کراچی کے لئے سوہن حلوہ

تحریر: جمشید حسنی
اردو میں کسی کام کے ہونے کوکہتے ہیں ”ہوگیا“پشتو میں کہتے ہیں ”وسو“براہوئی میں کہے گا”مس“سندھی میں ”تھیو“انگریزی کہے گا”ڈن“بلوچی میں کہتے ہیں ”بیتا/بوتا“برحال میں بات کرنا چاہتا تھا کراچی کی دوبارہ وزیراعظم کا دورہ منسوخ ہوا دورہ ہوا وزیراعلیٰ سے ملے گیارہ سو ارب روپیہ کا پیکج دیا۔اپنے معاملہ میں مجھے وہ بھوکا شخص یاد آرہا ہے جس نے اونٹ کو جگالی کرتے ہوئے دیکھ کر کہتا یار مزے کرتے ہو کچھ ہم کو بھی تو دو۔واٹر سپلائی کے لئے 1.92ارب روپیہ ہوگا سیوریج کے لئے 141ارب روپیہ سڑکوں کے لئے 92ارب روپیہ،ماس ٹرانزٹ 672ارب روپیہ ٹرانسپورٹ 267ارب روپیہ سالڈوسٹ مینجمنٹ نکاسی آب267ارب روپیہ سندھ حکومت کہتی ہے وفاقی 30فیصد دے گا 70فیصد صوبے دے گا۔وفاق کہتا ہے وہ62فیصد اور سندھ حکومت 38فیصد فیصد دے گی جو بھی ہو اب تو دینا ہی پڑے گا منصوبے ایک سال سے تین سال کے عرصہ کے ہوں گے۔بلدیات کیا کرے گی یہ واضح نہیں سندھ حکومت نے ایک بیورو کریٹ کو ایڈمنسٹریٹر لگا دیا ہے کراچی والے کہتے ہیں کراچی2600ارب روپیہ سالانہ ٹیکس دیتا ہے کتنا پیسہ صحیح خرچ ہوگا۔کچھ نہیں کہا سجاسکتا سپریم کورٹ کہتا ہے کراچی میں لوگوں کے جیبیں بھریں الطاف حسین کے ذمہ صرف برطانیہ میں 1995-2015 ٹیکس نہ ادا کرنے پر 49کروڑ جرمانہ ہوا کیا وہ لندن میں چھولے بیچتا تھا۔ایک کروڑ پاکستانی ملک سے باہر محنت مزدوری کرتے ہیں 3671چینیوں کو بوگس ویزے جاری ہوئے کرونا سے 6340 اموات ہوچکی ہیں۔15ستمبر سے فیصلہ ہوگیا کہ تعلیمی ادارے کھولیں بچوں کا تعلیم سال ضائع ہوگیا افراد ی قوت کی بہتری کبھی ہماری ترجیح نہیں رہی صحت اور تعلیم پر سب سے کم رقم خرچ ہوتی ہے چالیس سال سے ہم پولیو پر قابو نہیں پاسکے جب کہ افریقہ کے پسماندہ ترین ممالک بھی پولیو فری ہیں دنیا میں صرف افغانستان اور پاکستان میں پولیو پایا جاتا ہے۔ملک کے پچاس فیصد بچے کم غذائیت کا شکار ہیں والدین غربت کے معیار سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں بس اتنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کم ہوگئی ہے کورونا کم ہوا ہے مگر ختم نہیں ہوا۔حزب اختلاف کہتی ہے نااہلوں کی حکومت،حکومت کہتی ہے وہ عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیاں ا کھٹی ہورہی ہیں دیکھیں کیا کل کہلاتی ہیں کہتے ہیں عمران خان جائے عمران خان کیو ں جائے اس نے جنرل مشرف کو سرخ کالین پر گارڈ پر آف آنر سے رخصت کرکے اقتدار نہیں لیا نہ سات سال جدہ میں جلا وطنی پر رضامندی کی عوام نے انہیں بار بار آزمایا خود تو دبئی جدہ جا کر بیٹھ جاتے ہیں کمر دکھتی ہے صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر درد ختم ہوہوجاتا ہے۔
عالمی معیشت کورونا کے باعث بحال نہیں ہوئی امریکہ میں یونائیٹڈ ائیر لائن اپنے 16000ملازمین کو فارغ کردیا ہے۔ سیاحتی مقام روز گارتیس فیصد سکڑ گئے امریکہ میں کرونا سے ایک لاکھ اسی ہزار اموات ہوچکی ہیں کوئی ویکسین تاحال دریافت نہ ہوسکی۔ہندوستان امریکہ کے بعد شرح اموات کے حوالہ سے دوسرے نمبر پر کورونا پھیل رہا ہے۔
اپنا حال یہ ہے کہ بجلی مزید مہنگی ہوگئی ہے سندھ اور ملک میں تاحال سیلابوں سے نقصانات کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکا،حکومت کراچی میں بجلی مہنگی کر کے 29ارب روپیہ نچوڑ ے گی۔آٹا 72روپیہ کلو بک رہا ہے۔گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔گندم برآمد کررہا ہے۔ساٹھ ہزار ٹن پہنچ گئی،آزاد کشمیر کہتا ہے مجھے تین لاکھ 75ہزار ٹن گندم چاہیے۔چھ ستمبر کے حوالے سے تقاریب ہوئیں صدر‘فوج کے سربراہ نے فوجی اعزات دیئے۔بنیادی مسئلہ کشمیر موجود ہے ہندوستان سے ہماری تین جنگیں ہوئیں۔مستقبل کی گارنٹی نہیں کہ جنگ نہ ہوگی۔
فی الحال تو فنانشل ٹاسک فورس ہے جان چھڑانا مشکل معیشت قانون سازی اس کی اور ورلڈ بینک کی مرضی سے ہورہی ہے عوام غیر مطمئن نہیں تو مطمئن بھی نہیں حکومت کو یہ فکر کہ اپنی قانونی آئینی مدت پوری کرے حکومت کا دو سالوں میں کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا،تین صوبوں میں مرکزکی حکومت ہے سندھ بھی اچھلے کود ے مرکز سے رو گردانی نہیں کرسکتا کراچی پیکج مل گیا فی الحال تو پیکج کی دیگ پکنے کا انتظار ہے سب فیض یاب ہوں گے عام آدمی کو کہیں گے نالے صاف ہوگئے ایران مشہد خراساں کہلا تا ہے ہمارے ہاں افغانستان میں کدنی ماروف غزنی قلات کاعلاقہ خراسان کہلاتا ہے چھ ماہ سخت سردی برف باری کی وہاں کسی آدمی کا چھوٹا بیٹا تھامیمنے چراتاباپ بازار گیا تو ٹوپی لایا صبح بچے کو کہے میمنے چرانے کیوں نہیں لے جاتے تمہاری ٹوپی نہیں ہے۔بچہ ننگے پیر پھٹے پیروں سے خون رسے۔ماں کو غصہ لگا کہا بھاڑ میں جاؤ تمہاری ٹوپی بچے کے پیروں سے خون رس رہا ہے تم کہتے ہو ٹوپی نہیں۔
تو بھائی صاحب آپ بھی ٹوپی پر گزارہ کریں،زیادہ جنجال نہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں