سیاست،مفاہمت اور مزاحمت

تحریر: راحت ملک
20ستمبر کی اے پی سی کے بطن سے گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل جنم لینے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے سیاسی منظر نامہ بدل دیا ہے بالخصوص مسلم لیگ کے مرکزی قائد واجہ نواز شریف کی تقریر نے مسلم لیگ کی سیاست سے متعلق ایک اہم بحث کو نئی جہت ملی ہے واجہ نواز شریف کے موقف کو دوسال قبل سے مزاحمتی بیانیہ کہا جاتارہا ہے مگر اس بیانیئے کے متوازی نون لیگ میں ایک مختلف طرز فکر و عمل کی موجودگی بلکہ اس کے رویہ عمل ہونے کا تذکرہ شدو مد سے سیاسی و صحافتی حلقوں میں ہوتا رہا ہے ایسے مفاہمتی سیاست کا عنوان دیا گیا جس کی سربراہی واجہ شہباز شریف کرتے رہے پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد باضابطہ طور پر مسلم لیگ کی قیادت نے پارٹی کے اندر مذکورہ دو لائنوں کی موجودگی کا اعتراف بھی کیا ہے مخالفین مفاہمتی سیاست رحجان کو این آر او کے حصول کی کوششوں سے تعبیر کرتے رہے سرکار کا نقطہ نظر بھی واجہ شہباز شریف کے طرز فکر و عمل بارے میں ایسے ہی منفی الفاظ کے ساتھ سامنے آتا رہا جس سے واجہ شہباز شریف کے عمل کو سبوتاژ بھی کیا گیا 26ستمبر اور پھر29ستمبر کو واجہ شہباز شریف کی گرفتاری نے مسلم لیگ میں سراہیت شدہ حکمت عملی بارے دوہرا رویہ ختم کردیا ہے اور اب ہر کوئی تسلیم کررہا ہے کہ مسلم لیگ واجہ نوازشریف کے بیانیے پر ہی کاربند ہے جسے ان کی صاحبزادی گودی مریم نوازشریف ملک کے اندر زیادہ موثر ومقبول بنارہی ہیں دیگر زعماء بھی ان کے ہمنوا اور ہم قدم البتہ صحافی تجربات اور خود پی ڈی ایم کی جماعتوں میں ایک مبہم انداز کے تحفظات بہر طور پر موجود ہیں کہ کیا مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے اغراض ومقاصد اور تحریک میں دامے دامے نسخے پورے اخلاص وتوانائی کے ساتھ شریک رہیں گے؟یا وہ کسی بھی مرحلے پر طاقتور حلقے کے ساتھ معاملات طے کر کے پی ڈی ایم کی تحریک کو سبوتاژ کردیں گے؟یہ سوال ماضی میں ان دونوں بڑی جماعتوں کے رؤیے اور کردار کے پس منظر میں بہر حال تعلق بھی ہے اور اہم بھی اس بارے حتمی رائے تحریک کے آغاز اور توانائی کے بعد بھی قائم ہوپائے گی اکتوبر کے آخر تک بہت کچھ واضح ہوجائے گی کہ تحریک کا بیانیہ اغراض کے حصول کی سمت بڑھتی ہے یا درمیان میں مصلحت کو شی کی نذر ہوجاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ سیاست میں مفاہمانہ عمل اور مزاہمتی کرداروں کی وضاحت اور موجودگی کا جائزہ لیئے بغیر ان اصلاحات کی بابت رائے دینا کیا معنی رکھتا ہے؟بادی النظر میں مفاہمتی سیاست کو اطاعت گزاری یا موقع پر ستانہ مصلحت کوشی کے معنوں میں پیش کیا جارہا ہے کیا یہ استد لال درست ہے؟
اسانی سماج کے مختلف مدارج میں اجتماعی انداز حیات کی تاریخ ملحوظ رکھی جائے تو یہ کتنا قرین حقیقت ہے کہ سماج کی مرتکز شدہ معاشی معاشرتی قوت جیسے سیاسی طاقت یا قانونی گرفت بھی کہا جاسکتا ہے ہمیشہ حکمران کلاس،خاندان یا بادشاہ وجاگیردارانہ سلطنتوں میں رائج رہی ہے اور تاریخی عمل کا تواتر یا ہموار اتقاء ایسے معاشروں میں حکمران طبقے کیلئے مفاہمانہ رویے پر منحصر ہے رہاہے جہاندیدہ اورفہمیدہ حکمران طبقات تاریخ کے مختلف ادوار میں ابھرنے والی نئی معاشرتی اکائیوں یاقوتوں کوحصہ بقدرحصہ اپنے ساتھ رکھنے کیلئے از خود مفاہمتی طرز عمل اختیارکرتی تھیں اور نئے ابھرتے طبقات کو معاملات وفیصلہ سازی میں شراکت کے مواقع دیتی رہی ہیں جب اور جہاں یہ عمل منجمد ہواہوں۔بغاوتیں اور فسادات رونما ہوئے مشرقی کرہ میں چونکہ علمی وسائنسی احتراعات کا عمل مفقود رہا لہٰذا اس طبقے میں طویل دورانیے تک سماج کی ساخت اور معاشرتی تقسیم یا طبقات میں تغیر کی رفتارانتہائی اہم رہی مغرب میں معاملہ اس کے برعکس رہا بھاپ کے انجمن کارخانہ داری سوداگری اور تجارتی سرگرمیوں کے ملغوب سے زیادہ سرعت سے نئے پیدواری آلات طرز پیداوار اور گروہ پیدا کئے جو رفتہ رفتہ طاقتور ہوتے گئے اور پھر انہوں نے اشرافیہ سے طاقت اور فیصلہ سازی میں شراکت کیلئے کوششیں کیں جہاں جہاں سماجی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کیلئے مرتکزہ شدہ اجتماعی اقتدار واختیار میں گنجائش مہیا کی وہاں معاشرے پر امن طورپر مناسب اسلوب ورفتار کے ساتھ اتقائی منازل طے کرتے رہے برعکس اس کے جہاں بھی حکمران طبقات نے نئی سماجی قوتوں کی اہمیت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان کے ساتھ مفاہمانہ معاملہ بندی سے گریز کیا وہاں تصادم رونما ہوا انقلاب فرانس اس کی کلاسکی مثال ہے میگنا رکارٹاایک دوسری مثال ہے جبکہ مختلف سلطنتوں کے درباروں میں ہونے والی خاندانی سازشوں کے ذریعے حکمرانوں کا خاتمہ بھی ایک مختلف طرز عمل کے عکاس ہیں اس بحث سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مفاہمت یامزاحمت کا تعین کرتی ہے اگر وہ سماج کے بڑے حصے مختلف طبقات عوام واقوام کے غیر مصالحانہ عمل اپناتے تو وہ مزاحمت کاآغاز کرتی ہے پھر اس کے رد عمل میں پاور نیوکلس کے حلقہ اثر سے باہر کی قوتیں رد عمل میں ردمزاحمت کی تگ ودو کرتی ہیں جنہیں پہلے سے طاقت پر براجمان حلقے شرپسندکہہ کر جبرکے حربوں سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں سارا معاشرہ باہمی مزاحمت کے پیچیدہ گھمبیر اور تباہ کن عمل کاشکار ہوجاتا ہے دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتا ہے کہ بنیادی طورپر معاشرے اجتماعی عمل کو مستقل اور ہموار رکھنے اور مختلف گروہوں کی آسودگی وشراکت داری ممکن بنانے کا سفرسیاسی مفاہمت کہلاتا ہے۔
سیاسی اپنی کیمیائی سخت مفاہمانہ عمل ہے جس کا ٹول مکالمہ آرا کی تشکیل واظہار اور باہمی رضامندی پرنہج ہوتا ہے اس عمل میں رکاوٹ بننے والی مقتدر قوت دراصل مزاحمت کرتی اور تصادم نما سیاسی مزاحمت کو پروان چڑھاتی ہے۔
واجہ شہباز شریف یا واجہ نواز شریف سطور بلا میں پیش کئے گئے استد لال کے ایک سکے دو نمایاں کردار ہیں واجہ شہباز شریف نے مقتدر حلقے سے توقع رکھتی تھی کہ وہ مفاہمانہ طرز سیاست کی طرز راہ اپنائے گا برعکس اس کے واجہ نواز شریف کو یقین ہے کہ انہیں مفاہمت کی امید نہیں رہی لہذا اب اگر معاشرے کی سیاسی ساخت ونظم مملکت کو بدلنا ہے تو مزاحمتی کردار اپناناضروری ہے یہ متقدرہ کے مفنی رویئے کے خلاف رد عمل کی عکاسی کرتا ہے تاریخی طور پر عوام کی اکثریت،طاقت کو للکارنے والے کے ساتھ جذباتی وابستگی قائم کرنے کا رجحان ظاہر کرچکی ہے واجہ نواز شریف کے سیاسی اہداف میں اگر پاورگیم میں کھلاڑیوں کی تبدیلی،جمہور وجمہوریت اور آئین کی بالادستی کے ارفع مقاصد شامل ہیں تو ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی سیاسی وراثت بھی محفوظ رکھتے ہوئے اسے پنی بیٹی کو منتقل کرنا چاہتے ہونگے بتذکرہ صدر سیاسی وراثت یا پولیٹکل لیگسی موثر طور پر منتقل کرنے کے لئے اسکا موجودومحفوظ ہو شرط ہے اور ملک جس نوعیت کے بحران میں دھکیلا جا چکا ہے اسے مزاحمتی سیاست ہی محفوظ رکھ سکتی ہے۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ تحریک کے متذکرہ صدر محدود دائرے میں چھوٹی جماعتیں اور پیپلز ڈیموکریٹک چینج پر یقین رکھنے والی وطن دوست قوم پرست انسان دوست قوتیں کیوں اورکن مقاصد کے لئے شریک عمل ہوں؟
مخترصاً سا جواب یہ ہے کہ جمہوری سیاست میں جہاں افراد کی گنتی فیصلے کرتی ہے وہاں چھوٹی جماعتوں اور چھوٹے صوبوں کو اپنے بہتر مستقبل کو مناسب طور پر محفوظ بنانے کے لئے وقت کی اس پکار کو سننا اورا سکا حصہ بننا ہوگا بہت کچھ پانے کے لئے نہیں مگر کچھ نہ کچھ بہترین کیلئے اچھے نتائج کا حصول بھی ممکن ہے جس کے لئے چھوٹی جماعتوں کو مربوط حکمت عملی اور قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے تحریک کا ہر اول بننا ہوگااور بڑی جماعتوں کے ساتھ تحریری معاہدوں کے ذریعے اپنے اپنے صوبے عوام اور جماعتی مفادات کو محفوظ بنانے کی حکمت عملی پر چلناہوگا شکوک وشبہات کی وجہ سے تحریک سے بددل ہونا زیادہ نقصان دہ ہوگا۔