کٹہرے میں کھڑا کون؟

تحریر: راحت ملک
موسم بدلتا ہے تو تغیر کے آثار محسوس ہونے لگتے ہیں گرما کی رخصت ہوتی رت میں آنے والے موسم کی خنک تابی نے خزاں کی صورت درختوں کے پتے زرد کرنا شروع کر دیے ہیں۔جڑتے ہوئے زرد پتے خزاں گزیدگی کا اعلامیہ ہوتے ہیں ہر تغیر کے آغاز کی کچھ علامتیں منظر پر آئیں تو جمود کے خاتمے اور تغیر میں راز ہائے زیست کے پنہاں ہونے کے اشارے دراصل زندگی کا بیانیہ ہوتے ہیں۔تاریخ انسانی کے مختلف اوراق ہوں کہ بدلتے موسم۔ زوال و ترقی کے مراحل ہوں کہ سیاسی موسم میں تغیر کے اشارے‘ ان کا آغاز انتہائی سبک سری سے ہوتا ہے پتہ ھی نہیں چلتا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا ماحول بدل جاتا ہے سارا منظر‘ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ ستمبر یوں تو ملک میں موسمی تبدیلی کا نکتہ آغاز ہوتا ہے پوہ ماگھ کے روز و شب شرروع ہوتے ہیں لیکن اس سال تو ستمبر کچھ حوالوں سے ” سیاسی موسم ” میں بھی تغیر و تبدل کی ہواؤں کے ساتھ بہت دھیمی آہٹ کے ساتھ آیا ہے۔۔ کچھ حلقوں کیلئے واھمہ نما‘ خوش گمانی جبکہ بعضوں کیلئے امید پرستی و رجائیت کے آرزومندانہ احساسات کے ساتھ۔
اگست کے دنوں میں جناب مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے متعلق اپوزیشن کے متحد نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا اور برملا کہہ دیا تھا کہ اب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بے وفائی کے تجربے کے بعد وہ ان جماعتوں کے بغیر ملک بھر کی تمام چھوٹی جماعتوں کو متحد کریں گے جو ملک میں شفافیت اور آزادانہ جمہوری عمل کے ذریعے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے سیاسی و آئینی بالادستی پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہیں انہوں نے اپنی تجویز پر عملی پیشرفت شروع کی تو دونوں بڑی جماعتوں پر دباؤ آیا کہ وہ حزب اختلاف کے مجوزہ قافلے سے علیحدہ یا الگ رہ کر سیاسی عمل سے ہی بچھڑ سکتی ہیں کچھ دیگر واقعات بھی اس بیچ ایسے ہوئے جو پس پردہ انتہائی موثر ثابت ہوئے محترمہ مریم نواز کی نیب لاہور آفس پیشی کا واقعہ‘ جناب میاں نواز شریف اور جناب مولانا فضل الرحمان کا ٹیلی فونک رابطہ پھر کراچی میں طوفانی بارشوں کے بعد جناب شہباز شریف کی کراچی یاترا اور جناب آصف علی زرداری‘ جناب بلاول بھٹو سے ملاقات میں اپوزیشن کی مجوزہ اے پی سی میں موثر شرکت پر اتفاق رائے کا طے پانا ایسے واقعات ہیں کہ اسکے بعد 20ستمبر کو اسلام آباد میں زرداری ہاؤس میں منعقد ہونے والی اے پی سی بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ چند ماہ پیشتر قائد جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کے ساتھ جناب بلاول بھٹو کے بالواسطہ رابطے نے بھی حالیہ سیاسی صف بندی کے عمل اور تناظر کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جناب بلاول بھٹو کی طرف سے اھم پیغام لے کر پی پی کے کون سے رہنماوں میر حاصل خان بزنجو سے ملاقات کرکے کیا پیغام اور تجویز دی تھی اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں البتہ یہ ملاقات اور تجویز ملک کے پیچیدہ مسائل اور سیاسی حل میں بنیادی تبدیلی اور عملی پیشرفت کے اعتبار سے جتنی معنویت رکھتی تھی اسی نسبت سے میر حاصل بزنجو کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ کردار ادا کرنے کی اہلیت کی بھی ترجمان تھی۔ افسوس کینسر کے موذی مرض نے میر حاصل بزنجو کو مہلتِ حیات نہیں دی۔ خیر فطرت اپنے اعمال میں خود مختار ہے اللہ میر صاحب کے درجات بلند فرمائے وہ اس عہد میں عوام و اقوام کی جمہوری بالادستی پارلیمانی حاکمیت اور آئین کی سر بلند کی سب سے توانا مدلل اور نڈر آواز تھے۔
اب جبکہ بیس ستمبر کی اے پی سی کے انعقاد میں چند دن کا فاصلہ رہ گیا ہے تو میاں محمد نواز شریف کو لندن سے پاکستان لانے کیلئے حکومتی سرگرمی بڑھ گئی ہے نیز جناب آصف علی زرداری اور جناب یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فرد جرم کا عائد ہونا بھی سیاسی موسم میں تغیرات کے اثرات کی مثال اور علیحدہ و مبرہ افعال ہیں۔
سیاسی تغیرات کے لٹمس ٹیسٹ کی ایک اور مثال گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی ایک درخواست ہے۔ بظاہر عاصم ریاض اس کے درخواست گزار ہیں لیکن لگتا ہے کہ اس درخواست کے عقب میں بھی طاقت کے مراکز فعال ہیں درخواست میں سپریم کورٹ کے جج محترم قاضی فائز عیسیٰ کے بھائی قاضی عظمت عیسیٰ کی بطور چیف ایگزیکٹو برائے پاکستان غربت خاتمہ فنڈ تعیناتی کو چیلنج کیا گیا ہے درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ دس سال پہلے جانب قاضی عظمت عیسیٰ کی تقرری کے دوران متعلقہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
معزز عدالت اس درخواست پر مناسب قانونی کارروائی عمل میں لائے گی اور یقیناً قانون کے نفاذ میں اگر کہیں کوئی کوتاہی یا غفلت برتی گئی ہے تو اس معاملے کو شفاف طور پر نمٹا دے گی میں عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر بات نہیں کر سکتا کہ نا ہی میں قانون دان ہوں کہ مقدمہ ہذا کی قانونی موشگافیوں میں الجھوں۔ البتہ مجھے اس درخواست کے ٹائم فریم پر سیاسی حوالے سے بات کرنی ہے امید ہے کہ یہ عمل توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے معزز جج ہیں سینارٹی کے اعتبار سے انہیں 2023ء میں پاکستان کے سب سے محترم عہدے چیف جسٹس آف پاکستان پر متمکن ہونا ہے جو بہت طاقتور عہدہ اور انتہائی حساس اور اہم ترین ذمہ داری ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے برادر جج کے ساتھ بالخصوص فیض آباد دھرنے کے ڈراپ سین کے متعلق معاملات پر جو فیصلہ دیا تھا جس میں طاقتور حلقوں کی سیاسی مداخلت بارے آئینی اعتراضات اور سوال اٹھائے گئے تھے فیصلے اور دوران سماعت ان کے ریمارکس پر طاقتور حلقوں میں ناپسندیدگی کا برملا اظہار سامنے آیا تھا چنانچی تب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحبان اختیار کیلئے ناپسندیدہ شخصیت بن گئے تھے مذکورہ حلقے کو خوف یہ لاحق ہوا تھا کہ یہ جج صاحب اگر چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچ گئے تو سیاسی زیادتی بندوبست میں ڈھالے ہوئے حالات میں جو تغیر و تبدیلی آ سکتی ہے وہ بہت دور رس ہوگی اور ممکن ہے "اقتدار و اختیار ” کے درمیان جس طرح کی تقسیم اور دوئی بڑی محنت و مہارت سے مرتب کی گئی ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان اسے واپس پلٹ سکتے ہیں اسی خوف کے بطن سے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس نے جنم لیا جسے جناب شہزاد اکبر نے(جن کے متعلق کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ مخصوص نقطہ نظر کے تحت ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں) مذکورہ ریفرنس کی تیاری کا کام مکمل کیا اور غیر مستقل وزیر قانون اور وکیل سرکار جناب فروغ نسیم نے اس کی نوک پلک سنواری ایف بی آر نے غیر قانونی طور پر ایک غیر متعلقہ شخص کو جسے آگے چل کر ریفرنس میں درخواست گزار بننا تھا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی انکم ٹیکس ریٹرن کی دستاویزات مہیا کی تھیں ریفرنس دائر ہونے کے بعد جناب جسٹس فائز عیسیٰ نے اسے سپریم کورٹ میں آئینی بنیاد پر چیلنج کیا ملک بھر کی وکلاء برادری اس ریفرنس کی آئینی حیثیت اور نیت کے پس منظر میں جناب جسٹس فائز عیسیٰ کی حمایت میں سامنے آ گئی سپریم کورٹ نے ریفرنس پر فیصلہ دیتے ہوئے اسے عبوری طور پر معطل کیا مگر ایف بی آر کو بیگم قاضی فائز عیسیٰ کے مالی معاملات اور ٹیکس گوشواروں کی از سر نو تحقیقات کا حکم بھی دیا تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا پابند کیا گیا طے کیا گیا کہ رپورٹ کا جائزہ لے کر چیف جسٹس آف پاکستان ریفرنس بارے حتمی فیصلہ کریں گے کہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جائے یا اسے مکمل طور کالعدم قرار دیا جائے وکلاء کی تنظیموں نے فیصلے کے اس حصے کو دوبارہ ع مجاز عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے جبکہ ایف بی آر نے بیگم قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس بھجوائے جنہوں نے اپنی آمدن اور ٹیکس کے متعلق دستاویز ایف بی آر کو مہیا کیں ہیں گو کہ ایف بی آر نے ان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا اور الزام لگایا ہے کہ ” آپ کی جائیداد و اثاثہ جات آمدن سے زیادہ ہیں ” جس کے جواب میں بیگم عیسیٰ نے ایف بی آر کوایک منفرد درخواست دی جس میں حکمران حلقے کے متعدد افراد کے ٹیکس گوشوارے اسی طرح بیگم عیسیٰ کو مہیا کرنے کی استدعا کی گئی ہے جس طرح ان کی دستاویز ایک غیر متعلقہ فرد کو فراہم کی گئی تھیں میرا تجزیاتی قیاس یہ ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے بھائی کے خلاف حالیہ دائر درخواست جہاں جسٹس فائز عیسیٰ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نظر آتی ہے وہیں پر اس سے یہ بھی عیاں ہو رہا ہے کہ ایف بی آر بیگم قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایسا مطلوبہ مواد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی بنیاد پر جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور تادیبی کارروائی آگے بڑھائی جا سکے تاکہ انہیں سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے قبل از وقت فارغ کرا کے چیف جسٹس کا مبصب حاصل کرنے سے محروم کر دیا جائے اور مستقبل قریب یعنی 2023ء میں ابھرے سکتی امکانی مشکلات یا ذہنی تحفظات کا قبل از وقت موثر تدارک کر لیا جائے۔
دس سال قبل کی گئی تقرری میں قواعد و ضوابط کو اب چیلنج کرنے کے حالیہ اقدام کی اس کے علاوہ کوئی توضیح نہیں ہو سکتی۔ قانونی تقاضوں کے متعلق کسی بھی وقت جائزہ لینا عدلیہ کا استحقاق ہے تاہم یہ مقدمہ خصوصی تناظر اس آئینی عمل کو مشکوک بنا رہا ہے اگر یہ مقدمہ آگے بڑھا جس کا امکان یقینی ہے تو اسکے نتیجے حالیہ دو سالوں میں کی گئیں بہت سی تعیناتیوں کو بھی چیلنج کرنا ممکن و سہل ہو جائیگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کی تقرری پر عدالت میں قانونی سوالات اٹھ جائیں ان کی تقرری‘ کے عمل میں اخبارات میں اشتہار کی اشاعت‘ کتنی درخواستیں جمع ہویئں کس نے انٹرویو کیا اور حتمی فیصلہ کرکے مجاز اتھارٹی سے منظوری لی تنخواہ و دیگر مراعات کس قانون و اعتبار و جواز کے ساتھ مقرر ہوئی ہیں ایسے سوالات اٹھ سکتے ہیں اور انہی امکانی سوالات مع جوابات اور جناب قاضی عظمت عیسیٰ کے ریفرنس اور انکے خاندان کے خلاف مقدمات کو میں سیاسی موسمی تغیرات کا نکتہ آغاز سمجھ رہا ہوں۔