سیاسی آلودگی کیسے دور؟
تحریر: راحت ملک
یہ تو نوشتہ دیوار تھا کہ 20ستمبر کی اے پی سی کو ماضی قریب میں ہویے اس طرح کے اجلاسوں سے ہر حال میں مختلف اور موثر ہونا تھا مگر مقتدر حلقوں کا خیال تھا کہ بات نشستن‘ گفتن‘ برخاستن تک محدود رہے گی انہوں نے اے پی سی کے متعلق اپنے پتے اس وقت کھیلے جب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں عمران حکومت نے البتہ میاں نواز شریف کی تقریر ذرائع ابلاغ پر نشر کرنے کا بروقت فیصلہ کیا حکومت کو جب ایجنسی نے تقریر کے متن کے بارے اجلاس شروع ہونے سے پہلے 19ستمبر کی شب آگاہ کر دیا مگر حکومت اور اس ایجنسی نے عسکری ادارے کو اس اطلاع سے بے خبر رکھ کر بالواسطہ طور پر اور عملاً خود کو اے پی سی کے ان نکات کا حصہ بنا لیا ہے جن میں سے ریاست سے بالا ریاست اور سیاست میں مداخلت کے خلاف واضح دو ٹوک اور پختہ موقف کا اظہار کیا گیا ہے میرے خیال میں اگر عسکری ادارے کو اجلاس کے رجحان کا ایک روز پہلے علم ہوتا تو وہ آرمی چیف کے ساتھ پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات کی اطلاع اے پی سی کے اجلاس سے قبل ہی منظر عام پر لے آتے کیونکہ مذکورہ ملاقات کی خبر جس لہجے اور انداز سے عام کو دی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس اطلاع کو عام کرنے کا مقصد ملاقات میں زیر بحث آنے والے موضوع سے عوام کو آگاہ کرنا نہیں بلکہ برعکس کے یہ تاثر مضبوط کرنا تھا کہ عسکری قیادت پر سیاسی مداخلت کا الزام لگانے والے خود بھی عسکری ادارے کی قیادت سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں تاہم دوا نے الٹا اثر دکھایا کیونکہ یہ عجلت آمیز اقدام تھا جس کے بطن سے سوال ابھرا کہ مذکورہ اجلاس اگر گلگت بلتستان میں انتخابات اور اسے صوبے کا درجہ دینے سے متعلق مشاورت کیلئے ہوا تھا تو کیا یہ مشاورتی ایجنڈا دفاعی نوعیت رکھتا تھا؟ یا اسکی غرض غایت مقصد اور نتائج ہر پہلو سے سیاسی فیصلہ سازی کے زمرے میں آتے تھے اجلاس کی میزبانی عسکری ادارے کی بجائے وزیراعظم کو کرنی چاہئے تھی کیونکہ مذکورہ اجلاس تو سیاست میں طاقت کے سرایت شدہ متنازعہ کردار پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف ثابت ہوا ہے اس پر طرہ یہ کہ اے پی سی کے اعلامیہ کے بعد سیاسی زعما کو تنبہہ انداز میں ‘” فوج کو سیاست میں ملوث کرنے سے گریز. "” کا مشورہ دینا قطعاً بیمعنی بات ہے جس کا کہیں کوئی مفید اثر نہیں ہوا حکومتی وزرائنے اس تنبہہ کے برعکس عسکری ادارے اور حکومت کو مماثل قرار دینے کا غیر آئینی اقرار کرتے ہوئے ” اسے سیاست کا اہم کھلاڑی بنانے سے گریز نہیں کیا ” ماضی کی کسی جماعت نے اقتدار میں رہتے ہوئے اس طرح کی عامیانہ حرکت نہیں کی تھی وزیراعظم عمران کا یہ دعویٰ اس پر مستزاد ہے کہ ان کی حکومت اور عسکری ادارے کے درمیان جو ہم آہنگی اور تعاون موجود ہے ماضی کی کسی حکومت کو میسر نہیں رہا۔۔۔ یہ بات حکومت کی مضبوط بنیاد نمایاں کرنے کیلئے کہی گئی مگر بین السطور میں یہ نقطہ اے پی سی اعلامیہ اور واجہ نواز شریف کی تقریر کے موقف کی تائید کرتا ہے شیخ رشید کی پھرتیاں ناقابل تحریر اور ناقابل توضیح ہیں کیونکہ وہ بھی ملجی ادارے کے سیاسی کردار کی شہادت دیتے ہیں "نادان دوست سے دانا دشمن بھلا ہوتا ہے ” یہ محاورہ اب بخوبی سمجھ آ رہا ہے۔
حکومت نے یہ جاننے کے بعد واجہ نواز شریف کی تقریر نشر ہونے دی کہ اس میں حکومت کی بجائے عسکری قیادت پر تنقید کی جائیگی تو اپوزیشن اور عسکری قیادت میں پہلے سے موجود خلیج مزید گہری ہوجایے گی جس کا سارا فائدہ عمران حکومت کو حاصل ہو گا
حکومتی جماعت نے اس طرز ٍ عمل سے اپنے اقتدار کو ترجیح دے کر ایسی کھائی تیار کی ہے جس میں جلد اسے گرنا پڑے گا اس فیصلہ کے مابعد اثرات حکومت اور فوج کے درمیان تعاون منہدم کریں گے جب عسکری قیادت کو اندازہ ہوگا کہ ان کے لاڈلے نے شعوری طور پر انہیں قومی سیاسی محاذ میں ھدف تنقید بنانے کے لیے معاونت کی ہے۔
بات بہت واضح اور دو ٹوک ہے ایک بھی ایسا پاکستانی نہیں ہو گا جو عسکری ادارے کے پیشہ ورنہ کردار کا مخالف ہو مجھ سمیت ہر پاکستانی ملک کو” سلطنت "کی بجائے آئینی جمہوری پارلیمانی ریاست کے انداز و طریق پر چلانے کے متمنی ہے اور اس خواب کی تعمیر و تعبیر میں جسے 23مارچ1940ء کو راوی کے کنارے جاگتی آنکھوں سیاسی عمائدین نے دیکھا تھا جو کوئی بھی حائل ہو یا ہو گا یا ایسی کوشش کرے گاوہ پاکستان کے بنیادی تصر و خواب کی حقیقی تعبیر کا مخالف گردانا جائیگا اب جو بھی اس الزام سے بچنا چاہے اسے ملکی آئینی بندوبست پارلیمان اور جمہوریت کا احترام کرنا ہے یہ سیاسی مطالبہ نہ تو ملک دشمنی پر مبنی ہے نہ ہی کسی بھی ریاستی محکمے کے وقار کے منافی۔ پی ڈی ایم کے قیام کے بعدذرائع ابلاغ میں حکومت کے کردار و اقدامات یا سوچ کی وضاحت ان الفاظ میں ہو رہی ہے”یہ ملک اور اپوزیشن (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)“اب اکھٹے نہیں چل سکتینواز شریف نے ملکی اداروں پر جس طرح تنقید کی ہے اس کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ اب ہمارا (عمران خان کا) کوئی متبادل نہیں ہمارے حریف آؤٹ ہوچکے ہیں "
جس (حکومتی دلائل کا خلاصہ)۔
قبل ازیں بھی عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ان کا تو کوئی متبادل ہی نہیں اس بیان میں فیصلہ کن اختیار کا اشارہ کس جانب ہے؟عوام کے پاس تو ہمیشہ متابدل موجود ہوتے ہیں پھر وہ کون ہے جس کے بارے کہاجارہے تھے کہ ہمارے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل دستیاب ہی نہیں۔!!اس موقف سے جہاں عسکری قیادت کے متعلق سوالات اٹھتے ہیں وہیں یہ تاثر بھی پختہ ہوتا ہے کہ حکومتی جماعت جمہوری ہے نہ جمہوری بنیاد کی حامل۔ وہ تو کسی کیلء۔ lesser evil ہے۔ متبادل نہ ہونے کا حوالہ عسکری قیادت کی سیاسی بالادستی کو قبول کرتے چلے رہنے کا عندیہ بھی تو ہو سکتا۔ کیا یہ بات آئینی پارلیمانی سیاسی روایات سے کو نسبتی رشتہ یا وابستگی ظاہر کرتی ہے؟ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس پر غور کرنا چاھیے اگر وہ واقعتاً سیاسی بصیرت رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں!!!
ایک اور صحافتی دلیل یہ بھی سامنے آئی ہے کہ
” 2012ء تک کسی نے ان (عمران خان)کو قومی لیڈر اور 2018ء تک وزیراعظم بنانے کا نہیں سوچاتھا ” عمران خان کو وزارت عظمیٰ کیلئے آپشن بنائے ہیں واجہ آصف زرداری اور واجہ نواز شریف نے اہم کردارادا کیا ہے۔اگر وہ مقتدر حلقوں کو صحیح انداز میں ڈیل کرتے تو عمران خان کبھی بھی وزارت عظمیٰ کیلئے آپشن نہ بنتے (سلیم صافی 23-09-20)
کیا برادر سلیم صافی کی دلیل واجہ نواز شریف کی تقریر کے برعکس کا منظرنامہ پیش کرتی ہے؟ مقتدر حلقوں کے ساتھ صحیح انداز میں ڈیل کا مطلب و معیار کیا ہونا چاہئے اس کی وضاحت برادر عزیز سلیم صافی ہی کرسکتے ہیں؟۔ تاہم واجہ نواز شریف کی تینوں بار اقتدار سے رخصتی کی وجوہات کاراز آشکار ہورہاہے کہ موصوف نے مقتدر حلقے کو کیسے اور کس آئینی بنیادپر ناراض کیا؟ کیاوہ دفاعی پالیسی کے خدوخال میں تبدیلی چاہتے تھے؟ جس پر طاقتور حلقے ناراض ہوئے؟ اگر وزیراعظم ایسی بھی چاھتے تھے تو یہ ان کا قانونی استحقاق تھا کہ وہ جو پالیسی مرتب کریں تمام ملکی محکمے حلقے اسے من و عن تسلیم کریں عمل کریں۔ منتحب حکومت یا نواز شریف مملکت پاکستان کو مضبوط مستحکم اور خطرات سے آزاد و محفوظ رکھتے ہوئے اگر اس عظیم مقصد کیلئے نیشنل سیکورٹی اور دفاع کے خدوخال میں تبدیلی کی ضرورت پر اعتماد رکھتے تھے تو اس میں برائی کیا تھی؟ پرامن تنازعات سے پاک خطہ اور ھم سائیگی۔۔۔ آبرومندانہ سطح پر ایک مباسب تجویز و پالیسی ہوسکتی ہے اسے بروے کار لانے میں پاکستان میں سماجی معاشی شعبے میں ترقی واستحکام ملک کے دفاع کو ناگزیر طور پر محفوظ بنتا ہے اس پالیسی اگر عسکری حلقوں کو خفگی تھی تو یہ مزید ناقابل قبول بات ہوگی۔ وجہ نزاع اس کے علاوہ کوٰئی بات تھی اسے سامبے لانا ضروری ہے۔ 2018 کے تجرباتی بندوبست بارے
برادر سلیم صافی کہتے ہیں
”حکومت ناتجربہ کار اورمسخروں کا مجموعہ‘جبکہ اپوزیشن بزدلوں اور مصلحت پسندوں کا ٹولہ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسال میں پاکستان کا وہ حشر ہوگیا ے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔”
اقتباس ٍ بالا میں تسلیم کیاگیا ہے کہ” دوسال میں ملک کا حشر برا ہوگیا ہے” گویا یہ مسلمہ ہے کہ اس حکومت سے قبل ملک بہتر صورتحال میں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اگر اپوزیشن کو بزدل اور مصلحت پسند قرار دے رہے ہیں تو سیاسی تجزیہ کاسوال یہ ہوگا کہ صحافی اور ذرائع ابلاغ اپوزیشن جماعتوں سے کس قسم کے بہادرانہ اور غیر مصلحت پسند رویے کی توقع کرتے ہیں؟ کیا اے پی سی کے اعلامیہ اور واجہ نواز شریف کے تاریخی ریکارڈ پر مبنی موقف نے مصلحت کوشی کی ساری کشتیاں جلانہیں دیں؟ پھرذرائع ابلاغ اس اے پی سی کے مطالبات اورتقریروں کو ہدفٍ تنقید کیوں بنارہے ہیں؟ کیا وہ آگے بڑھنے کے خواہش کے ساتھ مفاہمت زدہ انحطاط پسندی کے بھی متمنی ہیں؟اے پی سی اجلاس میں واجہ نواز شریف کی تقریر کے دوران مجھے قائد جمہوریت میر حاصل خان بزنجو رہ رہ کر یاد آئے سینیٹ کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ان کی تقریر ہم سب کو یاد ہے اگر اے پی سی کے اجلاس تک زندگی میر حاصل کے ساتھ وفا کرتی تو واجہ نواز شریف کی تقریر سے زیادہ زور دار شفاف اور دلیرانہ موقف میر حاصل بزنجو پیش کرتے۔میر حاصل خان بزنجو کی تقریر کے بعد غیر مبہم طورپر انہیں پیام۔مل گیا تھا کہ آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت کو ایک نشست بھی نہیں ملے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔۔ یہ نقطہ واجہ نواز شریف اور اے پی سی کے۔کی آگہی کے لیے عرض کیا کیونکہ پی ڈی ایم کے 26 نکاتی مطالبات اور بینانے کے اگر پی ڈی ایم نے اپنی تنظیم ساخت اور نظم و نسق سے صر ف ٍ نظر کیا تو ادے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ ذاتی طورپر عرض کررھاہوں کہ درست جاندار اور غیرمصلحت پسند موقف اختیار کرنے کے بعد تمام جماعتوں کو اپنی صفوں میں اس موقف سے مربوط تنظیم مضبوط کرنی ہوگی موسمی پرندے ہوا کے رخ پر پروازیں کرینگے لہٰذا سب اراکین اسمبلی سے استعفیٰ بھی حاصل کرلئے جائیں۔ اپوزیشن اتحاد نے اپنے مقاصد اور طریقہ کار کے اہم نکات عوام کے سامنے رکھ دیئے ہیں اختیار واقتدار والے اس کے مقابل کیاکیا تدابیر اپنائیں گے یہ سب مخفہ ہے لیکن دیوار کے عقب سے کیا کچھ برامد ہو سکتا ہے اسے ہر صاحب بصیرت جانتا ہے تاریخی روائت کے تناظر میں سیاسی مخالفین میں بزور طاقت نقب زنی کے خدشات موجود ہیں بلکہ ان پر عمل شروع ہوچکا ہے وہی روآئتی راگ الاپ کر موقع پرست افرادکو اے پی سی کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے کر حکومت کے سائیہ عافیت میں پناہ گزین بنایا جائے گاحکومت نے قومی سیاسی محاذ کو بھارت کاایجنٹ قرار دے کر سیاست میں دہائیوں فرسودہ حربہ آزمانے کا آغاز کرکے اپنی جمہوری ساکھ کی ھنڈیاپھوڑدی ہے۔واجہ میاں نواز شریف اپنی سیاسی وراثت بیٹی کو منتقل کررہے ہیں یہ سیاسی وراثت مزاحمتی سیاست کے ذریعے محفوظ رہے گی تو منتقل ہوگی یہی بات واجہ بلاول بھٹو زرداری کے متعلق کہی جاسکتی ہے سیاست میں غیر سیاسی مداخلت نے اسے اتنا آلودہ کردیا ہے کہ مزاحمت کے بغیر اسے صاف بنانا ناممکن ہوچکا ہے۔قومی سیاسی اتحاد کا یہی مقصدقبول ہوگا۔