حد نظر

تحریر:جمشید حسنی
معلوم نہیں کچھ ہونہیں رہا یا ہمیں نظر نہیں آرہا، سیلابوں کے منفی مناظر میں ایک مثبت خبر ملک کے تمام ڈیم پوری گنجائش کے مطابق بھرگئے ہیں گنا کی کاشتکاری تو ویسے ہی فائدہ جہانگیر ترین شریف خاندان ودیگرے 80شوگر ملوں والے اٹھائیں گے کپاس کا فائدہ ٹیکسٹائل ملوں والے،عام کسان غریب ہی رہے گا، نوے فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے یہ امریکہ نہیں کہ پانچ فیصد کاشتکار پچانوے فیصد لوگوں خوراک مہیا کریں گے فی ایکڑ پیداوار کم ہے صارف اور کاشتکار کے درمیان منڈی کا دلال ہے اندرا گاندھی نے ہندوستان میں مڈل مین کا کردار ختم کر دیا ماشہ خور ذخیرہ اندوزی کر کے نفع کماتے ہیں منڈی میں کسان دلال کے بغیر اپنی فصل نہیں بیچ سکتا کھیت سے منڈی ذرائع آمدورفت محدود ہیں برآمد کیلئے زرعی مصنوعات کی پیکنگ درجہ بندی عالمی معیار کی نہیں ہمارے ہاں عمدہ پھل پیدا ہوتے ہیں ہم فصلوں کو محفوظ نہیں کرسکتے حکومت زراعت کے شعبے کو نسبتاً کم مراعات دیتی ہے گنے کی قیمت شوگر مل مالکان کی مرضی سے طے ہوتی ہے ملک میں تین چار ہی زرعی یونیورسٹیاں ہیں تحقیق کیلئے مناسب فنڈنگ نہیں ہوتی تین چار روز پہلے پنجاب حکومت نے انجینئرنگ یونیورسٹی کو تیس کروڑ روپے قرضہ دیا یونیورسٹی کا خسارہ تین ارب ہے حکومت کو تعمیراتی شعبہ سے دلچسپی ہے انجینئرنگ سے نہیں ہندوستان میں آزادی کے بعد دلبھ بھائی پٹیل نے زرعی اصلاحات کیں بڑی بڑی جاگیریں ختم کی گئیں یہاں متبادل لینڈ کمیشن کے پاس لاکھوں ایکڑ ضبط شدہ اراضی ہے ایک ایکڑ زمین کسی بے زمین کاشتکار کو نہ ملی جنرل مشرف نے کارپوریٹ فارمنگ کا شوشا چھوڑا بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کو ہزاروں ایکڑ زمین اجارہ پر دی جاتی مشرف گیا ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم بنے جاگیردار تھے کہاں کوئی زرعی اصلاحات نہیں بلوچستان میں نواب ذوالفقار مگسی سب سے بڑی جاگیردار ہیں چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکڑ زمین ہیں شہداد کوٹ کے سلطان چانڈیو پاکستان کے سب سے بڑے جاگیردار تھے آج بھی پارلیمنٹ میں نصف سے زیادہ جاگیردار ہیں جہانگیر ترین کہتے ہیں میرے پندرہ ہزار ا یکڑ پر کینو کے باغات ہیں پشتونخواہ کے وزیراعلیٰ محمود خان سوات کے بڑے زمیندار ہیں جو بھی زرعی مراعات ہوں وہ لے لیتے ہیں غریب کاشتکار محروم رہتا ہے،سندھ میں آج بھی کسان جاگیردار کا قرض دار ہوتا ہے کہتے ہیں گروی ہے عام آدمی کیلئے صحت تعلیم روزگار کے مواقع محدود ہیں اسی فیصد آبادی دیہات میں کچا گھروں میں رہتی ہے پینے کا پانی نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں چھ ہزار سال پہلے موہنجوداڑو آج کے نکاسی آب سے وہاں نکاسی کا نظام تھا نا نالیاں تھیں
حکومت خوش ہے کرونا سے کم نقصان ہوا دنیا میں ہم اور افغانستان دو ملک ہیں جہاں پولیو ختم نہ ہوسکا، ڈینگی وائرس ہے صحت تعلیم ہر حکومت بجٹ کا تین فیصد بمشکل خرچ کرتی ہیکچھ ممالک بجٹ کا پچیس فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں پھر کہتے ہیں اتنے کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں سکول ہو تو بچہ جائے دیہاتی پرائمری سکولوں میں بیٹھنے کو ٹاٹ،پینے کا پانی نہیں ہوتا ایک پرائمری ٹیچر پانچ کلاسوں کو پڑھاتا ہے کالج یونیورسٹی کی تعلیم غریب کی اوقات نہیں دوسری طرف برن ہال لارنسکالج ایچی سن صادق پبلک سکول ایڈور کالج کیڈٹ کالج ہیں نظام تعلیم طبقاتی ہے ما ہوار فیس ہزاروں روپے بھٹو بے نظیر بلاول اس لئے بیرون ملک پڑھے کہ وسائل تھے بی بی نے کہا میں تین پشتوں سے جاگیردار ہوں لوہار نہیں یہ نہیں کہ یہ لوگ کسی غریب کے محروم بچے سے زیادہ ذہینو فطینتھے یہاں صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں غریب کا بچہ کسی موٹر گیراج ہوٹل میں چھوٹو ہوتا ہے مولانا سمیع الحق کو عمران خان 28کروڑ دیتے ہیں شاہ زین بگٹی کو چوہتر کروڑ ملتے ہیں فائز قاضی کی بیگم کو ایف بی آر کو تین کروڑ ٹیکس جرمانہ دیتی ہے امریکہ میں بھی ارب پتی ہیں مگر ٹیکس نظام ہے امریکہ میں جوک JOKEہے کہ خلا باز چاند پر اترے ایک نے پیغام بھیجا کل ٹیکس گوشواروں کا آخری دن ہے گوشوارے جمع کریں ورنہ واپسی پر مصیبت میں پڑ جاؤں گا –

اپنا تبصرہ بھیجیں