قیادت کی ایک رات

انور ساجدی
میں نے اپنی زندگی میں بارشوں کے بعد کراچی کی اتنی تباہی کبھی نہیں دیکھی جب میں کراچی ایئرپورٹ پراترا تو وہاں پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں کچھ ٹیکسی والے رمادا ہوٹل تک ہی جانے کیلئے تیار تھے بڑی مشکل سے ایک منی ٹرک ملا اب شاہراہ فیصل پراتنازیادہ پانی تھا کہ اس سے گزرناممکن نہ تھا سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں ٹرک ڈرائیور نے ایک پل کوکراس کیا اس کی دیواروں کے پاس بہت پانی کھڑا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن حکومتوں نے سروے اسٹڈی اورجائزہ کے بغیر پل انڈرپاس اور اوورہیڈبرج بنائے اس سے پانی کی قدرتی گزرگاہیں ختم ہوگئیں اور پانی سڑکوں پر کھڑا رہتا ہے ہم پل کے پار پہنچے تو یہ فیصل کالونی کا علاقہ تھا میں نے کافی عرصہ کے بعد یہ علاقہ دیکھا تھا کوئی40سال پہلے یہاں چند ایک گوٹھ ہوتے تھے لیکن اب پوری دنیا بدل گئی ہے ہرطرف بلندوبالا عمارتیں ایستادہ ہیں ایک انچ زمین بھی خالی نہیں ہے درجنوں شاپنگ پلازہ اور تجارتی مراکز وجود میں آگئے ہیں 1990ء کے بعد یہ ایم کیو ایم کے اہم سیکٹرز میں شامل ہوگیا غالباً چائنا کٹنگ کی ابتدا اسی علاقے سے ہوئی اس کا آغاز میئرفاروق ستار نے کیا تھا اس کا مقصد اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کو چھت مہیاکرنا تھا لیکن انہوں نے ہر طرف چھت ہی چھت کردی اس لئے یہاں پر سیلاب کھڑا ہوتا ہے۔فاروق ستار کے وقت بھائی جان اور ایم کیو ایم عروج پر تھے پتہ انکے حکم کے بغیر نہیں ہلتا تھا بلکہ پتوں پر بھائی جان کی شبیہ روز لوگ دیکھ کر انکو قطب ولی اور اللہ والا سمجھتے تھے فاروق ستار نے ناظم آباد،سرجانی،نئی کراچی اور فیڈرل بی ایریا میں پارکوں،قبرستانوں،نالوں اور ہرجگہ سرکاری پلاٹ کو کاٹ کر اپنے حامیوں کوالاٹ کردیا مجھے معلوم نہیں کہ بعد کے ناظم اور میئرصاحبان بھی انکے نقش قدم پر چلے یا انہوں نے ہاتھ روکا اگرہاتھ روکا ہوتا تو آج کراچی کی اتنی بری صورت نہ ہوتی میراخیال ہے کہ ایم کیو ایم کے دستبردسے اگرکچھ بچاتھا تو اس پر ضرور پیپلزپارٹی نے ہاتھ صاف کیا ہوگا؟بخشا کسی نے نہیں ان بے رحمانہ اور قہرآلود اقدامات کی وجہ سے آج کراچی کا وجود باقی نہیں رہا بلکہ کچی آبادیوں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا بے ہنگم شہر بن گیا ہے ہمارے اناڑی ٹرک ڈرائیور نے ایک لمبی سڑک پکڑی جوداؤد چورنگی سے جاکر مل گئی وہاں پر ٹرک زیادہ پانی کی وجہ سے خراب ہوگیا خوش قسمتی سے کوئی دوسرا بندوبست ہوگیا چنانچہ ہم کورنگی انڈسٹریل ایریا کی مین شاہراہ سے گزرنے لگے دونوں طرف بڑی بڑی بلڈنگز تھیں ان عمارتوں میں روشنیاں بھی زیادہ تھیں۔اگرمرکزی شاہراہ سیلاب میں نہ ڈوبی ہوئی تورات کا بڑادلکش منظرتھا لیکن اب یہ کسی زمانے میں سائٹ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ اس سے بڑا ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ صنعتی ایریاز کا حال بھی بہت برا ہے ہرطرف سڑکیں پہاڑی نالوں کا منظر پیش کررہی تھیں یعنی پانی کے نکاس کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے پانی کی وجہ سے چند منٹوں کا سفراچھا خاصا طویل ہوگیا تھا جب ہم ڈیفنس پہنچے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ ڈی ایچ اے ہے سڑکوں پر باقی شہر کی طرف پانی کھڑا تھا آگے انڈرپاس بھی بھراہوا تھا خداخدا کرکے ہم نے قیامت کا یہ سفر چارگھٹنے میں طے کیا لیکن بلاول ہاؤس کے پہلو میں پہنچے تو بجلی نہیں تھی کیونکہ بارش شروع ہونے کے ساتھ ہی کے الیکٹرک بجلی بند کردیتا ہے کیونکہ بارش کے دوران جو بھی حادثہ ہوجائے اسکی ذمہ داری کے الیکٹرک پر ڈال دی جاتی ہے گزشتہ برساتوں میں کئی لوگ کے الیکٹرک کیخلاف عدالتوں میں جاپہنچے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کوئی اچھا کام کررہی ہے کافی عرصہ سے کراچی کے باسی شدید گرمی اور برسات میں کے الیکٹرک کی نااہلی کاشکار ہیں۔اگردیکھا جائے تو کراچی کی تباہی کوئی ایک دن میں شروع نہیں ہوئی اس کا آغاز تو قیام پاکستان کے بعد سے ہوا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے جان بوجھ کر اپنے بعض اقدامات کی وجہ سے اس تباہی کو ناقابل حل بنادیا یہ محض الزام نہیں بلکہ اسکے ٹھوس شواہد موجود ہیں ویسے تو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔1974ء میں اسٹیل مل کیلئے18660ایکڑ زمین حاصل کی گئی اس زمین پر سندھی اور بلوچوں کے15قدیم گوٹھ تھے اس سے قبل پورٹ قاسم کیلئے 13663ایکڑزمین حاصل کی گئی تھی جس کے نتیجے میں 35گوٹھوں کو ختم کیا گیا تھا بعدازاں پپری تک پورٹ قاسم اتھارٹی نے مزید20ہزار ایکڑ زمین حاصل کی جو بڑے بڑے صنعتی گروپوں کو فروخت کی گئی ممتاز اسکالر اور مورخ گل حسن کلمتی کے مطابق ضیاء الحق نے اقتدار پرقبضہ کے بعد ایک پلاننگ کے تحت کراچی میں رہائشی اسکیمیں شروع کیں ان اسکیموں میں 6ہزارایکڑ پرمشتمل سورجانی اسکیم38ہزارایکڑ پرمشتمل،ہلکانی ہاؤسنگ اسکیم ہاکس بے میں دو ہزار ایکڑ،گلستان جوہر میں 2700ایکڑ اسکیم نمبر33 تین ہزار ایکڑ،گلشن معمار15سوایکڑ،تیسر سمیت متعدد اسکیمیں 30ہزار ایکڑ،نیوملیر اسکیم6ہزار ایکڑ دھابیجی انڈسٹریل زون 13ہزار ایکڑ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آکر سارے اختیارات ایم کیو ایم کو سونپ دیئے زمینوں کااختیار وزیراعلیٰ کی بجائے گورنر کودلایاگیا ضیاء الحق کے منصوبوں پرگورنرعشرت العباد کے ذریعے تیزی کے ساتھ عمل کیا گیا دیہہ ناگن میں پرائیویٹ ادارہ سائبان نے25ہزار لوگوں کوآباد کیا،لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو گڈاپ ٹاؤن،ناگن اور کیماڑی ٹاؤن کے دیہہ لال بکھر میں آباد کیا گیا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ان علاقوں میں جو گوٹھ ہیں وہ آج بھی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں کراچی کیلئے سٹی گورنمنٹ نے ایک اسٹریٹجک پلان بھی بنایا تھا جس کا نام وژن2020ء رکھا گیا تھا یہ وژن سٹی ناظم مصطفی کمال نے تیار کیا تھا جس کے تحت ہاکس بے سے لیکر ضلع جام شورو تک نیا شہر بسانا تھا کوئی5سال پہلے یہ علاقہ یعنی ضلع ملیر کے دیہات پہاڑیاں ندیاں اور نالے بحریہ ٹاؤن کو جناب زرداری نے الاٹ کردیئے مالک بدل گیا لیکن نیا شہر بسانے کا کام جاری ہے کراچی میں ڈیمو گرافک تبدیلی لانے کا جو پلان جنرل ضیاء الحق نے شروع کیا تھا جنرل مشرف نے مصطفی کمال کے ذریعے آگے بڑھایا جس کی وجہ سے بارش اور سیلاب کی قدرتی گزرگاہیں ختم ہوگئیں اور ہر معمولی بارش میں بھی سارا شہر ڈوب جاتا ہے اور دیکھاجائے تو اس پلان نے بہ حیثیت شہر کراچی کو جیتے جی ماردیا اب تو یہ حال ہے کہ کے ایم سی کے ہیڈ آفس کے سامنے کنٹینر بھی تیرنے لگتے ہیں بے تحاشہ آبادی کی وجہ سے نارتھ کراچی ہر سال آفت زدہ ہوجاتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود آج تک کوئی کمیشن نہیں بنا جو یہ تحقیق کرے کہ کراچی کی تباہی وبربادی کاذمہ دار کون ہے؟دیدہ دلیری یہ ہے کہ سابق میئر وسیم اختر سابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور سابق میئرفاروق ستار تباہی کی ذمہ داری موجودہ سندھ حکومت پرڈالتے ہیں حالانکہ شہر کی تباہی کے ذمہ دار یہی تینوں ہیں اگر انصاف ہوتا قانون کی حکمرانی ہوتی تو ان کو بلاکر پوچھا جاتا کہ آپ نے اتنے عظیم شہر کو اس حال تک کیسے پہنچایا گزشتہ12برسوں میں پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم کے نقش قدم پر چل کر شدید کوتاہی کرپشن اوربدانتظامی کاشکار ہوئی ہے۔اتنے طویل عرصہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھ کر شہر کی حالات بہتر بنانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہی ہے چنانچہ اس وقت جو صورتحال ہے وہ پیپلزپارٹی تو کیااقوام متحدہ بھی آکر ٹھیک نہیں کرسکتی شہر کو ٹھیک کرنے کیلئے ایک تہائی کچی آبادیاں مسمار کرنا پڑیں گی جو کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے شہر کی ازسرنو ٹاؤن پلاننگ یا ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے جو اربوں ڈالر کے بغیر نہیں ہوسکتا کراچی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک کھرب روپے کی ضرورت ہے جو حاصل کرنا ناممکن ہے صورتحال کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلاول ہاؤس کے تین اطراف پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں،وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی سڑکیں بھی کسی دریا کامنظر پیش کررہے ہیں،کراچی کے تمام انڈرپاسز دوروز سے ڈوبی ہوئی ہیں لیکن حکومت انہیں کلیئر کرنے میں ناکام ہے اور تواور ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کے علاقے بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ڈیفنس کے کئی رہائشی علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔حرف آخر یہ ہے کہ کراچی رہائش کیلئے موذوں شہر نہیں رہا جو لوگ یہاں رہنے پر مجبور ہیں انکی الگ بات کافی صاحب حیثیت لوگ آفات کے دنوں میں باہر چلے جاتے ہیں جبکہ کچی آبادی کے لوگ زندہ درگور ہیں۔حالیہ بارشوں سے غریب لوگوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے پورے شہر کا نصف سے زائد انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔بیشتر سڑکوں کی ازسرنو تعمیر درکار ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ کراچی کو کس طرح دوبارہ رہائش کے قابل بنایاجاسکتا ہے۔