سریاب میں اپوزیشن کی آبادی، یہ روڈ کسی جماعت یا کارکن کا نہیں، عوام کی سہولت کے لیے ہے، جام کمال
کو ئٹہ:بلو چستان اسمبلی کا اجلاس پیرکے روز ڈپٹی اسپیکر سرادر با بر موسیٰ خیل کی زیر صدارت تلا وت کلام پاک سے شروع ہوا ،اجلاس شروع ہوا تو صوبائی وزراء زمرک خان اچکزئی ،نوابزادہ طارق مگسی ،میر محمدعارف محمد حسنی ،اراکین اسمبلی محترمہ ماجبین شیراں کی رخصت کی درخواستیں اسمبلی سیکرٹری نے پیش کیں جسے منظور کرلیا گیا ۔اسمبلی اجلاس سے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کر تے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہاکہ سریاب کے حلقوں سے اپوزیشن ارکان منتخب ہوئے ہیں جہاں سب سے بڑی آبادی ان کے ووٹرز کا ہے ،یہ روڈ کسی پارٹی ،جماعت یا کارکن کا نہیں ہے یہ عوام کی سہولت کیلئے ہے ،میں خود پروسس کے حق میں ہوں اور کوئی بھی کام پروسس کے بغیر نہیں ہوناچاہیے ،ہم نے پروسس کو ایک حد تک بہتر کیاہے اس حوالے عدالت عالیہ کے احکامات بھی موجود ہیں بلوچستان کی تاریخ میں وہ فنانشل بل کی منظوری دی گئی ہے جو ملک کے کسی بھی صوبے میں نہیں ہے ،وفاق کے بعد بلوچستان ہے جنہوں نے یہ بل منظور کیااگلے سال پی ایس ڈی پی میں کوئی بھی اسکیم جس کی ڈی ایس سی اور پی ڈبلیو ڈی پی نہیں ہوگی وہ اسکیم پی ایس ڈی پی کا حصہ نہیں بنے گااس کابہت بڑا فائدہ ہم سب کو ہوگا،بلوچستان میں دوبڑے سیزن جو زیادہ چلتے ہیں جہاں سردی کاموسم ہو لیکن سرداری زیادہ نہیں پڑتی لیکن ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جس میں زیارت،کان مہترزئی،پشین ،مسلم باغ، کوئٹہ ،سوراب،خضدار ،قلات اور مستونگ وہ علاقے ہیں جہاں ٹھنڈ کے موسم میں تعمیرات کاکام نہیں ہوسکتا کیونکہ موسم سرد ہوتاہے ،انہوں نے کہاکہ ہم اگر دو سے تین ماہ ڈی ایس سی اور پی ڈبلیو ڈی پی میں لگا لیتے ہیں تونومبر کامہینہ قریب آتاہے ان علاقوں میں تین سے چار ماہ رہ جاتے ہیں اور پھر یہ کام مارچ میں شروع ہوتاہے جس کی وجہ سے کام کیلئے تین سے چار ماہ رہ جاتے ہیں اور پھر مئی جون قریب آتاہے جس کی وجہ سے سرد علاقے رہ جاتے ہیں لیکن اس بار ہم نے پروسس کومختلف کردیا ،پالیسی کے تحت ٹھنڈ اعلاقوں کی الیوکیشن اور اتورائزیشن دوسرے علاقوں کی نسبت ڈبل رکھ رہے ہیں تاکہ کنٹریکٹرز کو کام کیلئے زیادہ وقت مل سکیں اور جلد سے جلد کام مکمل کریں اور پھر سرد مہینوں میں اگر کام نہ بھی ہو تو ٹھیکیدار ڈبل کام کرچکاہو،میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ ہم نے نہ ماضی میں کبھی کوئی کام منظوری کے بغیر کام کیاہے اور نہ ہی آئندہ کرینگے ،بغیر منظوری کے کوئی بھی اسکیم چاہے وہ جاری ہو یا نیا اسکیم منظوری فائنل کے بعد پلاننگ کمیشن اور فنانس تک کیلئے نہیں جاتی ،ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے اسٹینڈرڈ کو برقراررکھیں یہ پہلی حکومت ہے جس نے 72سے 73ارب روپے خرچ کئے ہیں ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی و چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی اخترحسین لانگو نے پوائنٹ آف آرڈر پر اسمبلی اجلاس سے اظہار خیا ل کر تے ہو ئے کہا کہ پی ایس ڈی پی کاکیس عدالت میں زیر سماعت ہے عدالت نے اس حوالے سے تمام ٹینڈرز پر اسٹے جاری کیاگیاہے تاہم اس کے باوجود نصیرآباد،خاران ،کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے ٹینڈرز جاری ہورہے ہیںاور اخبارات میں ٹینڈرز مشتہر کئے جارہے ہیں جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ عدالتی فیصلہ آنے تک ٹینڈرز کو روکنے کیلئے رولنگ دیں ۔ بی این پی کے ملک نصیراحمد شاہوانی نے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں بلڈوزرکے لاکھوں گھنٹے مختص ہونے پر ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہاکہ پابندی کے باوجود پی ایس ڈی پی میں بلڈوزر گھنٹے رکھے گئے ہیں ،انہوں نے کہاکہ اگر بلڈوزر کے گھنٹوں پر پابندی ہے تواس کو پی ایس ڈی پی میں کیوں شامل کیاگیا؟جمعیت کے رکن اسمبلی اصغر ترین نے کہاکہ پشین میں گیس سلنڈر دھماکے میں 6افراد جھلس کر جاںبحق ہوئے ہیں انہیں معاوضہ فراہم کیاجائے ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے سے استفسار کیا کہ گزشتہ ماہ ضلع واشک کے علاقے ساجد میںآنے والے زلزلے سے تقریبا10ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں حکومت نے اس سلسلے میں تاحال کیا اقدامات اٹھائے ہیں نیز ان علاقوں کے عوام کے مالی نقصانات ، صحت اور تعلیم کے حوالے سے کیا منصوبہ زیر غور ہے انہوںنے کہا کہ زلزلے کے فوراـبعد حکومت کو متاثرین کی امداد وبحالی کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئے تھے لیکن افسوسناک طو رپر کچھ نہیں یا گیا متاثرہ علاقے میں صحت او رتعلیم کے اداروں کے ساتھ ساتھ سڑکیں بھی متاثر ہوئی ہیں متاثرین سرد موسم میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں خواتین اور بچوں میں اب موسمی بیماریاں پھیل رہی ہیں حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لئے وہاں جا کر بیٹھ جاتی پالیسی بناتی اور فریم ورک بنا کر اقدامات کرتی اور متاثرین کی امداد وبحالی کے بعد ہی وہاں سے نکلتی اب پی ڈی ایم اے نے جو سمری بھیجی ہے وہ اگر منظور ہوتی ہے تو ٹھیک ورنہ میں اپنے ایم پی اے فنڈ سے ساجد کے زلزلہ متاثرین کے لئے دوکروڑ روپے کا اعلان کرتا ہوں حکومت نہ صرف میرے فنڈز سے دو کروڑ روپے ساجد کے متاثرین کے لئے وقف کردے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام اراکین کے ترقیاتی فنڈزسے ایک ایک کروڑ روپے لے کر متاثرین کی امداد وبحالی پرلگائے جائیں اس موقع پر واشک سے منتخب رکن میر زابد ریکی نے ایوان کو بتایا کہ بسیمہ کے علاقے ساجد میں یہ زلزلہ13اگست کی رات کو آیا تھا جس کے بعد اب تک زلزلوں کے جھٹکے تھمے نہیں بلکہ ا ب بھی آفٹرشاکس آرہے ہیںحکومت چار پانچ گاڑیوں میں امداد بھیجی لیکن یہ عارضی امداد ہے کیونکہ صرف خیمے بھیجنے سے متاثرین کی امداد وبحالی ممکن نہیں انہوںنے کہا کہ اب پی ڈی ایم اے نے ساجد کے زلزلہ متاثرین کی امداد وبحالی کے لئے جو سمری بھیجی ہے اس میں متاثرہ گھروں کی تعداد550بتائی گئی ہے اور فی گھر ایک لاکھ روپے دینے کی سفارش کی ہے جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک لاکھ روپے میں گھر بنانا تورہا ایک طرف صرف گھر کی چھت بھی نہیں ڈھل سکتی انہوںنے کہا کہ 2013ء میں آواران میں آنے والے زلزلے کے بعد فی گھر4لاکھ57ہزار روپے کا اعلان کیا گیا تھا یہاں بھی ایک لاکھ کی بجائے معاوضے کی رقم کم از کم 4لاکھ57ہزار کردی جائے تاکہ متاثرین کو مکانات کی تعمیر میں مدد مل سکے اس موقع پر صوبائی وزیر ریونیو میر سلیم کھوسہ نے ایوان کو آگاہ کیا کہ زلزلے کے فوراًبعد پی ڈی ایم اے کی جانب سے 1000خاندانوں کے لئے ریلیف کا سامان متاثرین علاقے بھجوادیا گیا تھا اور یہ تمام سامان ضلعی انتظامیہ کی مدد سے متاثرین میں تقسیم کی گئی زلزلہ ماثرین کی امداد وبحالی کے لئے حکومت کام کررہی ہے جو سمری پی ڈی ایم اے نے بھیجی ہے وہ اسسمنٹ کے بعد ہی بھیجی ہے انہوںنے ثناء بلوچ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی امداد وبحالی کے لئے اپوزیشن نہیں بلکہ حکومتی اراکین اپنے فنڈز سے رقم دینے کے لئے تیار ہیں اپوزیشن اراکین کے فنڈز سے کوئی کٹوتی نہیں ہوگی لیکن جو سمری پی ڈی ایم اے نے بھیجی ہے وہ منظور کرلی جائے گی حکومت متاثرین کی امداد وبحالی کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے بعدازاں اجلاس کی صدارت کرنے والے اخترحسین لانگو نے توجہ دلائو نوٹس نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے ہدایت کی کہ زلزلہ متاثرین کی امداد وبحالی کے لئے جاری سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے اور اگلے اجلاس میں ایوان کو آگاہ کیا جائے ۔اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں کراچی سے لاہور ، اسلام آباد، ملتان اور پشاورسیکٹرز کے درمیان چلنے والی پروازوں کے کرایوں میں کمی لاتے ہوئے ایک مخصوص فارمولے کے تحت ان کے کرایے فکس کردیئے ہیں جبکہ کوئٹہ سے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد سیکٹرز کے درمیان چلنے والی پروازوں کے کرایوں میں تاحال کوئی کمی نہیں لائی گئی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اورشدیدمایوسی پائی جاتی ہے ۔ قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ پی آئی اے انتظامیہ کو کوئٹہ سے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد سیکٹرز کے درمیان چلنے والی پروازوں کے کرایوں میں ملک کے دیگر شہروں کے درمیان چلنے والی پروازوں کی طرز پر کرایے فکس کرنے کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی اقدامات احکامات جاری کریں تاکہ صوبے کے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔انہوںنے کہا کہ کوئٹہ سے کراچی کے درمیان فضائی سفر ایک گھنٹہ پانچ منٹ اور کرایہ 10ہزار جبکہ کراچی سے اسلام آباد کا سفر دو گھنٹے کا ہے جس کا کرایہ ساڑھے سات ہزار روپے ہے کوئٹہ آنے والی پروازوں کو انتہائی خستہ حال جہاز دیئے جاتے ہیں جبکہ کوئٹہ سے کہیں بھی جانا ہو تو کرایہ کم سے کم دس ہزار روپیہ ہے لیکن دیگر شہروں سے یہی کرایہ چار ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے کیابلوچستان کے لوگ بہت امیر ہیں ؟ انہوںنے کہا کہ ہم مجبوری میں سفر کرتے ہیں ڈیڑھ سال قبل بھی میں اسی نوعیت کی قرار داد لے کر آئی تھی لیکن پی آئی اے نے عمل نہیں کیا میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ پی آئی اے کی لوٹ مار کو بند کرائے جمعیت علماء اسلام کے رکن یونس عزیز زہری ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے ، بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی ، زبیدہ خیر خواہ نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کوئٹہ کے لئے پروازوں کے نرخ کم کرے وفاقی حکومت کے تمام اداروں کی طرح پی آئی اے بھی بلوچستان کا استحصال کررہا ہے عام آدمی 25سے29ہزار روپے کرائے میں کیسے سفر کرسکتا ہے جبکہ بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوںمیں جانے والی پروازوں کو بھی یا تو کم کردیا گیا ہے یاپھر انہیں بند کردیاگیا ہے بعدازاں قرار داد کو ایوان کی مشترکہ قرار داد کے طور پر منظور کرلیاگیا۔بلوچستان اسمبلی نے اپوزیشن لیڈر کی لائی گئی تحریک التواء بحث کے لئے منظور کرلی جس پر اگلے اجلاس میں بحث ہوگی ۔


