کچھ حقائق چند مفروضے

تحریر: انور ساجدی
میری10دن کی غیرحاضری کے دوران بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں جن میں سرفہرست اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا قیام ہے۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ2018ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز اور فوج کے درمیان جو درپردہ روابط تھے وہ سات ستمبر کو اس وقت ٹوٹ گئے جب سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور مقتدرہ کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے نتیجے میں دونوں فریقین انتہا پرچلے گئے۔ مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ اسے ریلیف نہ دے کر دیوار سے لگادیا گیا ہے لہٰذا وہ اپوزیشن جماعتوں کو ملاکر جب تک ایک فیصلہ کن جنگ نہیں لڑے گی اس کی سیاسی کامیابی کاامکان نہیں ہے۔ن لیگ نے اپنے تمام عہدیداروں پرپابندی لگادی ہے کہ وہ اجازت کے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھیں اس کی وجہ وہ ملاقات ہے جو خفیہ تھی جس کے طشت ازبام ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کی اچھی خاصی سبکی ہوئی، اس نقصان کے ازالہ کیلئے بظاہر نوازلیگ نے اپنی کشتیاں جلادی ہیں جبکہ حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ یہ کشتی ڈوبنے والی ہے ایک اور اہم واقعہ اپوزیشن اتحاد کے قیام کے باوجود پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے تازہ خفیہ روابط ہیں حالانکہ اے پی سی کی میزبانی پیپلزپارٹی نے کی تھی غالباً مقتدرہ نے سوچا ہوگا کہ ن لیگ سے بگاڑ کے بعد پیپلزپارٹی سے درپردہ روابط استوار کئے جائیں اگریہ روابط ناکام ہوگئے تو جناب آصف علی زرداری اور محترمہ فریال ٹالپور کی گرفتاری عمل میں آئے گی اس سے یہ ہوگا کہ دونوں جماعتیں زندہ رہنے یا اپنی بقاء کی خاطر ایک ایسی جنگ لڑیں گی جو پیپلزپارٹی نے1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران لڑی تھی اگرچہ یہ تحریک وقتی طور پر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئی تھی لیکن اصل میں اس نے پاکستان کے بدترین فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اس کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کو1984ء میں ایک نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے صدرمملکت کالبادہ اوڑھنا پڑا تھا اور اگلے سال یعنی1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کروانا پڑے تھے اپنی مرضی کے انتخابات کا مقصد یہ تھا کہ ایسا پارلیمان وجود میں آجائے جو انہیں آئین توڑنے کے جرم سے بری الزمہ قراردیدے۔ جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تھی تو سب سے پہلے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں نے گرفتاریاں دی تھیں اسکے بعد عوامی سطح پر تحریک شروع کردی گئی تھی اگرچہ پیپلزپارٹی کے کارکن ہر صوبے میں سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن جس طرح سندھ میں تحریک چلی تھی پنجاب میں اس طرح نہ چل سکی تھی سندھ میں قاضی احمد کے مقام پر سرکاری فائرنگ سے سیاسی کارکنوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا تھا موجودہ اپوزیشن کوتوقع ہے کہ موجودہ حکومت کیخلاف بھی ایم آر ڈی طرز کی تحریک چلے گی جس کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں دوپہیوں پرکھڑی تحریک انصاف کی حکومت دھڑام سے گرجائے گی جبکہ دوسرے مرحلے میں مقتدرہ مجبور ہوگی کہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرے تاکہ ملک میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو لیکن نوازشریف نے جس طرح مقتدرہ کو چیلنج کیا ہے اس کا نہایت خطرناک نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کیونکہ ریاست کی جو موجودہ ساخت ہے اس میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ مقتدرہ مکمل طور پر سیاسی مداخلت ترک کردے۔اگروہ اپنا کردار چھوڑدے تو تحریک انصاف،ق لیگ اور باپ جیسی پارٹیوں کاوجود ختم ہوجائے گا۔ ترکی کو اس کام میں 70سال لگے ہیں پاکستان میں یہ ممکن نہیں کہ نوازلیگ کی تحریک کے نتیجے میں مقتدرہ اپنے سیاسی کردار سے دست کش ہوجائے ضیاء الحق کے دور ہی میں جو مسلم لیگ بنی تھی وہ مقتدرہ کی کاوشوں کا نتیجہ تھی کیونکہ ہر دور میں مقتدرہ کو ایک کنگز پارٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔پاکستان کی تاریخ کنگز پارٹیز سے بھری پڑی ہے ایوب خان نے کنونشن لیگ،یحییٰ خان نے قیوم،مسلم لیگ ضیاء الحق نے جونیجو لیگ،جنرل اسلم بیگ نے ن لیگ،جنرل پرویز مشرف نے ق لیگ اور 2018ء میں تحریک انصاف کو سلیکشن کے ذریعے کنگز پارٹی منتخب کیا گیا چونکہ کنگز پارٹیوں کی جڑیں زمین سے پیوست نہیں ہوتیں اس لئے وہ اپنے خالق کے زوال کے بعد زندہ نہیں رہ سکتیں۔غالباً یہ تحریک انصاف کا پہلا اور آخری اقتدار کا دورہے تین سال بعد جب اسکے سرپرست رخصت ہوجائیں گے تو اس پارٹی کا وجود برقرار رہنا مشکل ہے یا کم از کم یہ اپنی موجودہ سطح پر برقرار نہیں رہ سکتی حالانکہ سرپرست بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ تحریک انصاف اگلا الیکشن بھی جیتے اور ایسی اکثریت حاصل کرلے جو آئین میں ترمیم کا موجب بن سکے کیونکہ ان کاپلان یہ ہے کہ ملک کا نظام تبدیل کیاجائے اور آئندہ انتخابات کے بعد سرپرست اعلیٰ ریٹائرمنٹ کے بعد صدر مملکت بن جائیں اورعمران خان ایک بے اختیار وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوں لیکن بوجوہ ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا لگتا ہے کہ اس سے پہلے عمران خان اور انکے سرپرستوں کے درمیان اختلافات کاپیدا ہونا طے ہے اس کا آغاز نوازشریف نے یہ کہہ کہ کیا ہے کہ انکی لڑائی عمران خان کے ساتھ نہیں ہے اس کے ساتھ ہی عمران خان کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہم موجودہ نظام کیخلاف لڑائی لڑیں گے جوکہ آپ کے بھی فائدے میں ہے ویسے بھی اگراپوزیشن کی تحریک کے نتیجے میں مقتدرہ کے منصوبوں کو نقصان پہنچا تو ایک سیاسی قائد کی حیثیت سے اس کا فوری فائدہ عمران خان اور اسکی حکومت کو پہنچے گا یہ اگرچہ ایک دور کی کوڑی ہے لیکن سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے سوفیصد درست اندازہ ہے۔
مقتدرہ کو یہ یقین ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد زیادہ دیرتک برقرارنہیں رہ سکتا ہرایک بڑی جماعت کو آئندہ اقتدار کا سبز باغ دکھاکر رخنہ ڈالا جاسکتا ہے لیکن صورتحال بہت گھمبیر ہوگئی ہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد مولانا فضل الرحمن پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔نیب نے مولانا کی اتنی زیادہ جائیدادیں اور اثاثے دکھائے ہیں کہ ان پر کسی کو بھی یقین نہیں ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب نیشنل پارٹی کی بلوچستان میں حکومت ختم ہوگئی تھی تو اسکے بعد میرحاصل خان اور ڈاکٹر مالک کے پنجاب میں اربوں روپے مالیت کے اثاثے ظاہر کئے گئے تھے جو کہ جھوٹ نکلے تھے اگرچہ مولانا کے سارے اثاثے غلط نہیں ہیں لیکن آدھے سے زیادہ جھوٹ پر مبنی ہیں جس کا مقصد مولانا کو ڈراکرتحریک سے دوررکھنا ہے مقتدرہ کو معلوم ہے کہ سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور مولانا کے پاس ہے اس کے بعد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کانمبر آتا ہے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اگرتینوں جماعتیں صدق دل سے ایک ہوکر تحریک چلائیں تو حکومت کو لینے کے دینے پڑیں گے لیکن مقتدرہ مختلف لارالپے دے کر انکے ایکتاکوتوڑنے کی کوشش ضرور کرے گی نیب کی طرف سے مولانا کے بارے میں حالیہ کارروائی روکنا دراصل حکومت کی پہلی کوشش ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ تحریک شروع ہونے سے پہلے مسلم لیگ ن کی تمام قیادت جیلوں کے اندر ہوگی یہی حال کم وبیش پیپلزپارٹی کا ہوگا اس صورت میں مولانا اکیلے میدان میں رہ جائیں گے انکی کامیابی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے بنیادی فلسفے پرکاربند رہیں اور شیخ الہند کے اس نعرے کو دوبارہ زندہ کریں کہ
سربکف سربلند
دیوبند دیوبند
دونوں جماعتوں کے قائدین کی گرفتاری کے بعد تحریک کا سارازور مولانا کے کاندھوں پر آن پڑے گا اگر مقتدرہ نے مولانا کو بھی گرفتار کرلیا تو یہ حکومت کااپنے اوپر خود کش حملہ ہوگا مقتدرہ اور تحریک انصاف تحریک کوروکنے کیلئے طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو ماضی کے آمرانہ ادوار میں نکلا ہے حکومت کو معلوم ہے کہ محترمہ مریم نواز اور بلاول بھٹو تحریک کے دوران کیا کرسکتے ہیں چنانچہ انکی گرفتاری کی تدابیربھی سوچی جارہی ہیں کیونکہ حکومت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ مریم اور بلاول پنجاب میں بڑی بڑی ریلیوں کی قیادت کریں پیپلزپارٹی کیلئے مشکل یہ ہے کہ اسے سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں اس لئے تحریک کے دوران حکومت سندھ حکومت کوترپ کے پتہ کے طور پر استعمال کرے گی بعض مبصرین کو اب بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے اطوار پر بھروسہ نہیں ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ جماعتیں حسب سابق ریلیف اور مراعات لیکر باقی جماعتوں کو جل دے سکتی ہیں اگر ایسا ہوا تو ان جماعتوں کی عوامی حمایت ختم ہوجائے گی اگرنوازشریف کا حالیہ ڈیکلریشن سچا ہے اور وہ مزید سودے بازی اور سمجھوتے نہ کریں تو ریاست کو کنگز پارٹی اور کنٹرول ڈیماکریسی سے نجات مل سکتی ہے اگرچہ حقیقی پارلیمانی جمہوریت کاقیام ہنوز دور ہے لیکن اسکی مضبوط بنیادڈالی جاسکتی ہے۔