خواب چکناچور

تحریر: انور ساجدی
حالیہ بارشوں سے پہلے ڈیفنس کراچی میں رہنا ایک خواب تھا اور یہی علاقہ کراچی کا سب سے پوش علاقہ سمجھاجاتا تھا گزشتہ پانچ برس کے دوران اس علاقے کی قیمتوں میں کئی گنااضافہ ہوگیا تھا حتیٰ کہ وہاں پر ایک سوگز کے چھوٹے پلاٹ کی قیمت بھی چار کروڑ تک جاپہنچی تھی شہر کے نامور آرکیٹیکٹ فہیم کھتری پہلے پانچ سو گز سے کم کے مکانات کو ڈیزائن نہیں کرتے تھے لیکن منافع دیکھ کر انہوں نے سوگزکے مکانات کے انتہائی شاندار ڈیزائن تیار کئے بیشتر مکانات کی تعمیر بھی وہ خود کرتے ہیں کرونا سے پہلے5سو گز کے اچھے مکانات کی قیمت14کروڑ تک تھی ہزار گز25اور2ہزار گز کے بنگلے 50کروڑ سے زائد میں بکتے تھے لیکن نئی حکومت آنے اور کرونا کی وبا کی وجہ سے مکانات کی طلب کم ہوگئی جس کے نتیجے میں قیمتیں 25فیصد گرگئیں لیکن حالیہ طوفانی بارشوں نے دو علاقوں کا پول کھول دیا ہے اور انکارعب داب ختم کردیا ہے پہلے نمبر پر ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کے علاقے ہیں یہ بارش کے دوران کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے اور چار روز بعد بھی پانی نہ نکالاجاسکا یہاں پر موجود بیشتر مکانات کاقیمتی سامان غارت ہوگیا جبکہ بجلی نہ ہونے سے ڈیفنس کے مکینوں نے مسلسل قیامت کی پانچ راتیں گزاریں حتیٰ کہ مکینوں نے کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر کے باہر بڑا مظاہرہ بھی کیا اس علاقہ کے لوگوں نے آنکھیں بند کرکے تحریک انصاف کو ٹھپے لگائے تھے گزشتہ انتخابات میں عارف علوی ایم این اے منتخب ہوئے تھے جو اس وقت صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر براجمان ہیں۔2018ء کے انتخابات میں مسٹرصدیقی ایم این اے اور تحریک انصاف کا ایک ایم پی اے بھی یہاں سے منتخب ہوا لیکن علوی صاحب نے صدرہونے کے باوجود ڈی ایچ اے کی حالت پر کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ انکی اپنی رہائش بھی اسی علاقے میں ہے کراچی سے تحریک انصاف کے جو14ایم این اے ہیں انکی اکثریت بھی ڈیفنس میں رہائش پذیر ہے حالانکہ ان میں سے کئی لوگ غریب بستیوں سے منتخب ہوئے ہیں مثال کے طور پر آبی وسائل کے وزیر فیصل واؤڈا بلدیہ جیسے غریب علاقہ سے کامیاب ہوئے یہ علاقہ ایک ہفتہ سے ڈوبا ہوا ہے لیکن ایم این اے صاحب غائب ہیں۔تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ایسی دہائی دے رہے ہیں جیسے حکومت انکی نہیں کسی اور کی ہے حالانکہ کنٹونمنٹ وفاقی علاقہ ہے اسکے مسائل حل کرنے میں صدر اور وزیراعظم براہ راست کردارادا کرسکتے ہیں۔لیکن سب نے الزام بازی کی سیاست شروع کردی اور فرمایا کہ پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت نے کراچی کا بیڑہ غرق کردیا ہے تحریک انصاف کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ ہورہا تھا کہ سندھ میں گورنر راج لگایاجائے اسکے بغیر کراچی اور سندھ کے حالات بہتر نہیں ہونگے حتیٰ کہ کراچی کے مشہور سیٹھ قاسم سراج تیلی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کراچی کو پانچ سال کیلئے فوج کے حوالے کیاجائے۔اس مطالبہ کے پیچھے وزیراعظم کے مشیر اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کے گرو عقیل کریم ڈھیڈی اورعارف حبیب کاہاتھ تھاجنہوں نے مل کر مشرف کے دور میں جب شوکت عزیز وزیراعظم تھے اسٹاک ایکسچینج کا حشر کردیا تھا اگرچہ کسی بھی مطالبہ میں کوئی قباحت نہیں لیکن ضیاء الحق اور مشرف کے دور میں 20برس تک مارشل لاء تھا اس طویل عرصہ میں کراچی کے حالات میں جو بگاڑ پیدا ہوئی وہ آج تک ٹھیک نہیں ہوسکی باقی شہر تو اپنی جگہ خود ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کے علاقے بھی رہائش کے قابل نہیں رہے کیونکہ یہ ٹاؤن پلاننگ کے بغیر بنائے گئے ہیں ڈرینج سسٹم غیر موثر ہے اور پانی کے نکاس کا کوئی صحیح انتظام نہیں ہے جو لوگ گورنر راج کا مطالبہ کررہے تھے اس صورتحال کے بعد کیا کہیں گے؟
حالیہ سیلاب نے سارے اداروں اور سندھ حکومت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے دیدہ دلیری کایہ عالم ہے کہ فاروق ستار اور مصطفے کمال نے شہر کی قبر کھودنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ بھی تمام ترصورتحال کی ذمہ داری سندھ حکومت پرڈال رہے ہیں اس بیلم گیم کاکوئی فائدہ نہیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ سب کو مل کر کراچی شہر کے حالات پر غور کرناپڑے گا اگر کوئی موثر اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ سال کے مون سون میں اس سے بھی بدترصورتحال پیدا ہوجائے گی کیونکہ بلڈر مافیا کے کئی پروجیکٹ زیرتعمیر ہیں ہر جگہ ہر مقام پر اونچی اونچی عمارتیں سراٹھارہی ہیں حتیٰ کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے ایک مشہوربلڈر نے50منزلہ عمارت تعمیر کردی ہے اس سے چیف منسٹرہاؤس سندھ کی سیکورٹی خطرے میں پڑ گئی کلفٹن پل کے ساتھ ملک ریاض نے ایک32منزلہ بلڈنگ کھڑی کردی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سندھ حکومت یا تو نااہل ہے یا ان بلڈرز کو اس کی خاص آشیر باد حاصل ہے شہر کے مرکزی علاقے میں ایک بڑی تباہی اس وقت آئیگی جب بوٹ بیسن پر کے پی ٹی اسکیم میں سربفلک عمارتوں کی تعمیر شروع ہوجائے گی کلفٹن کے علاقے کا سارا سیوریج پہلے پہلے ہی بوٹ بیسن میں چھوڑا جارہا ہے جبکہ کے پی ٹی اسکیم تعمیر ہونے کے بعد پورا بوٹ بیسن ایک گٹرخانہ کی شکل اختیار کرے گا کراچی دنیا کا واحد شہر ہے کہ اسکی پورٹ کی زمین پرناجائز قبضہ ہے شیریں جناح کالونی اور ٹاپو میں ہزاروں لوگ آباد ہیں ٹاپو کی زمین پرقبضہ میں مختلف ادوار کے بااثر لوگ شامل ہیں جنہوں نے پتھر اور کوڑا کرکٹ ڈال کر بوٹ بیسن کے مغربی کنارے پر ایک بے ہنگم اور ناجائز شہر آباد کردیا ہے کے پی ٹی اسکیم کے بعد کلفٹن کی آبادی دم گھٹنے سے ہلاک ہوجائے گی کیونکہ اسکی عمارتیں سمندری ہوا کے راستے میں رکاوٹ بن جائیں گی آج تک کسی حکومت نے کے پی ٹی کے ذمہ داروں کو بلاکر نہیں پوچھا کہ بوٹ بیسن پراتنے بڑے کمرشل اوررہائشی منصبوبہ بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ پورٹس اینڈ شپنگ کے ہروزیرنے آنکھیں بند رکھیں پورٹ کے معاملات کو بگاڑنے والے ایم کیو ایم کے سابق وزیر بابر غوری اربوں روپے لیکر امریکہ فرار ہوگئے۔جہاں وہ پرتعیش شاہانہ زندگی گزاررہے ہیں۔کراچی کے حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا جب انگریزوں نے کراچی ڈیزائن کیا تھا تو یہ شہر پانچ سوکلومیٹر پر محیط تھا جن میں سے3سو کلومیٹر شہری علاقہ اور دوسو کلومیٹر کنٹونمنٹ کے زیرانتظام تھا یعنی کراچی شہر کے40فیصد علاقے اداروں کے زیرانتظام ہیں گزشتہ50برس کے دوران یہ شہر وسیع ہوکر نوری آباد کی حدود کو چھورہا ہے لیکن آبادی کو مخفی رکھا جارہا ہے جب تک یہ معلوم نہیں ہوگا کہ شہر کی اصل آبادی کیا ہے اسکی پلاننگ کس طرح ممکن ہے ایک محتاط اندازہ کے مطابق اس وقت شہر کارقبہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر ہے جس میں ڈی ایچ اے سٹی اوربحریہ ٹاؤن شامل نہیں ہیں،ملیر اور لانڈھی پہلے نواحی علاقے تھے اور اب شہر کا مرکزی حصہ بن چکے ہیں کسی زمانے میں منگھوپیر کو دورافتادہ اور شہر سے الگ علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن شہر اس سے آگے نکل گیا ہے مختلف ادوار میں طاقتور بلڈر مافیا نے نہ صرف نواحی علاقوں پر قبضہ کیا بلکہ کلفٹن کے اہم علاقے پربھی قبضہ کرکے اونچی عمارتیں کھڑی کردیں۔گورنر عشرت العباد نے ڈالمین مال کے مالک سے مل کر سمندر کے سامنے وسیع اراضی پارکنگ کیلئے وقف کردی اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بیچ پارک بنایا اس پارک نے جوسڑک سے کافی اونچھا ہے بارش کے پانی کو روک رکھا ہے جس کی وجہ سے پورا علاقہ ڈوب جاتا ہے۔
بلڈرمافیا کی طاقت کا اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اس نے سرجانی،نارتھ کراچی،صفورا گوٹھ کے علاقوں میں مکانات اورفلیٹوں کی کلفٹن کے برابر قیمتیں رکھی ہیں پورے باتھ آئی لینڈ میں ڈابے نما اونچے فلیٹ تعمیر کئے گئے ہیں جنکی قیمت چار سے10کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے اس مافیا کو سندھ حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے کراچی کے مرکزی علاقے میں بھی بے شمار رہائشی اور کمرشل پروجیکٹ بنائے گئے ہیں ڈی ایچ اے کے کمرشل علاقے کھارادر کا منظر پیش کرتے ہیں لہٰذا جب تک تجاوزات کو مسمار نہیں کیاجائیگاندی،نالوں اور پانی کی قدرتی گاہوں کے راستے نہیں کھولے جائیں گے کراچی اسی طرح ڈوبتا رہے گا اگر سندھ حکومت مخلص ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اونچی عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کردے جبکہ کنٹونمنٹ کو بھی قائل کیاجائے کہ وہ بھی آئندہ اونچی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہ دے کیونکہ پورا سول لائن اور فریئر ٹاؤن برباد ہوچکے ہیں ان علاقوں میں سب سے زیادہ اونچی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں شہر کے اندر سیوریج اور ڈرینج اتنی بڑی آبادی کیلئے ناکافی ہیں اس مقصد کیلئے سندھ اور وفاقی حکومت کو مل کر سرمایہ کاری کرنا پڑے گی کیونکہ سندھ حکومت اپنے وسائل سے یہ کام نہیں کرسکتی اسی طرح بحریہ ٹاؤن جوحالیہ بارشوں میں دودن تک ڈوبا رہا اسکے معاملہ کاجائزہ لینے کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنایاجائے جو وہ یہ جائزہ لے کہ بحریہ ٹاؤن نے کتنے ندی،نالوں کو ہڑپ کرکے اپنی اسکیموں میں شامل کیا ہے سندھ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کواونچی عمارتوں کی تعمیر سے روک دے کیونکہ اس بڑے شہر کی ٹاؤن پلاننگ فیل ہوچکی ہے مستقبل میں یہ کراچی کیلئے بہت بڑا مسئلہ پیدا کرے گا بحریہ ٹاؤن سے پوچھا جائے کہ سیلاب کو نکالنے کیلئے اس نے کیا انتظامات کئے ہیں۔