے عقب میں ایف سی کیمپ بھی ہے۔دھماکے کی آواز سنتے ہی مرزا بلوچ کا بیٹا جب اپنی والدہ کی جانب بڑھتا ہے تربت کے لوگوں کے مطابق عین اسی لمحے ایف سی اہلکار مراز بلوچ کے بیٹے کو ہینڈ زاپ کی کال دیتے ہیں بتایا گیا مرزا بلوچ کے بیٹے نے اپنے باپ کی روایتی بلوچی چادر کندے پر رکھی ہوئی تھی اہلکار نے اسی چادر سے مرزا بلوچ کے بیٹے کے ہاتھ باندھے اور پھر اس پر فائر کیا گیا اے کے 47 کی آٹھ گولیاں مراز بلوچ کے جوان سال بیٹے کے جسم میں پیوست ہوگئیں خون کی دبیز لکیر بہہ نکلے اور مرزابلوچ کا جوان سال بیٹا مرزا حیات بلوچ موت کی گہری وادی میں چلا گیا۔ماں،باپ جوان سال بیٹے کے اچانک بلاوجہ قتل پر حیران رہ جاتے ہیں۔لاش کے پاس اسکے غمزدہ ماں باپ کی نوحہ کرتی تصویر گوکہ بولتی نہیں لیکن غضبناک۔۔” خامشی ” میں وہ سب کچھ بیان کردیتی ہے جو اس درد ناک سانحہ کے عوامل وحالات پر مبنی ہے مگر جسے سکوت مرگ کے انداز میں عوام سے چھپایا جارہا ہے۔مرزا حیات بلوچ کے لہو لہان بدن پر چپکے ہوئے خستہ حال لباس سے جو ہتھیار برآمد ہوا وہ اس کے زیر استعمال بال پین ہے۔کیا واقعی حیات بلوچ موت کے ہاتھوں مرگیا ہے؟ نہیں بلکہ موت اور موت بانٹنے والے حیات کے سامنے شکست کھا گئے ہیں جب بھی ظلم وبربریت کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہونے والوں کا ذکر ہوگا۔مرزاحیات بلوچ اس صف میں سب سے آگے دکھائی دے گا۔مرزا حیات بلوچ کی شہادت محض سانحہ نہیں دو رس منفی اثرات مرتب کرنے والا کربناک واقعہ ہے۔جو زندگی اور موت کے بیچ صدیوں سے جاری کشمکش میں حیات آفرینی کا عنوان بلند کرتا رہے گا۔حیات بلوچ کی المناک شہادت اور اس کی لاش پر کراہاتی ماں اور باپ کی چیخیں،مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ماہ ہونیوالے واقعہ کی یاد تازہ کرگئی ہیں ایک ویڈیو جس میں معصوم نواسے کے سامنے اس کے نانا کو بھارتی سیناں نے گولیاں مار کر شہید کیا تھا۔معصوم بچے کی آہ وپکار کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا پھر دنیابھر میں زندہ ضمیرانسانوں کو آبدیدہ کردیا تھا۔ ذرائع ابلاغ پر ان واقعات کی مماثلت کے باوصف وہ درد دکھ اور احتجاج کا انداز مشترک دکھائی نہیں دیا۔جو کشمیری برزگ کے قتل پر ملکی ذرائع ابلاغ پر دیکھا گیا تھا۔یہ تضاد اور لاتعلقی کتنے گہرے معنوی اثرات اور زخم پیدا کرتی ہے؟؟ اسے وہ شخص ہی محسوس کرسکتا ہے جو انسانیت اور مملکت کے شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک وانصاف پر یقین رکھتا ہوگا۔ کاش آج منو بھائی زندہ ہوتے تو لاہور سے حیات بلوچ کا نوحہ لکھتے مگر وائے سکوت خوف۔و خاموشی۔۔اہل بلوچستان ارشاد بھٹیوں یا حسن نثاروں جیسے دانشوروں سے کیا تو قع رکھ سکتے ہیں؟؟۔تاریخ البتہ اس کا جواب وحساب برابر کرے گی۔
یہ حیات بلوچ تھا کون؟
کم وبیش 26سال کی عمر میں جامعہ کراچی میں فزیالوجی میں بی ایس کا طالب علم تھا انتہائی غریب گھرانے کا چشم و چراغ جسے اپنے اور اپنے گھرانے کی صدیوں پر محیط غربت وافلاس سے نجات کا ایک ہی ذریعہ سمجھ میں آیا تھا کہ پڑھ لکھ کر کسی اہم سرکاری عہدے پر پہنچے تو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کیلئے خوشگوار آسودہ حال زندگی کے مزید آیام کشید کرپائے گا اسی عزم کے ساتھ حیات بچپن سے ہی پڑھنے پر توجہ دیتا رہا اس کے زمانہ سکول کے اساتذہ کے بقول وہ اپنے ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ بھی زیادہ میل مول رکھنے کی بجائے پڑھائی پر دھیان دیتا تھا اس کی معصومانہ مسکراہٹ اور شرمیلے پن کا ذکر کرتے ہوئے ایک استاد کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں
حیات شہید بی ایس فزیالوجی کے بعد سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ تعطیلات کے دوران ماں باپ کا محنت میں ہاتھ بٹانا اس کا شیوہ تھا افلاس سے لڑنے کا یہی ایک طریقہ سماج کی بچھاڑی گئی نچلی پرت کے پاس باقی رہ گیا تھا جو اب دھندلا رہا ہے حیات کے دونوں بھائی بھی محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے اور بھائی کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے تھے۔ایک بھائی نجی کلینک پر کام کرتا ہے۔ حیات نے تربت کے نجی سکول سے میڑک کیا پھر عطا شاد ڈگری کالج سے ایف ایس سی پاس کرکے کراچی یونیورسٹی میں بی ایس فزیالوجی کیلئے چلاگیا۔ بی ایس کرنے کے دوران حیات سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری میں بھی مگن رہا سکول اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ بہت محنتی اور ذہین طالب علم تھا کم گو معصوم شرمیلا نرم گفتار تھا حیات بلوچ بنا کسی جرم گناہ و الزام اپنے بدن میں بندوق کی آٹھ بارودی گولیاں سمیٹ کر آسودہ خاک وطن ہوگیا ہے اور اپنے پیچھے سوالوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چھوڑ گیا ہے
یہ کہا جارہا ہے کہ۔ حیات بلوچ غلطی کا نشانہ بنا ہے چلئے یہ تو طے ہوا کہ اس پر شرپسندی کا الزام نہیں لگ سکا۔ مگر اتفاقاً خطا اور غلطی سے تو ایک گولی لگنی چاہئے تھی؟ آٹھ گولیاں اسکے نحیف جسم میں کیونکر اتر گئیں؟
اس دلخراش واقعہ کے بعد اگر یہ محض اتفاقی حادثہ اور خطا کا نتیجہ ہے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ کو غمزدہ خاندان کے پاس جا کر دکھ بانٹنا چاہئے تھا۔ متعلقہ اہلکار کی عجلت و غفلت باخطا کا جائزہ لینے کیلئے کورٹ مارشل کا آغاز ہوتا اور سب سے اہم یہ کہ بلوچستان کے معاشرتی رسم و رواج کے مطابق ایف سی کے مقامی حکام غمزدہ خاندان کے پاس جاتے ان سے معذرت کرتے پرسا دیتے۔ اس طرح حیات واپس تو نہیں آتا البتہ مغموم خاندان کا دکھ کم ہوجاتا۔ متاثرہ خاندان کو اتنی کثیر مالی امداد بلکہ دیت یا زرتلافی دیئے جائیں کہ وہ اپنی کسمپرسی اوردکھ کے مداوہ پر اکتفا کر سکیں تو اندمال کا اہتمام زخم بھرنے میں معاونت کر سکتا ہے۔ تاحال ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ بلوچستان بھر میں ہر طبقہ ِفکر اس سانحے پر رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے سارا صوبہ غم میں ڈوبا ہوا ہے مگر افسوس چند ہمدردانہ آوازوں کے ماسوا اہل بلوچستان کا نوحہ اپنی زمینی بیابانی کی طرح صاف طور تنہا اور مایوس کا شکار دکھائی دے رہا ہے اس سانحہ کے بعد کے اثرات کا جائزہ اس وقت ممکن نہیں کہ جذبات کی شدت اور پر نم آنکھیں آنے والے دنوں کے منظر کو درست طور پر سمجھنے دیکھنے اور بیان کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ مگر وہ گولیاں جو بے گناہ مظلوم حیات کا بدن تار تار کر گئی ہیں ان کی سنسناہٹ آنے والے دنوں کی گھمبیرتا بیان کررہی ہیں۔قبل اس کے کہ آگ جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لے حالات کے سلگتے پن پر مرہم رکھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ بلوچستان عدالت عالیہ جوڈیشل انکوائری کا اہتمام کر کے ایک اچھی پیشرفت کر سکتی ہے حیات کی شہادت پر بلوچستان کے نوجوانوں میں اضطراب غم و غصہ کی تشویشناک لہر دوڑ گئی ہے۔ مجھے ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگلہ زبان رائج کرنے کے مطالبے کے حق کیلئے جمع ہونے والے بنگالی طلبہ یاد آرہے ہیں جن پر جواباً ریاستی تشدد ہوا تھا کئی طلبہ شہید ہونے تھے جن کی یاد میں اب ہم ساری دنیا کے ساتھ ہمنوا ہو کر فروری میں قومی زبانوں کا عالمی دن مناتے ہیں تاریخ اس طرح کے وار بھی کرجاتی ہے۔
حیات شہید۔۔مرزا بلوچ کنبے کی حیات آفرین امیدواروں کا دیا تھا جرم ٍ بے گناہی میں اس چراغ کو بجھانے سے سماج میں تاریکی کے مقابل روشنی کی کرن کم نہیں ہوگی شاید اس لو میں اضافہ ہو۔ کوئٹہ کے جواں فکر شاعر فیصل ندیم کی نظم یقینا اجتماعی دکھ کی مظہر ہے
یہ جو مُردہ کفن کی لاش میں ہے
زندگی اب تری تلاش میں ہے
اب اُجالا کہیں نہیں ملتا
تیرگی اتنی بُود و باش میں ہے
تری بندوق کو خبر ہی نہیں
کیسی لذت مری خراش میں ہے
مسئلہ یہ نہیں بلوچوں کا
جو بھی انساں ہے ارتعاش میں ہے
سبز مٹی میں مل گئی ہے حیات
سرخ مٹی ابھی تراش میں ہے
دشمنوں سے تو بچ گیا تھا ندیم
اب محافظ مری تلاش میں ہے