حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ

انور ساجدی
؎مملکت خداداد کی سب سے دلچسپ خبر یہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ وفاقی کابینہ نے بھنگ سے ادویات سازی کی اجازت دیدی۔کابینہ کے فیصلہ کے بعد دنیا کے لائق ترین وزیرسائنس فوادچوہدری نے نوید سنائی کہ بھنگ سے سالانہ آمدنی ایک ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے غالباً چرس بھی اسی پودے سے کشیدکی جاتی ہے اگر اس کی اجازت بھی دی جائے تو چوہدری صاحب سالانہ 2ارب ڈالر حاصل کرسکتے ہیں۔اگر وہ پوست کاشت کرنے کی اجازت بھی حاصل کرلیں تو افیون کی آمدنی اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے جس کے بعد یو اے ای اور سعودی عرب جیسے نخرے والے ممالک کی امدادسے جان چھوٹ سکتی ہے۔
دوسری اہم خبر سوشل میڈیا کی طاقت کے تناظر میں ہے پاکستان سے بھاگ کر امریکہ جانے والے صحافی احمد نورانی نے اپنے غیر معروف نیٹ ورک کے ذریعے جو خبر بریک کی اس نے جنرل عاصم سلیم باجوہ جیسی طاقتور شخصیت کو مجبور کیا کہ وہ اپنا سیاسی عہدہ چھوڑدیں ویسے تو انہوں نے احمد نورانی کی خبر کی تردید کی ہے لیکن شائع ہونے والی ایک تہائی باتوں کی تصدیق کردی ہے مثال کے طور پر احمد نورانی نے لکھا تھا کہ انکی فیملی کی99کمپنیاں ہیں لیکن باجوہ صاحب نے کہا ہے کہ یہ تعداد غلط ہے۔ اصل تعداد27ہے انہوں نے ردعمل کے طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کردیا جوکہ ظاہر ہے کہ نامنظورہوگی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احمد نورانی ایک شرارتی صحافی ہیں کوئی دوسال پہلے ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے انکی تھوڑی بہت مرمت کی گئی تھی اسکے باوجود وہ سیدھے نہیں ہوئے اور راہ راست پر بھی نہیں آئے بلکہ موقع ملتے ہی ایک فیلو شپ حاصل کرکے امریکہ جادھمکے خدشہ یہ ہے کہ امریکہ کی آزاد فضاؤں میں بیٹھ کر احمد نورانی مزید گل بھی کھلائیں گے کیونکہ انہوں نے دل جلے صحافیوں کا ایک بڑا گروپ کھڑاکرلیا ہے جو بلاوجہ اعلیٰ پاکستانی شخصیات کی دولت کا کھوج لگارہا ہے چونکہ یہ سارا گروپ کنگلا ہے اس لئے بڑے لوگوں کی آسودہ حالی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی لہٰذا حاسدانہ جذبات کے تحت وہ بڑے لوگوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے کئی یوٹیوب چینل پر دعویٰ کررہے ہیں کہ مستقبل قریب میں احمد نورانی ایک بڑا اسکینڈل لانے والے ہیں جو پانامہ اسکینڈل سے بھی بڑا ہوگا معلوم نہیں کہ اس اسکینڈل کاتعلق امریکہ سے ہے،آسٹریلیا یاانگلینڈ سے جب کہانی سامنے آئیگی تو حقیقت واضح ہوجائے گی ضروری نہیں کہ احمد نورانی کا عنقریب آنے والا اسکینڈل حقیقت پر مبنی ہو اگر اس نے مزید گستاخی کی تو انہیں عدالتوں میں کھڑا کیاجاسکتا ہے تاکہ وہ سابقہ شرارتوں سے باز آجائے اور نئی شرارتوں سے توبہ تائب ہوجائے۔فی الحال مجبوری یہ ہے کہ احمد نورانی امریکہ میں ہیں اور وہاں پر مضبوط ثبوتوں کے بغیر کسی پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے اگر وہ ادھر ہوتے تو ایسی کہانیاں سامنے لانے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے کیونکہ یہاں پر ایسے شرارتی لوگوں کو دن میں تارے دکھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ایک اورخبر یہ ہے کہ وفاق کراچی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے لیکن کوئی آئینی راستہ ہاتھ نہیں لگاہے۔فروغ نسیم نے آئین کی کئی دفعات تیارکررکھی ہیں جس کے تحت گورنر راج سمیت بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن وفاق انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کررہا ہے ایک آسان راستہ ایک ایسے آزاد اور دبنگ ایڈمنسٹریٹر کا تقرر ہے جو میئرکی جگہ لے سکے اور وہ سندھ حکومت کی بجائے وفاق سے ہدایات لے لیکن وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ رکاوٹ بنے ہوئے ہی حالانکہ انکی توڑ آسان ہے نیب انہیں کسی وقت بھی گرفتار کرسکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زرداری صاحب انکی جگہ ایک اور وزیراعلیٰ لے آئیں گے اگر گورنر راج لگایا گیا تو یہ اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوجائے گا البتہ اگر سپریم کورٹ کسی مناسب بیوروکریٹ کوایڈمنسٹریٹر مقرر کردے تو پھر سندھ حکومت کو یہ فیصلہ چار نا چار ماننا پڑے گا۔پہلے وفاق کا خیال تھا کہ حالیہ بارشوں سے کراچی کے ڈوبنے کے مسئلہ کو اچھال کراپنا کام نکالا جاسکتا ہے لیکن کم بخت بارش نے ڈی ایچ اے کو بھی ڈبودیا اور اس بے رحمی کے ساتھ ڈبویا کہ ایک ہفتہ بعدبھی وہاں سے پانی نہ نکالا جاسکا بھلا اس صورتحال میں سندھ حکومت کیخلاف مزید کیا پروپیگنڈہ ہوسکتا ہے اور وفاقی اقدام کا کیاجواز پیش کیاجاسکتا ہے۔
سندھ کو وفاقی تحویل میں لینے کا مطالبہ پرانا ہے جو دراصل ایم کیو ایم کی دیرینہ خواہش ہے لیکن تازہ مطالبہ تاجر برادری کی طرف سے آیا ہے سب سے پہلے قاسم سراج تیلی نے مطالبہ کیا کہ کراچی کو پانچ سال کیلئے فوج کی تحویل میں دیاجائے حالانکہ ایوب خان کے وقت جب قاسم سراج جونامارکیٹ میں کولہو سے تیل نکالتے تھے تو یحییٰ خان کے دور میں ان کی ایک دکان بن گئی تھی تاہم ضیاء الحق کے دور میں وہ ترقی کرکے ایک سرمایہ دار بن چکے تھے اور کراچی اسٹاک ایکسچینج سے دولت کمانے کے سارے گر سیکھ چکے تھے۔ماضی میں ایک سیٹھ یونس بندوقڑا ہواکرتے تھے وہ ہمیشہ کراچی کی الگ حیثیت کا مطالبہ کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ پرانی بندوقوں کو صاف کرنے کاان کاکاروبار بند ہوگیا اور یوں وہ منظر سے غائب ہوگئے ایک اور سیٹھ ظفر موتی والا بھی آج کل نظر نہیں آرہے ہیں ان صاحب کا کاروبار کانچ کی موتیاں بیچنا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسٹاک ایکسچینج کے بڑے بروکرہوگئے ایک سیٹھ کا تو نام بھی دلال تھا وہ بھی کاروباری سیاست سے ریٹائر نظر آرہے ہیں فی زمانہ ڈیڑھ سو کے جی وزن والے عقیل کریم ڈھیڈی اور عارف حبیب کا بول بالا ہے ڈھیڈی نے دوروزقبل تجویز پیش کی ہے کہ کراچی کوسیٹھوں کے حوالے کیاجائے وہ سب ٹھیک کردیں گے حالانکہ کراچی کا شمالی حصہ انکے بھائی بند ملک ریاض کے پاس ہے شہر کے مرکزی حصے اور خاص طور پر ساحل پر عقیل کریم ڈھیڈی نے کئی بلند اور بالا عمارتیں تعمیر کردی ہیں جو ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ابھی تک خالی پڑی ہیں ڈھیڈی نے یہ بھی پیشکش کی ہے کہ تاجر برادری اپنے پلے سے سرمایہ جمع کرکے کراچی کی حالت درست کردے گی یہ جو سارا شور ہے اس کا مقصد کراچی کے ساتھ کوئی ہاتھ کرنا ہے یعنی سیاسی ہاتھ کیونکہ سیٹھ صاحبان کی سرگرمیاں اسی مقصد کیلئے ہیں لیکن جب اتنی بڑی سندھ حکومت اتنے فنڈز اور انتظامات کے ساتھ ناکام ہے حتیٰ کہ کنٹونمنٹ کاعلاقہ بھی ڈوبا ہوا ہے صرف ایک ایڈمنسٹریٹر کی تقرری سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ کراچی کے چہاراطراف ہزاروں تجاوزات قائم ہوگئی ہیں جنہیں گرانے سے امن وامان کا مسئلہ پیداہوجائے گا جن ندی نالوں کے اندر رہائشی منصوبے بنائے گئے ہیں انہیں ہٹانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔کورنگی اور ملیر ندی کے ڈیلٹا کو کلیر کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ یہ مقامات اداروں کے نام الاٹ ہیں اور وہاں پرعظیم الشان رہائشی منصوبے بنائے گئے ہیں۔ادھر بحریہ ٹاؤن نے بھی متعدد ندی نالوں کو اپنے اندر ضم کرلیا ہے شہر کے تمام نالوں پر بستیاں آباد ہیں۔عقیل کریم ڈھیڈی یا تیلی صاحب کیاکرسکتے ہیں دراصل کراچی کئی حوالے سے ایک آتش فشاں بن چکا ہے اسکے مسائل کو کافی عرصہ تک کوئی حل نہیں کرسکتا البتہ اسکے بے پناہ وسائل کے ذریعے کئی ملکی مسائل حل ہوسکتے ہیں اس لئے بیشتر نظریں کراچی کے کنٹرول پر ہیں کیونکہ بارشوں،سیلابوں اور شہری مسائل کے باوجود کراچی کی آمدنی بڑھی ہے کم نہیں ہوئی ہے یہی آمدنی سب سے بڑا مسئلہ ہے سارا واویلا اسی کیلئے ہے لیکن سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کراچی کی آمدنی کا آدھا حصہ کالی معیشت سے وابستہ ہے اور سینکڑوں کالے سیٹھ اور انکے کالے کرتوتوں کی وجہ سے یہ شہر مسائل کا گڑھ بن چکا ہے درجنوں مافیاز اس شہر کو چلارہے ہیں جنکے پیچھے بہت ہی طاقتور لوگ ہیں۔